جمعہ، 6 ستمبر، 2013

سعید اقبال واہلہ کے لیے دو نظمیں

سعید اقبال واہلہ میرے بہت عزیز دوست تھے۔ ہماری دوستی پنجاب یونیورسیٹی کے شعبۂ فلسفہ میں ہوئی، جہاں ایم- اے فلسفہ کرتے ہوئے کچھ اور بہت گہری دوستیاں قائم ہوئیں۔ وہ سول سروس میں چلے گئے، اور میں پہلے پی ٹی وی اور پھر تعلیم سے وابستہ ہوا۔ ابھی بڑی عید سے قبل 25 اکتوبر کو ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ کافی عرصے بعد تبدیل ہو کر لاہور آ گئے تھے۔ 8 نومبر کو صبح ان کے سکریٹری کے کئی فون آئے، وہ 15 نومبر کے دن شام ساڑھے پانچ بجے تمام دوستوں کو ایک دعوت پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ اسی شام کوئی سوا پانچ یا ساڑے پانچ بجے ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوئی کہ دفتر سے گھر جاتے ہوئے سعید اقبال واہلہ، سیکریٹری ماحولیات کو دل کا دورہ پڑا، اور وہ حرکتِ قلب بند ہونے سے اس دنیا سے گزر گئے۔ ان کی موت ہم سب دوستوں کے لیے اندوہناک بھی ہے اور جانکاہ بھی۔ میرے لیے تو یہ قطعی ناقابلِ فہم ہے۔ جب 25 اکتوبر کو ان سے ملاقات ہوئی، ایسے کوئی  بات نہ تھی، نہ انھوں نے ایسی کسی تکلیف کا ذکر کیا۔ ہاں، انھوں نے خود بتایا کہ انھوں نے کافی وزن کم کیا ہے، اور کیا اب بہت سمارٹ نہیں لگ رہے؟ وہ ہم کچھ دوستوں کی دوستی کا جو درخت ہے، اس سے گِرنے والا پہلا پتّا تھے!

پہلی نظم

یہ دل ہی تو دشمن ہے
اندر چھپا رہزن ہے

فطرت سے فریبی ہے
عادت سے کمینہ ہے
آ جائے کسی پر جب
اک طرفہ مصیبت ہے

نفرت ہو، محبت ہو
ہر قدر کا مَدفن ہے

چھوڑے جو دھڑکنا تو
کیسی بڑی آفت ہے
کیا اس سے وفا ہوگی
جلتا ہوا دامن ہے

یہ دل ہی تو دشمن ہے
اندر چھپا رہزن ہے!

دوسری نظم

جب موت آ دبوچے گی
مہلت کہاں ملے گی پھر

دوستوں سے آج ملنا ہے
وہ کتاب واپس کرنی ہے
کالم مکمل کرنا ہے
’’تشکیک‘‘ پہ پوسٹ لکھنی ہے
نیوز کی کٹنگ رکھنی ہے
ایمیل کا جواب دینا ہے
یہ نظم بھی پوری کرنی ہے

سب اَن کیا رہ جائے گا
جب موت آ دبوچے گی

جن کو میں چاہتا ہوں وہ
جو مجھے چاہتے ہیں وہ
بے بس سبھی رہ جائیں گے
جب موت آ دبوچے گی
آنکھوں سے جان کھینچے گی
دل کو پکڑ کے بھینچے گی
چھین کے لے جائے گی مجھے
میں دیکھتا رہ جاؤں گا
جب موت آ دبوچے گی!


[27 نومبر، 2012]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں