دروازے پر بیل ہوئی۔ جا کر دیکھا تو شاہد اور ظفر کار لیے کھڑے تھے: ’گوجرانوالے جانا ہے۔‘
’میں تو ابھی سو کر اٹھا ہوں۔ نہانا بھی ہے۔‘
نہانے کا وقت نہیں۔ شام سے پہلے واپس آنا ہے۔‘
’منہ ہاتھ تو دھو سکتا ہوں؟‘
’ٹھیک ہے۔‘
سفر شروع ہوا تو پتہ چلا پہلے ڈسکے جانا ہے۔ ایک پیر صاحب کے دربار پر حاضری دینی ہے۔ پھر بات کھلتی گئی۔ جی ـ ٹی ـ روڈ پر ایمن آباد موڑ سے ڈسکہ ـ پسرور روڈ پر مڑے تو شاہد کی جیب سے ایک پرچی نکل آئی: ’’ڈسکہ ـ پسرور روڈ؛ کوٹلی باوے دی۔ نہر کا پل۔ پِنڈ رچھاڑہ۔ دربار رچھاڑہ شریف۔‘‘
’وہاں ایک تالاب ہے۔ کہتے ہیں اس میں نہانے سے جووڑوں کا درد، ہڈیوں کا درد، جِلدی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ سوچا یہ بھی آزما کے دیکھ لیا جائے۔‘ شاہد نے بتایا۔
’کوئی ہرج نہیں۔ Belief has its own power!‘ میں نے کہا۔
’But disease has its own logic!‘ اس کا جواب تھا۔
’سنا ہے، گوجر خان میں بھی ایک ایسی جگہ ہے ۔‘
’یہاں کچھ نہ بنا تو وہاں بھی چلے جائیں گے۔‘ شاہد نے ہنستے ہوئے کہا۔
تقریباً پونے گیارہ بجے گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ پکی کچی سڑکوں سے ہوتے ہوئے، ایک بجے کے قریب دربار رچھاڑہ شریف پہنچ گئے۔ وہاں میلہ شروع تھا۔ روزوں اور گرمی کی وجہ سے رونق ماند پڑی ہوئی تھی۔ چھوٹے موٹے سرکس، جھولے، دکانیں لگی تھیں۔ ٹانگے ریڑھے عقیدت مندوں کو لا، لے جا رہے تھے۔
تالاب کے ساتھ تھوڑی اونچائی پر چھوٹا سا دربار بنا ہوا تھا۔ ایک طرف عورتوں کے نہانے کے لیے کچھ غسل خانے تھے۔ لوگ باگ تالاب میں نہا رہے تھے، اپنے بچوں کو نہلا رہے تھے۔ ہم نے شاہد کو حوصلہ دلایا کہ شرم کی کوئی بات نہیں، سب لوگ ہی کپڑے باندھ باندھ کر تالاب میں اتر رہے ہیں۔ وہ بھی تولیہ لپیٹ کر احتیاط سے قدم رکھتا ہوا گدلے مٹیالے پانی میں اتر گیا۔
اب ظفر نے اپنا تجزیہ پیش کیا: ’طویل بیماری سب خیالات الٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔‘
’ہاں۔ یہ تو ہوتا ہے۔ ذہنی فکری بنیادیں سب ہِل کر رہ جاتی ہیں۔‘ میں نے ایک خاص ذہنی حالت محسوس کرنے کی کوشش کی۔
’یار! یہاں نلکا کوئی نہیں؟‘ شاہد گار سے لتھڑے ہوئے پیر دھونا چاہتا تھا۔
’ہے، اُدھر ہے۔‘ ظفر نے اشارہ کیا۔
’پہلے ذرا دربار تو دیکھیں نا۔ تالاب میں تو نہا لیا۔ پیر صاحب سے کوئی سلام دعا نہیں۔‘ میں نے تجویز کیا۔
ہم دربار کے پاس آ گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا گول کمرہ تھا۔ اوپر گول گنبد۔ چاروں طرف سے بند۔ ایک طرف جالی لگی ہوئی۔ سارا سبز رنگ کا۔ دربار کے اِرد گِرد عورتوں کی بھیڑ زیادہ تھی۔ ہم تینوں نے اس امید میں دربار کا چکر لگا ڈالا کہ اس کے قریب جا کر پیر صاحب کا نام تو پڑھ لیں۔ اور ذرا اندر بھی جھانک لیں۔ ظفر کا خیال تھا کہ اندر کوئی دفن نہیں، بس تالاب ہی پیر ہے۔
’چلنا چاہیے۔‘ شاہد نے کہا۔ ہم واپس چل پڑے۔ میں چند قدم آگے چل کر رک گیا۔ دربار کے قریب دھوتی کُرتے میں ملبوس ایک ڈھولی کھڑا تھا۔ ایک عورت نے اسے روپے کا نوٹ پکڑایا۔ وہ ڈھول بجانے لگا: ڈگ ۔ ڈگا ۔ ڈگ ۔ ڈگ ۔
چند لمحوں بعد وہ رک گیا۔ اس کا چہرہ پسینے سے شرابور اور بے نور تھا۔ پیروں میں جوتی نہیں تھی۔ کپڑے میلے اور پھٹے ہوئے تھے۔ رنگ، موسموں کی بے رحمی کی وجہ سے بے رنگ ہوا ہوا تھا۔ آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں۔ وہ ایک لمبا تڑنگا چوڑی ہڈیوں والا درمیانی عمر کا انسان تھا۔
ایک عورت اور آئی۔ ڈھولی نے نوٹ پکڑ کر کُرتے کی جیب میں ڈالا اور ’ڈگ ۔ ڈگا ۔ ڈگ ۔ ڈگ ۔‘ پھر شروع ہو گئی۔
میں کھڑا اسے دیکھتا رہا اور میرا ذہن جانے کیا کیا دیکھ اور سوچ گیا: کیا زندگی ہے اس کی۔ اسی طرح میلوں ٹھیلوں میں جاتا ہو گا اور ڈھول بجاتا ہو گا۔ اور روزی کماتا ہو گا۔ روزی کیا؟ بس زندگی گھیسٹنے والی بات ہو گی۔ نہ اچھا کھانا، نہ اچھا پہننا۔ ٹوٹا پھوٹا بے رونق گھر۔ بیمار ماں باپ۔ پتہ نہیں زندہ ہیں کہ مر گئے۔ لاغر اور ہر سال دو سال بعد بچہ جنتی ہوئی بیوی۔ ناکافی خوراک پر میلے کچیلے کپڑوں میں پلنے والے بچے۔ سکول کیا جاتے ہوں گے۔ کتابوں اور فیس کے پیسے ہوں گے تو سکول جائیں گے نا۔ بڑے ہو کر چوری چکاری کریں گے۔ بدمعاش بنیں گے۔ نشہ کریں گے۔ یا بڑے ہو کر یہ بھی ڈھولی بن جائیں گے۔ یا اسی طرح کا کوئی کام کریں گے۔ ان کی بھی شادی ہو جائے گی۔ اور پھر یہ چکر یونہی چلتا رہے گا۔ غریبی کا نہ ختم ہونے والا چکر۔
ظفر اور شاہد اوجھل ہو چکے تھے۔ میں بھی بوجھل دل کے ساتھ چل پڑا۔ وہ دونوں کار میں بیٹھے میرے منتظر تھے۔
سفر دوبارہ شروع ہوا تو میں نے پوچھا: ’اب؟‘
’اب اسسٹینٹ کلیکٹر کسٹمز اینڈ ایکسائز گوجرانوالہ کے دربار پر حاضری دینی ہے۔‘ ظفر کا موڈ خوشگوار تھا۔
’دوپہر کا کھانا واہلے کے ساتھ کھانا ہے۔ فون پر اس سے طے ہو گیا تھا۔ وہ انتظار میں ہو گا۔‘ شاہد نے بتایا۔
خوش گپیاں ہوتی رہیں اور راستہ کٹتا رہا۔ پر میں اندر سے اس ڈھولی کے لیے ملول تھا۔ اچانک ذہن نے پلٹا کھایا: سارے ترقی پسند ادب میں بھی تو انسان کا یہی تصور رہے۔
میں بھی اس ڈھولی کے لیے رحم، ہمدردی، اور ترس کے جذبات کا شکار ہوں۔ یہی کچھ اس ادب میں بھی ہے۔
انسان کو اس کی خاص صورتِ حال سے علاحدہ کر لیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں۔ اس کا ذہن، اس کی سوچ، سب کچھ اس میں سے نفی کر دیتے ہیں۔ اور باقی کیا رہ جاتا ہے ترحم کا مارا انسان۔
ایک انسان کے بارے میں دوسرا انسان اپنے ذہن سے سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ یہ تو ایک سماجی اور اجتماعی حقیقت ہے: غریبی اور استحصال۔ اس میں ترحم یا ترس کھانے والی تو کوئی بات نہیں۔
اس ڈھولی کی اپنی زندگی ہے، اپنا ذہن ہے، اپنی سوچ ہے، اپنی خوشیاں اور اپنے غم ہیں۔ اس کے اپنے شب و روز ہیں۔ زندگی میں اس کی اپنی جد و جہد ہے۔
مجھے کیا حق ہے کہ میں اسے غریب اور اپنی ہمدردی کا مستحق سمجھوں۔ یا اس کی تصویر کے نیچے لکھ دوں:
’Poor Dholi!‘
یہی تو انسان کا رومانوی تصور ہے۔
مجھے یاد آیا۔ مارٹن ہائیڈیگر (Martin Heidegger) نے اپنی کتاب، ’What is philosophy?‘ میں ایک جگہ آندرے ژید کو کوٹ کیا ہے:
’With fine sentiments, bad literature is made.‘
ہمارے ادب کے بارے میں کتنی صحیح بات ہے۔
ہم انسان کے اند رجا ہی نہیں سکے ہیں۔ یا جانا نہیں چاہتے۔ جا ہی نہیں سکتے۔ ہم تو Dogmatism اور Formalism میں گرفتار ہیں۔
جاتے بھی ہیں تو کہیں باہر سے مانگا ہوا ساز و سامان لے کر۔ اپنا گھڑا گھڑایا ذہن لے کر۔ اس سے تو نہ جانا بہتر ہے۔
تبھی تو ہم اجتماعیت کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ کیونکہ انفرادیت کو سمجھ نہیں سکے۔
اکثریت کو روتا دیکھ کر ہم کہہ دیتے ہیں، انسان رو رہا ہے۔ اکثریت کو بے مایہ دیکھ کر ہم کہہ دیتے ہیں، انسان غریبی میں گرفتار ہے۔
مسئلہ تو یہی ہے: اجتماعیت، اندر کی انفرادیت سے، جب سب انفرادیتیں مل جائیں، تب پیدا ہوتی ہے؟
ہم شروع ہی غلط تصور سے کرتے ہیں۔ انسان کا غلط تصور بنا لیتے ہیں۔ پھر انسان کو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے بارے میں پہلے سے طے کر لیتے ہیں۔ اور پھر اس کے اندر سفر کرتے ہیں۔ ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ وہ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ کیا ہے، اسے کیا ہونا چاہیے۔
[یہاں میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ ہم اسے آزادی نہیں دیتے کہ وہ خود سوچے وہ کیا ہونا چاہتا ہے، اور خود وہ وہ ہو، جو وہ ہونا چاہتا ہے!]
اس طرح خاک سمجھ آئے گا انسان۔
قریب قریب ہمارے سارے ادب میں، جو آج بھی لکھا جا رہا ہے، انسان کا بنیادی تصور ہی غلط ہے۔
انسان کا رومانوی تصور: خیالی تصور، جھوٹا تصور۔ باہر سے تھونپا ہوا تصور۔
جھوٹی انفرادیت، جھوٹی اجتماعیت۔
اور جو ترقی پسندوں کی حقیقت پسندی ہے، وہ؟
وہ تو بس اتنی ہے کہ استحصال زدہ ’قابلِ رحم‘ لوگوں کے بارے میں لِکھو۔ ’جنس‘ کے بارے میں لکھو۔ وہ بھی تو رومانویت کے مارے ہوئے ہیں۔
چلو جنس کو تو منٹو نے رومانویت سے باہر کھینچ نکالا۔ رومانویت کا ملمع اتار دیا اس پر سے۔
لیکن اس ظلم اور استحصال کو مظلوم کی آنکھ سے کسی نے نہیں دیکھا۔ عورت پر ہونے والے ظلم اور استحصال کو بھی۔ یا دیکھا تو شاید نہ ہونے کے برابر۔ اور عورت کو بھی ایک ’’رومانوی مخلوق‘‘ بنا کر رکھ دیا۔
ایک مرتبہ پنجابی ادبی سنگت، لاہور، کے اجلاس میں ایک پروفیسر صاحب کی کہانی سنی تھی۔ پتہ نہیں کیا نام تھا ان پروفیسر کا؟ کہانی کسی مزدور کے بارے میں تھی، جو پکی قبریں بناتا تھا اور اس کا اپنا مکان کچا تھا۔ پروفیسر صاحب خود اس میں ’’حلول‘‘ کر گئے تھے۔ اور یوں، وہ مزدور تو غائب ہو گیا تھا، باقی رہ گئے تھے پروفیسر صاحب۔ تو انھوں نے وہ، وہ فلسفے جھاڑے اور بلھے شاہ اور شاہ حیسن کو وہ وہ کوٹ کیا کہ مجھے اپنے سر میں دھواں پھرتا محسوس ہونے لگا تھا۔
یہی نہیں۔ پھر اس کہانی کی تعریف کتنی ہوئی تھی!
ابھی جب پچھلے دنوں راولپنڈی میں، حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس میں وہاں مرزا حامد بیگ کی کہانی سنی تھی۔ ہاں، ’دستک‘ عنوان تھا اس کا۔
یہ بھی ویسی ہی تھی۔ مگر فنی طور پر اس سے بہتر تھی۔ اس میں’حلول‘ والا چکر نہیں تھا۔ پر اس کا Treatment، Romantic تھا۔
ایک دیہاتی لڑکی کے عشق کے بارے میں تھی۔ اس کی ’مقدرانہ‘ ناکامی پر ترس کھایا گیا تھا۔
میری رائے تھی کہ رومانویت، ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے۔
اگر اس کہانی کو حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا جاتا تو یہ زیادہ اثر انگیز ہوتی۔
مطلب میرا یہ تھا کہ افسانہ نگار کو کہانی کو اپنی رائے سے پاک رکھنا چاہیے تھا۔
ویسے بھی، جب کہانی خود سب کچھ کہہ رہی ہو تو پھر لکھنے والا کچھ بھی کہے، اس کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
تبھی تو ہم (سامعین اور قارئین) کرداروں کی موضوعی منطق اور واقعات کی معروضی منطق اور ان کے تعلق کو سمجھ نہیں پاتے۔ لکھنے والا جو درمیان میں بولنے لگتا ہے۔ کہانی نے تو چپ ہی کرنا ہوا پھر!
اور یوں کہانی ایک بے جان لاشہ بن کر رہ جاتی ہے، جس کی نمائش اس کا مالک جیسے چاہے کرتا رہے۔
[بلکہ یہ مالک اس پر بین کرنا شروع کر دیتا ہے!]
وہاں اجلاس میں ایک اور صاحب بھی موجود تھے، جنھوں نے اپنی بات کچھ یوں شروع کی تھی: ’مرزا حامد بیگ، ادب کی دنیا میں بہت بڑا نام ہے۔ اور ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔‘
’کیا بڑے نام سے رومانویت جائز ہو جاتی ہے!‘ میں سوچ رہا تھا۔
لیکن پھر بعد میں، میں یہ بھی سوچتا رہا کہ کیا رومانویت محض ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے۔ یا اس سے بڑھ کر، اور اس سے علاحدہ بھی کچھ ہے۔
دراصل اس کا آغاز کچھ یوں ہوا تھا کہ میں نے راجندر سنگھ بیدی کے افسانے پڑھنے شروع کیے، لیکن چند مجموعے پڑھ کر ہمت ہار بیٹھا۔ ’دانہ و دام‘، ’گرہن‘، اور کچھ اور مجموعے۔ بس!
افسانے پڑھ کر رقت طاری ہو جاتی۔ گلا رندھ جاتا۔ اور پھر مجھے اس سب سے کراہت آنے لگی۔
اب مجھے ’ڈھولی‘ کے بارے میں اپنے خیالات سے بھی کراہت آ رہی تھی:
کیا افسانہ نگار ’’ذاکر‘‘ ہوتا ہے! اور افسانہ ’’مجلسِ شامِ غریباں‘‘!
میں کون ہوتا ہوں کسی پر رحم کھانے والا۔ کسی پر ترس کھانے والا۔ کس نے دیا مجھے یہ حق؟
افسانے، کہانیاں، ناول کوئی کرسی میز تو نہیں۔ انھیں جیسا چاہو بنا دو اور جو دل میں آئے وہ رنگ کر دو۔ اور سجا دو۔ بیچ دو، مارکیٹ میں۔
یہ تو خود ’’رنگ‘‘ پیدا کرنے والی بے ہیئت شکلیں ہیں۔ اِدھر اُدھر بکھری ہوئی۔ لکھنے والے کا کام ان کو اکٹھا کرنا ہے۔،
اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکٹھا کرنے کےبہت مختلف اور بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ نظریے ہو سکتے ہیں۔ فلسفے ہو سکتے ہیں۔
ایک طریقہ، نظریہ یا فلسفہ ایک خاص طرح کے کردار و واقعات کو منتخب کرے گا۔ دوسری طرح کا طریقہ، نظریہ یا فلسفہ دوسری طرح کے کردار و واقعات چنے گا۔
اُلٹ بھی تو ہو سکتا ہے۔ کہ کردار و واقعات انتخاب کر لیے جائیں، اور پھر ۔ ۔ ۔
لیکن ہر انتخاب کے پیچھے بھی تو کوئی نہ کوئی طریقہ، نظریہ یا فلسفہ چھپا بیٹھا ہو گا۔
مگر اس پر تو کوئی اعترا ض نہیں۔ اس سے کوئی اختلاف نہیں۔
لکھنے والا کوئی بھی طریقہ، نظریہ یا فلسفہ اپنا سکتا ہے۔ میرا کہنا تو صرف یہ ہے کہ اسے کسی کے بارے میں ’’اپنا جھوٹ‘‘ سچ بنا کر پیش کرنے کا کوئی حق نہیں۔
یوں تو سارا فن، ’’جھوٹ‘‘ کو ’’سچ‘‘ بنانے کا فن بن کر رہ جائے گا۔
پھر فن، فن تو نہ رہا نا! دروغ گوئی رہ گئی!
اور پھر ہمارے باہر، ہر ایک کے باہر، حقیقت میں موجود کرداروں، کہانیوں کا کیا بنے گا۔ ان کی سچائی کو کون پیش کرے گا!
ظفر اور شاہد نفسیات کے کسی مسئلے پر بحث کر رہے تھے۔ مجھے چپ دیکھ کر وہ میری طرف متوجہ ہوئے: ’واپس آ جاؤ۔‘
’سستی ہو رہی ہے۔ چائے پلاؤ۔‘ میں سیٹ پر دراز ہو گیا۔
’لیکن جدید سائیکالوجی تو Humanistic ہے ۔ ۔ ۔‘ ظفر اپنی بحث جاری رکھنا چاہتا تھا تاکہ نفسیات کی مدافعت کر سکے۔
میرا ذہن بہت پیچھے چلا گیا۔
یہ بڑا عجیب سا تھا میرے ساتھ ۔ میڑک تک، ’’سماجی‘‘، ’’منطقی‘‘، یہ لفظ سمجھ ہی نہیں آتے تھے۔
پھر آگے چل کر اسی طرح دو اصطلاحات ’کلاسیکیت‘ اور ’رومانویت‘ نے بڑا پریشان کیا۔ آخر میں نے طے کر کے ان کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ نوٹس بنائے، Points لکھے۔ کہ کلاسیکیت کیا ہوتی ہے، رومانویت کیا ہوتی ہے؟
کیا ہوتی ہے رومانویت؟
اب تو چند ایک باتیں ہی رہ گئی تھیں ذہن میں: یہ کہ اس میں داخلیت غالب ہوتی ہے؛ یہ کہ اس میں ماضی پرستی کی طرف رجحان ہوتا ہے۔ اور تخیئل پرستی اور جذباتیت اس کا خاص وطیرہ ہیں، اور فطرت پرستی بھی۔
کہیں یہ بھی پڑھا تھا کہ یہ چیزیں کلاسیکیت میں بھی آ سکتی ہیں۔ پھر؟
لیکن یہ تو ایک تحریک ہے۔ رومانویت کی تحریک۔ ادب میں، آرٹ میں۔
نہیں، پہلے یہ ایک رویہ ہے، Attitude۔ اور رویے ہی سے پھر تحریک پیدا ہوتی ہے۔
بنیادی بات ہے رویے کی۔ رویہ تبدیل کرنا ہے تو تصورات بھی تبدیل کرنے پڑیں گے۔
انسان کی طرف رویہ بھی، اور انسان کا تصور بھی۔ سب تبدیل کرنے پڑیں گے۔
ایک بات اور یاد آئی۔ پتہ نہیں کہاں پڑھی تھی۔
کلاسیکیت کو Law of the Day اور رومانویت کو Passion of the Night کا نام دیا گیا تھا۔
یہ تو محض اشارے ہوئے نا! فرق کرنے کے لیے۔ روح کو سمجھنے کے لیے۔
اصل مسئلہ تو وہی ہے کہ کلاسیکیت اور رومانویت انسان کا کیا تصور رکھتی ہیں۔ صرف انسان کا ہی نہیں، بلکہ کائنات کا تصور بھی۔
ایک دفعہ استادِ محترم لخت پاشا کے ساتھ اداکاری پر بات ہو رہی تھی۔ میرا کہنا تھا: ’اداکار وہ اچھا ہوتا ہے، جو اپنے آپ کو کردار میں گم کر دیتا ہے۔ اور وہی کردار بن جاتا ہے۔‘
استادِ محترم کا نقطۂ نظر اور تھا: ’اداکار وہ اچھا ہوتا ہے، جو کردار میں اپنے آپ کو گم نہیں کرتا۔ بلکہ اپنی انفرادیت کو بھی برقرار رکھتا ہے۔‘
اس بات کی گہرائی اور گیرائی بعد میں، کافی کچھ پڑھنے، دیکھنے اور سوچنے کے بعد سمجھ میں آئی۔
جن دنوں میں پی ۔ ٹی ۔ وی میں تھا۔ ایک مرتبہ موسیقی کے پروگراموں کے پروڈیوسر فرخ بشیر سے پوچھا تھا: ’خیام میں ایک خاص بات ہے؟‘
انھوں نے کہا: ’Stylist ہے خیام، بہت بڑا سٹائیلِسٹ۔‘
یہ تو بہت دور کی باتیں ہیں۔ پہلا قدم تو یہی ہے کہ کردار کو، کہانی کو سمجھا جائے۔ جیسے کہ وہ خود ہیں۔
تو کیا افسانہ نگار، ناول نگار، سٹائیلِسٹ نہیں ہو سکتا۔
ہو سکتے ہیں۔ جھوٹ بولنے میں بھی سٹائیلِسٹ ہو سکتے ہیں۔
’’اپنے جھوٹ‘‘ کو ’’سچ‘‘ بنا کر پیش کرنے کے طریقے میں بھی سٹائیلِسٹ ہو سکتے ہیں۔
جیسے قرۃ العین حیدر۔
یار تم لوگوں نے ’’چاندنی بیگم‘‘ پڑھا۔ میں شاہد اور ظفر سے پوچھا۔
شاہد نے فوراً اپنے ہاتھ کا مائیک بنا کر میرے منہ کے آگے کر دیا۔ اس کا مطلب تھا، مختصر رائے کیا ہے۔ میں نے کہا: ’Trash!‘
اب ظفر کی باری تھی: ’پہلے کی چیزوں سے کم۔‘
قرۃ العین کے سٹائیل میں لکھا ہوا، فلمی سا ناول لگتا ہے۔‘ میں بولنے لگا:
’I am sick of Romanticism!‘
’I am sick of Romanticism!‘
'جب کسی کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آ جائے تو، مجھے سمجھ نہیں آتی، پھول کیوں مرجھا جاتے ہیں۔ پرندے کیوں غمگین ہو جاتے ہیں۔ اور سورج کیوں منہ چھپا لیتا ہے۔ درختوں سے پتے جھڑ جھڑ کر کیوں گرنے لگتے ہیں۔ بادل کیوں گرجنے اور بجلی کیوں چمکنے لگتی ہے۔ اور ساری کائنات آنسو کیوں بہانے لگتی ہے۔
ہیروئین کے ذہن میں جب ہیرو کی جدائی کا خیال آتا ہے تو ایک پرندہ کھلی کھڑکی کے پاس سے اڑ کر کہیں دور کیوں چلا جاتا ہے۔
یہ سب میں نہیں سمجھ سکتا۔
ٹھیک ہے کسی بھی کردار کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ چلیں اس کا ایکسیڈینٹ ہو گیا۔ سب کو پتہ ہے اس کا ایکسیڈینٹ ہو گیا۔
لکھنے والے اس کی مزاج پرسی اور عیادت کیوں شروع کر دیتے ہیں: یار، بڑا افسوس ہوا، تمہاری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب ہیروئن تم سے شادی کیسے کرے گی؟
چلو کرا دیتا ہوں۔ کیا یاد کرو گے تم بھی!'
شاہد نے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ ظفر کو بھی اسی طرح کی کوئی بات یاد آ رہی تھی۔
میں پھر بول پڑا: ’اگر ’’چاندنی بیگم‘‘ کی کانٹ چھانٹ کی جائے تو یہ سو صفحوں سے زیادہ کا ناول نہیں۔
جو ہمارے ٹی ـ وی پر ہاکی اور کرکٹ کے Commentators کا المیہ ہے، وہی ہمارے لکھنے والوں کا المیہ بھی ہے۔ اور Tele-Plays کا بھی۔‘
’ان کا تو بس نہیں چلتا۔ ورنہ گیند اور بیٹ کا رنگ بھی بتانا شروع کر دیں۔‘ شاہد نے اضافہ کیا۔
’بس اسی طرح جب کوئی ہیروئن اقرارِ محبت کرتی ہے۔ تو لکھنے والے کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ہیرو کے اندر ہونے والے تالیوں کے شور اور لوگوں کی نعرے بازی کو ضرور بیان کرے۔
ایسے ہی جب ہیرو کی ماں بیمار ہوتی ہے، اور اس کے پاس دوائیاں لانے کے لیے پسیے نہیں ہوتے تو طبقاتی استحصالی نظام پر تبرا ضروری ہو جاتا ہے۔
بھائی! آپ جا کر کوئی مضمون لکھ لیں۔ تقریر کر ڈالیں۔ افسانے یا ناول کی گت ضرور بنانی ہے۔‘ میں چپ کر گیا۔
’یہ تو ہے!‘ شاہد پوشیدہ Irony کو نمایاں کرنا چاہتا تھا۔
’یار، راستہ پوچھنا پڑے گا۔ پہلے میں ادھر سے نہیں آیا تھا۔ جی ـ ٹی ـ روڈ سے آیا تھا۔‘ ظفر حسبِ معمول راستہ بھول گیا تھا اور شرمندہ شرمندہ نظر آ رہا تھا۔
راستہ پوچھتے پچھاتے ہم کوئی پونے تین بجے اسِسٹینٹ کلیکٹر کسٹمز اینڈ ایکسائز گوجرانوالہ، کے دفتر کے سامنے پہنچے۔ ایک سفید ٹویوٹا کرولا کوٹھی میں داخل ہو رہی تھی۔
’یار، واہلہ ہی چلا رہا ہے۔‘ ظفر نے اپنی شرمندگی ختم کر لی۔
میں واہلے سے کافی دنوں بعد مل رہا تھا۔ ملتے ہوئے وہ ہنس رہا تھا اور شاید ظفر سے کہہ رہا تھا:’کوئی تصویر شصویر۔‘
ہم سب ہنسنے لگے۔
میرا ذہن اب کافی ہلکا ہو گیا تھا۔ ویسے بھی بھوک چمک اٹھی تھی۔
’چلو۔ چلیں‘ واہلہ دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
’چلوکہاں۔ پیٹ خالی ہو رہا ہے۔‘ میں بولا۔
’اسی جگہ جا رہے ہیں۔ کھانے کا انتظام ہے۔‘ واہلے نے بیان دینے کے انداز میں کہا۔
کھانا کھا کر ہم چاروں لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ ’یار، واہلے وہ تمہاری ’’چاندنی بیگم‘‘ لایا ہوں، یاد سے لے لینا۔‘ میں نے اسے بتایا۔
’اوئے، تو ابھی تک ’’آگ کا دریا‘‘ سے باہر نہیں نکلا؟‘ شاہد واہلے پر ناراض ہونے لگا۔
’نہیں یار! مجھے پسند ہے۔‘ واہلہ سنجیدہ ہو گیا۔
’اب بھی اس کی ضرورت پڑتی ہے؟‘ ظفر کا اشارہ یونیورسیٹی کے گزرے دنوں کی طرف تھا۔
’اب تو وہ صحبیتیں، ملاقاتیں ہی نہیں رہیں، اب ہر چیز رومانوی رومانوی کیسے نظر آ سکتی ہے!‘ شاہد نے پوری وضاحت کر دی۔
’بچو! دیکھنے کی بات ہے۔ نظر ہونی چاہیے!‘ واہلہ پیچ کھا گیا تھا۔
’ہاں، جناب۔ Fixation بھی ایک چیز ہوتی ہے۔‘ ظفر اپنی نفسیات کو بیچ میں لے آ یا۔
’سیدھی سی بات ہے، طلب ہے تو ’چاندنی بیگمیں‘ لکھی جاتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں۔ لوگ جھوٹ پڑھتے ہیں، اسی لیے تو جھوٹ لکھا جاتا ہے۔‘ میں نے تنازعہ ختم کرنا چاہا۔
’سچ لکھو گے، تو وہ بھی پڑھیں گے لوگ۔‘ واہلہ نئے ولولے سے بولا۔
’پر لکھے گا کون؟‘ شاہد نے سوال اور جواب دونوں کو ملا دیا۔
’جو سچا ہو گا۔‘
یہاں آ کر بات ختم ہو گئی۔
ہم لاہور پہنچ چکے تھے۔
’وہ ’’چاندنی بیگم‘‘ کہاں ہے؟‘ واہلے نے رخصت ہونے کے انداز میں کہا۔
میں نے ایک بند لفافہ اسے پکڑا دیا۔
نوٹ: اس چھوٹے سے سفر میں پروفیسر ظفر جمال؛ شاہد احسان, اور سعید اقبال واہلہ کے نام آئے ہیں۔ یہ ایک دن کا مزے دار سفر تھا۔ اب اس کی یاد باقی رہ گئی ہے۔ حال ہی میں، 8 نومبر، 2012، کو سعید اقبال واہلہ ہم سے بچھڑ گئے۔ اور یہ سفر اب اور زیادہ قیمتی ہو گیا ہے۔
[یہ تحریر 28 مارچ، 1991 کو کلر سیداں، میں لکھی گئی تھی۔ حلقۂ اربابِ غالب، راولپنڈی، کے اجلاس منعقدہ 27 مئی، 1991، میں پڑھی گئی۔]
[نظر ثانی: 14 جنوری، 2013]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں