جمعہ، 6 ستمبر، 2013

خود سُدھاری کا مغالطہ

انسانی دنیا کے فیصلے تصورات کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے تصورات ہوتے ہیں، ویسی ہی ہماری زندگی ہو جاتی ہے۔ مغالطہ بھی تصور ہی کی ایک شکل ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہوتا ہے، جو بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، پرغور سے جانچا جائے تو غلط نکلتی ہے۔ خود سدھاری کا مغالطہ بھی پہلی نظر میں درست معلوم ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں اس کی تہہ میں سے کیا نکلتا ہے۔

غیر خواندہ، یا حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی خود سدھاری کے مغالطے کا اظہار کرتے دیکھے جا سکتے ہیں: ہر فرد اپنی جگہ درست ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ جو بھی اس قسم کی بات کرتا ہے، میں اس سے چھوٹتے ہی یہ سوال پوچھتا ہوں: تو پہلے آپ اپنی جگہ ٹھیک کیوں نہیں ہو جاتے۔ بات آگے نہیں چلتی۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے تصورات کو اپنے ساتھ چپکا لیتے ہیں، یا ان کے ساتھ چپک جاتے ہیں، اور جب کبھی ان تصورات کی صحت پر کوئی سوال اٹھایا جاتا ہے تو لاجواب ہو کر رہ جاتے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ خودسدھاری، قابلِ عمل ہے یا نہیں۔ ایک روزمرہ کی مثال لیتے ہیں۔ سڑکوں پرٹریفک کا جو حال ہے، کیا وہ اس خود سدھاری کے عمل سے درست ہو سکتا ہے۔ کہا جائے گا، جی، بالکل درست ہو سکتا ہے۔ کیسے؟ یوں کہ سڑک پر سفر کرنے والا ہر فرد اگر ٹریفک کے قوانین پر عمل کرنا شروع کر دے۔ فرض کریں ٹریفک پولیس سڑکوں پر موجود نہیں، اور ایک شخص ”مسافر“، ایک صبح گھر سے نکلتا ہے تو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر پوری طرح عمل کرے گا۔ وہ ایسا ہی کرتا ہے، جبکہ دوسرے تمام افراد جو سڑک پر سفرکر رہے ہیں، وہ ٹریفک کے قواعد پر عمل نہیں کر رہے۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کر رہے کہ انھوں نے ہمارے ’’مسافر“ کی طرح یہ فیصلہ نہیں کیا۔ اور اگر وہ کسی موقعے پر کچھ قواعد پر عمل کرتے ہیں تو اس کی وجہ سڑک پر ٹریفک پولیس کی موجودگی ہوتی ہے۔

اب ”مسافر“ بے چارہ رش میں پھنسا ہوا ہے، اور آگے نکل جانے کی جو دوڑ سڑک پر لگی ہوئی ہے، اس میں بے بسی سے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسرے سب لوگ ’’مسافر“ بے چارے کو پیچھے چھوڑے جاتے ہیں، اور ٹریفک قوانین کو روندتے ہوئے آگے نکلتے جاتے ہیں۔ اس صورت میں ”مسافر“ کو کیا کرنا چاہیے۔ کیا اسے اپنے عزم پر قائم رہنا چاہیے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنی منزل پر بروقت پہنچ نہیں پائے گا؛ یا اسے اپنے عزم کو ترک کر دینا چاہیے، اور سب کی طرح ٹریفک قوانین کو پامال کرتے ہوئے آگے بڑھ جانا چاہیے۔ ان سوالوں کا کچھ بھی جواب دیا جائے، اتنا ضرور واضح ہے کہ خودسدھاری کا طریقہ، قابلِ عمل نہیں۔

خود سدھاری، شخصی دائرے میں تو موثر ہو سکتی ہے، یعنی ہم اس کی مدد سے خود اپنی زندگی میں نظم وضبط پیدا کر سکتے ہیں، لیکن اجتماعی، قومی اور معاشرتی دائرے میں یہ مثبت نتائج پیدا نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک سڑک پر سفر کرنے والے تمام مسافر، یا پھر مسافروں کی اکثریت ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کرے گی، ایک دو، یا چند ایک مسافروں کے ٹریفک قوانین پر عمل کر نے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، یعنی اس طرح سڑکوں پر ٹریفک کی حالت سدھر نہیں سکتی۔

یہاں اس معاملے کی تشریح کے لیے ”قیدی کے مخمصے“ سے مدد لینا مناسب ہو گا۔ فرض کیجیے معصوم نامی ایک شخص ایک آمرانہ حکومت کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے۔ ایک صبح اسے بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ مجبور نام کے ایک شخص کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف سازش کر رہا تھا، اور یہ کہ اسے بھی گرفتار کیا جا چکا ہے، اور وہ ایک علیٰحدہ سیل میں قید ہے۔ تفتیشی افسر معصوم کو اعترافِ جرم پر مجبور کرتا ہے۔ وہ انکار کرتا ہے۔ تاہم، اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ تفتیشی افسر کو سچائی سے کوئی دلچسپی نہیں، اور حکومت کسی خاص مقصد کے لیے کسی نہ کسی شخص کو سزا دینا چاہتی ہے۔

تفتیشی افسر کے ساتھ گفتگو کے دوران معصوم کو یہ پتہ چلتا ہے: (1) اگرمجبور اعتراف نہیں کر تا، اور وہ خود اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ مجبور کے ملوث ہونے کا اقرار بھی کر لے تو اسے رہا کر دیا جائے گا۔ جبکہ مجبور کو، جس نے تعاون نہیں کیا، دس سال کی قید میں ڈال دیا جائے گا۔ (2) اگر مجبور اعتراف کر لیتا ہے اور میں اعتراف نہیں کرتا تو حالات اس کے برعکس ہوں گے۔ مجبور کو رہا کر دیا جائے گا، اور مجھے دس سال قید کی سزا دی جائے گی۔ (3) اگر مجبور اور میں دونوں اعترافِ جرم کر لیں تو دونوں کو پانچ پانچ سال کی سزا ہو گی۔ (4) اور اگر دونوں میں سے کوئی بھی اعتراف نہیں کرتا، تو اس صورت میں چونکہ دونوں کو سزا دینے کے لیے کافی شہادت موجود نہیں ہو گی تو دونوں کو زیادہ سے زیادہ ایک ایک سال قید میں رکھا جا سکے گا، اورآخرِ کار رہا کر دیا جائے گا۔

غور کیجیے معصوم اور مجبور دونوں کو کیا کرنا چاہیے۔ جیمز ریچلز اپنی کتاب، ”اخلاقی فلسفے کے عناصر“ میں چارصورتیں پیش کرتا ہے۔ (ا) یا تو مجبور اعتراف کر لے گا یا نہیں۔ (ب) فرض کریں مجبور اعتراف کر لیتا ہے۔ اب اگر معصوم بھی اعتراف کر لیتا ہے تو اسے پانچ سال کی سزا ہو گی؛ جبکہ اگر معصوم اعتراف نہیں کرتا تو اسے دس سال قید میں گزارنا ہوں گے۔ لہٰذا، اگر مجبور اعتراف کر لیتا ہے، تو معصوم کو بھی فائدہ ہو گا، بشرطیکہ وہ بھی اعتراف کر لے۔ (ج) لیکن فرض کریں مجبور اعتراف نہیں کرتا۔ اب اگر معصوم اعتراف کر لے تو وہ رہا کر دیا جائے گا؛ جبکہ اگر وہ اعتراف نہیں کرتا تو اسے سال بھر کی قید کاٹنا ہو گی۔ سو، اگر مجبور اعتراف نہ بھی کرے، اور اگر معصوم اعتراف کر لے تو وہ فائدے میں رہے گا۔ (د) لہٰذا، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معصوم کو اعتراف کر لینا چاہیے۔ یوں وہ فوراً قید سے رہا ہو جائے گا، قطع نظر اس سے کہ مجبور کے ساتھ کیا گزرتی ہے۔

تاہم، یہ حل اتنا بھی قابلِ عمل نہیں، جیسا کہ معلوم ہوتا ہے۔ بالکل خود سدھاری کی طرح۔ مشکل یہ ہے کہ مجبور کو بھی یہی ڈیل پیش کی جا رہی ہے۔ وہ کوئی بے وقوف تو نہیں کہ قید میں پڑا رہے۔ لہٰذا، اس کا فیصلہ بھی اعترافِ جرم کے حق میں ہو گا۔ اگر معصوم اور مجبور دونوں اعتراف کر لیں تو دونوں کو پانچ پانچ سال کی قید سنا دی جائے گی۔ لیکن اگر دونوں اعتراف نہیں کرتے تو دونوں ایک ایک سال بعد رہا ہو جائیں گے۔ یہاں یہ کہاجا سکتا ہے کہ اگرمعصوم اور مجبور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کر سکیں، اور ایک معاہدہ کرلیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی اعتراف نہیں کرے گا تو اس صورت میں دونوں کو صرف ایک ایک سال کی سزا ہو گی۔

فرض کریں معصوم اور مجبور دونوں کو ملاقات کا موقع مل جاتا ہے، اور دونوں مشاورت کے بعد ایک ایسا معاہد ہ کر لیتے ہیں، جو دونوں کے حق میں ممکنہ طور پر بہتر ین حل کہا جا سکتا ہے۔ یعنی وہ دونوں اعتراف کرنے کا معاہدہ کر لیتے ہیں۔ پر یہاں بھی ایک مشکل درپیش ہے۔ معصوم اور مجبور دونوں اس تذبذب میں ہیں کہ کہیں دوسرا فریق اس معاہدے کو توڑ نہ دے۔ کیونکہ اگر معصوم، معاہدے پر عمل نہیں کرتا اور اعتراف نہیں کرتا تو اسے تو رہا کر دیا جائے گا، اور مجبور کو دس سال کی سزا کا حکم ہو جائے گا۔ یونہی معصوم کو یہ تردد رہے گا کہ اگر مجبور نے اعتراف نہیں کیا تو وہ تو چھوٹ جائے گا، جبکہ اسے دس سال قید ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسی صورت ہوگی کہ معصوم اور مجبور دونوں کسی بھی معاہدے پر راضی نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ دونوں جانتے ہیں کہ معاہد ے پر عمل نہ کر کے رہا ئی پائی جا سکتی ہے۔

اس مخمصے پر ایک کھیل کی طرح غور کیا جاسکتا ہے، جیسے شطرنج میں ہوتا ہے۔ مگرکوئی بھی چال سوچیے، باہر نکلنے کا کوئی راستہ ممکن نہیں۔ پھر کیا کیا جائے! اصلاً مخمصہ کسی دلیل کو واضح کرنے کے لیے وضع کیا جاتا ہے، اور اس کا کوئی حل نہیں ہوتا، یا ممکن ہے کہ کبھی کسی مخمصے کا کوئی حل نکال لیا جائے۔ مخمصے کا مطلب ہی یہی ہے کہ جب ہم کبھی کسی مشکل میں گرفتار ہوں، اور فیصلہ نہ کر پائیں کہ کیا کریں، کیونکہ نقصان سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایسا کریں تو بھی نقصان ہے، اور ویسا کریں تو بھی نقصان ہے۔ جبکہ ہماری کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتر فیصلے کریں تاکہ کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔ لیکن مشکل یہی ہے کہ معصوم اور مجبور کی طرح، ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے، اور ہمیشہ مخمصے کا شکار رہتے ہیں۔

معصوم اور مجبور دونوں کے لیے بھی، اور ہمارے لیے بھی، اس مخمصے سے نکلنے کا بس ایک راستہ ہے۔ فرض کریں معصوم اور مجبور دونوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ جو بھی معاہد ہ کریں گے، وہ قابلِ نفاذ ہو گا، اوران میں سے کوئی بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر سکے گا تو وہ دونوں خوش دلی سے معاہدہ کر لیں گے۔ اور یوں اس مخمصے سے نجات پالیں گے۔ اسی طرح، اگر سڑ ک پر چلنے والے تمام مسافروں کو یہ معلوم ہو کہ ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے گا تو وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہیں گے۔ اور اسی طرح، اگر پاکستان کے شہریوں کو یہ یقین ہو کہ زندگی کے ہر شعبے میں، پورے ملک میں، ہر معاملے میں آئین، قانون اور قواعد و ضوابط پر بلا کسی امتیاز عمل در آمد ہو گا تو وہ قوانین کی پابندی شروع کر دیں گے۔ مراد یہ کہ خود سدھاری کسی اجتماعی، قومی اور معاشرتی مسئلے کا حل نہیں۔ حل ہے قوانین پر عمل درآمد، سختی کے ساتھ اور کسی تفریق کے بغیر عمل درآمد!


[یہ کالم 25 ستمبر، 2012 کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں