جمعہ، 6 ستمبر، 2013

مملکتِ اشرافیہ پاکستان ۔ ایک اور مبارک باد

وہ کہانی یاد کیجیے جو ایک گذشتہ پوسٹ: ’’مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!‘‘ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کہانی میں ’’اوگرا‘‘ کے جن سابق سربراہ کا ذکر آیا تھا، اور جن کی حفاظت وفاقی حکومت کر رہی تھی، اور غالباً دوسری صوبائی حکومتیں بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں گی، اور نیب اور پولیس جنھیں گرفتار کرنے لیے اپنی ’’آنیاں جانیاں‘‘ دکھا رہی تھیں، انھیں بالآخر دبئی روانہ کر دیا گیا ہے۔ 3 دسمبر کے اخبارات اس لکیر کو پیٹتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

تفصیل ملاحظہ کرنے کے لیے اردو اور انگریزی کے اخبارات پر نظر ڈالیے۔ یہاں اس ’’فرار‘‘ کا اجمالی تذکرہ رقم ہے:

انصار عباسی ’’دا نیوز‘‘ میں لکھتے ہیں: ہائی پروفائل مفرور اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھاریٹی (اوگرا) کے سابق چیئرمین، اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جینرل جہانگیر بدر کے بہنوئی توقیر صادق اکتوبر کے اوائل میں کلیدی سرکاری اہلکاروں کے معاونت سے خفیہ طور پر دبئی فرار ہو گئے ہیں۔  وہ گذشتہ چند ماہ سے نیب اور پولیس کو مطلوب تھے، لیکن ہائی پروفائل رہائش گاہوں میں چھپ کرکامیابی کے ساتھ  گرفتاری سے بچتے رہے۔ وہ کب اور کس ایئر پورٹ سے فرار ہوئے، ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے، مگر خدشہ ہے کہ وہ لاہور ایئر پورٹ سے کسی پرواز پر سوار ہوئے۔ گو کہ متعدد حکومتی شخصیتوں کو معلوم ہے کہ وہ اب دبئی میں محفوظ ہیں، لیکن دکھاوے کے طور پر ابھی تک ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ایسے میں سپریم کورٹ بے چارہ کیا کر سکتا ہے، جب ایک صوبائی حکومت سمیت پوری وفاقی حکومت ان کی حفاظت کر رہی ہو۔ سو سپریم کورٹ نے اپنا غصہ دکھایا اور چپ بیٹھنے کے علاوہ کیا کر سکتا ہے۔

میں پھر وہی سوال اٹھاؤں گا کہ یہ کیسی سیاسی پارٹی ہے، یہ کیسے لیڈر اس پارٹی کے لیڈر بنے ہوئے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے، یہ کیسی سیاست ہے، یہ شہریوں کے کیسے منتخب نمائندے ہیں، یہ کیسی پارلیمان ہے، یہ کیسی حکومت ہے، یہ کیسی کابینہ ہے، یہ کیسے وزیر مشیر ہیں، یہ کیسی حزبِ اختلاف ہے، یہ کیسی مسلم لیگ (ن) ہے، یہ کیسی تحریکِ انصاف ہے، یہ کسی سیاسی پارٹیاں ہیں، یہ کیسی سول سوسائیٹی ہے: کہ قانون اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے، اور کسی نے آواز تک بلند نہیں کی۔ یہ کیسی سیاست ہے کہ سب سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے کرتوتوں پر پردہ ڈال رہے ہیں، یا پردہ ڈلا رہنے دینا چاہتے ہیں۔



ہاں، یہ چند سرپھرے لوگ میڈیا میں موجود ہیں، جو اس طرح کے اشرافی جرائم کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ ورنہ ریاستی اشرافیہ تو خبر نہیں کیا کیا گل کھِلا رہی ہے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں