نوٹ: یہ کالم ’’نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ‘‘ کے سلسلے کا تیسرا کالم ہے۔
گذشتہ دو کالم، ”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“، اور ”نجی سکول اور تعلیم کا تقدس“ ایک ایسا سیاق وسباق مہیا کرتے ہیں، جس میں تعلیم اور کاروبار، اور بالخصوص تعلیم کے کاروبار سے متعلق تعصبات کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ پیشِ نظر کالم میں ’تعلیم کے کاروبار‘ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ جہاں تک کاروبار کے ساتھ جڑے تعصبات کی بات ہے تو ان پر پہلے ہی مختصر بحث ہو چکی ہے۔ کاروبار کے بار ے میں نہ صرف تعصبات، بلکہ غلط فہمیاں کثرت سے عام ہیں؛ یہاں ان سب پر توجہ دینا مناسب نہیں۔ ہاں، ایک اہم تعصب کو کھولنا ضروری ہے۔
یہ تعصب خود کاروبار کی نوعیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس تعصب کی تشکیل اور ترویج میں معاشیات اور اس سے متعلق علوم کے ماہرین خاصے قصور وار ہیں۔ جیسے کہ وہ، معاشی سرگرمی، یا دولت کی تخلیق پر فوکس رکھنے کے بجائے، یا اسے نظر انداز کر کے، اس کے دوسرے پہلوؤں اور مضمرات کو مرکز بنا لیتے ہیں۔ اس ضمن میں، غلط فہمیاں اور گمراہ کن تصورات پھیلانے میں نظریاتی معاشیات اور اس سے متاثرہ سیاسی تحریکات نے کہیں زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ ان سب نے دولت کی تخلیق کے بجائے، دولت کی تقسیم کو مرکزِ توجہ بنائے رکھا ہے۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جب دولت تخلیق ہی نہیں ہو گی تواس کی تقسیم کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے بیشتر سے زیادہ مسائل اسی قضیے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ دولت تخلیق ہونے دی جائے، بلکہ حکومت کا کام یہ ہے کہ نجی سیکٹر کو دولت کی تخلیق کے لیے آسانیاں اور ترغیبات مہیا کرے؛ تخلیق ہونے والی دولت کوئی تجوریوں میں پڑی گلے سٹرے گی نہیں، بلکہ کاروباری انداز میں خود تقسیم ہوتی رہے گی۔
ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ بائیں بازو کی ذہنیت سے معمورایک کارٹون یاد آتا ہے: ایک بڑے بیش قیمت کمرے میں باپ بیٹا آرام کرسیوں پر دراز ہیں۔ باپ بیٹے سے کہتا ہے: بیٹا تمہیں اتنی تکلیف تو کرنی پڑے گی، نوکر کو کال کرو کہ کھانا لے آئے۔ گو کہ اس میں دولت مند افراد کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے، پر اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ ان باپ بیٹوں نے یہ دولت کیسے تخلیق کی یا کمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی دولت کمانا چاہتا ہے، تاہم، سوسائیٹی میں دولت کمانے کے خلا ف، اور دولت مند افراد کے خلاف عجیب وغریب تعصبات ذہنوں میں جمے ہوئے ہیں۔
قدیم انسان کو بھی زندہ رہنے کی جدوجہد کرنی پڑی، اور آج کے جدید تر انسان کے بارے میں بھی یہی بات درست ہے۔ انسان کے زندہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی متعدد بنیادی، اورپھر زندگی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل کرے۔ ایک فرد اپنی کل ضروریات کی تکمیل کا سامان تن تنہا پیدا نہیں کر سکتا۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان ایک معاشرتی ہستی قرار پایا۔ سب انسان ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ اس مجبوری نے کام میں اختصاص کا تصور پیدا کیا۔ ایک آدمی کپڑا، اچھا بُن سکتا ہے؛ دوسرا، اناج اگانے میں مہارت رکھتا ہے؛ تیسرا آدمی تدریس کے کام پر عبور رکھتا ہے۔ اسی طرح، د وسرے کام، دوسرے لو گ بہتر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ یوں، انسان نے مل جل کر کام بانٹے اور پھر دوسروں کے ساتھ اپنی بنائی ہوئی اشیا کا تبادلہ کر کے اپنی ضروریات پوری کرنا سیکھیں۔ یہی بنیادی معاشی سرگرمی ہے۔ یہی دولت کی تخلیق کاعمل ہے۔
دولت کی تخلیق کے اس عمل کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے: ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کا عمل۔ یعنی ہم ایک دوسرے کی باہمی ضروریات بہتر طور پر کیسے پوری کرتے ہیں۔ اس عمل میں کچھ تصورات مضمر ہیں، جن کی پیروی کیے بغیر یاجن پر عمل درآمد کے بغیر دولت کی تخلیق کا عمل (یا ایک دوسرے کی باہمی ضروریات پوری کرنے کا عمل) ہمواری کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ ان میں سے ایک اہم تصور یہ ہے کہ جو شے جس فرد نے تخلیق یا پیدا کی ہے، اس پر اس کی ملکیت کا حق تسلیم کیا جائے؛ اور دوسرا، اہم تصور یہ ہے، جو پہلے تصور سے ناقابلِ علاحدہ طور پر جڑا ہوا ہے کہ اس شے کے تبادلے کا حق بھی اسی فرد کو حاصل ہو، جس نے اسے تخلیق یا پیدا کیا ہے۔ تبادلے کے حق میں اس شے کی قیمت کے تعین کا حق بھی شامل ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شے تخلیق یا پیدا تو اکرم کرے، مگر اس کے تبادلے کے معاملات کا تعین اسلم کرے، اور تبادلے کے لیے اس کی قیمت کا تعین اسلم یا اجمل کرے، یا اسلم اور اجمل دونوں کریں۔ یہ حق وہی ہے، جسے حقوقِ ملکیت (پراپرٹی رائیٹس) کا نام دیا جاتا ہے، اور یہ دولت کی تخلیق کی اولین شرائط میں سے ہیں۔ ان حالات میں کیا اکرم کوئی شے تخلیق کرنا پسند کرے گا، جبکہ اسے معلوم ہو کہ یہ شے اسلم اس سے چھین لے گا، یا یہ اسلم کو دے دی جائے گی، اور اگر یہ شے اس سے جدا نہیں بھی کی جائے گی تو اس کے تبادلے کے معاملا ت اور خاص طور پر اس کی قیمت کے تعین کا حق اس سے لے کر اجمل کو دے دیا جائے گا؟
اب واپس تعلیم کے کاروبار کی طرف آتے ہیں۔ جیسے جیسے معاشرہ ترقی یافتہ ہوا، علوم وفنون کو افزائش ملی، انسانی زندگی میں بیش از پیش بہتر ی آئی، اور فرد کو اجتماعیت کے شکنجے سے بتدریج آزادی حاصل ہوئی، اس کے لیے تعلیم کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوا۔ اب تعلیم کے حصول کے بغیر اچھی زندگی گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ جیسے کے آج کی دنیا میں تعلیمی خواندگی کے ساتھ ساتھ ، کمپیوٹر خواندگی کا نمایاں ہونے والا تصور اسی چیز پر دلالت کرتا ہے۔ سو ایک ایسی سوسائیٹی میں، جہاں تعلیم فرد کی بنیادی ضرورتوں میں داخل ہو گئی ہو، وہاں ایسے افراد، یا افراد کے ایسے گروہوں، یا ایسے کاروبار کا جنم لینا ناگزیر ہو گیا، جو افراد کی تعلیم کی یہ ضرورت پوری کرتے ہوں۔ طلب موجود تھی، رسد مہیا کی گئی۔ اور یوں تعلیم کے کاروبار کو ترقی ملی۔
متذکرہ بحث سے یہ باتیں سامنے آتی ہیں کہ تعلیم کا کاروبار بھی افراد کی باہمی ضروریات پوری کرنے کے عمل کا ایک حصہ ہے۔ سوسائیٹی کے کچھ افراد نے تدریس میں، تعلیم کے کاروبار کے نظم ونسق میں، اور اس سے متعلق مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کر لی، اور دوسرے افراد کی تعلیمی ضروریات کو پوری کرنے کا سامان کرنے لگے۔ تعلیم کا کاروبار کوئی ایسا کاروبار نہیں، جو دوسرے افرا د کی ضروریات پوری نہ کرتا ہو؛ بصورتِ دیگر یہ ناکام ہو گیا ہوتا۔ مشاہد ہ بتاتا ہے کہ مختلف علاقوں اور آبادیوں میں کتنے نئے سکول کھلتے ہیں، مگر وہی سکول کامیاب ہوتے ہیں، جو مناسب قیمت میں اچھی تعلیم مہیا کرتے ہیں۔ یہ وہی ایک دوسرے کی ضروریات بہتر سے بہتر اندازمیں پوری کرنے والی بات ہے۔ اس میں مقابلہ بازی کا کردار بھی اہم ہے۔ نئے سے نئے سکول کھلتے ہیں، اور نئے سے نئے، اور بہتر سے بہتر انداز میں افرا د کی بڑھتی اور پیچیدہ ہوتی ہوئی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ جو سکول بہترین کوالیٹی کی تعلیم کم قیمت میں مہیا کرتا ہے، اسے کامیابی ملتی ہے۔ یہاں ایک بات غورطلب ہے کہ افراد کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کا کام بہتر انداز میں نجی سیکٹر نے انجام دیا۔ نجی سکولوں کی روز افزوں ترقی، اس کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ جبکہ ایک دوسری حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ تعلیم کا سرکاری یا حکومتی سیکٹر بری طرح ناکام ہو گیا۔ آئندہ کالم میں نجی سکولوں کی کامیابی اور سرکاری سکولوں کی ناکامی کو موضوعِ بحث بنایا جائے گا۔
[یہ کالم 8 جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں