یہ مقبول نیوز چینلز کے پرائم ٹائم نیوز بُلیٹِن ہیں۔ ان کا ایک سلاٹ، ’اینٹرٹینمینٹ نیوز‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ نہ بھی ہو تو ان نیوز بلیٹن میں بالی ووڈ کی خبریں بڑے طمطراق سے نشر کی جاتی ہیں۔ کونسی فلم ریلیز ہو ئی۔ کونسی ریلیز ہونے والی ہے۔ کونسی فلم کے گانے، یا ساؤنڈ ٹریک ریلیز ہو گیا۔ کس فلم نے کتنا بزنس کیا۔ کونسی فلم بلین روپوں کے کلب میں شامل ہو گئی۔ کونسا اداکار، کس اداکارہ سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ کس اداکار نے کسی دوسرے اداکار کے خلاف کیا کہہ دیا۔ کون کس سے ناراض ہے۔ دو اداکاروں کی شادی کا معاملہ ہو تو پھر تو نیوز بلیٹن میں شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ بالی ووڈ کی کوئی خبر ان نیوز چینل سے بچ نہیں سکتی۔ اکثر اوقات نیوزبلیٹن میں پاپولر گانے بھی سننے کو مِل جاتے ہیں۔ گوکہ کبھی کبھی ٹالی ووڈ (تامل فلم انڈسٹری) اور ہالی ووڈ، یا پھر اپنے لالی ووڈ کی کوئی بھولی بھٹکی خبر بھی نشر ہوجاتی ہے۔
یہی نہیں، گاہے گاہے سیاسی خبروں پر انڈین گانوں کا ملمع چڑھایا جاتا ہے۔ ان سیاسی خبروں پر انڈین فلمی گانوں کا نمک مرچ چھڑکنے سے، پاکستانی سیاسی خبروں کے دم گھوٹنے والے اثرات میں کچھ رنگینی پیدا ہو جاتی ہے۔ جب موجودہ وزیرِاعظم کی قسمت کا ستارہ چمکا اور وہ وزیرِاعظم بنے تو پاکستانی چینلز پرایسا سماں تھا جیسے کہ بالی ووڈ کی کسی فلم میں کوئی وزیرِاعظم بنا ہے اورخوب رونق میلہ لگا ہے۔ ان دنوں یہ انڈین گانا تو بہت چلا: راجہ کی آئے گی بارات، رنگیلی ہوگی رات۔ بلکہ راجہ جی جہاں جہاں جاتے، یہ گانا ان کے ساتھ چلتا؛ حتیٰ کہ نائن زیرو تک جا پہنچا۔
ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹی وی چینلز کی آزادی کا معاملہ ہے۔ یہ ان کا اپنافیصلہ ہے، وہ جو چاہیں دکھائیں، جیسے چاہیں دکھائیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ لوگ یہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں، اور ہم دکھاتے ہیں۔ مگر دیکھنے والوں کو بھی ان چینلز کی غیر سنجیدگی پر اپنی رائے وضع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اتنی بات تو صحیح ہے کہ پاکستانیوں میں بالی ووڈ کی فلمیں اور موسیقی ازحد مقبول ہے ۔اس کی معقول وجہ بھی ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کو اندھے کنوئیں میں بند کر دیا گیا۔ مراد یہ کہ لالی ووڈ کے مقابل کوئی تھا ہی نہیں۔ ایسے میں لالی ووڈ اپنی موت آپ مر گیا۔ ایک سبب اور تھا۔ برِصغیر کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی انڈیا کی فلم انڈسٹری میں مسلمانوں کا بہت چرچا رہا ہے۔ اداکار، شاعر، موسیقار، ہدایت کار، اور دوسرے شعبوں میں یہ اگلی صفوں میں شامل تھے۔ یوں، یہ ایک مشترک ورثہ تھا، جو تقسیم کے ساتھ تقسیم نہیں ہو سکتا تھا، اور تقسیم کے بعد بھی پاکستان میں اسے نمایاں مقبولیت حاصل رہی۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں انڈین فلموں کی درآمد گو کہ محدود پیمانے پر شروع ہوئی ہے، لیکن ایسی کوئی قیامت نہیں آئی۔ سب کچھ نارمل ہے۔ بس کچھ حلقے کُڑھ رہے ہیں، اور اسے بند کروانے کے درپے ہیں۔ جب وی- سی- آر، آیا تو ان حلقوں نے شور مچایا کہ نئی نسل کا اخلاق تباہ ہو جائے گا۔ وی- سی- آر پر پابندی لگی رہی۔ مگر ایسی چیزوں پر پابندی برقرار نہیں رہ سکتی۔ پولیس نے کمائی کی اور وی- سی- آر، اور انڈین فلموں کی کیسِٹس ہر جگہ دستیا ب رہیں۔ پھر حکومت کو یہ سوجھا کہ پابندی ختم کرکے، وی- سی- آر پر فیس مقرر کر دی جائے۔ یوں پولیس کی آمدنی بند، اور حکومت کی آمدنی شروع ہو گئی۔ جب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ آیا تو اخلاقیات کے ٹھیکیداروں نے پھر واویلا کیا کہ نئی نسل تباہ ہو جائے گی۔ مگر یہ سب چیزیں اپنی جگہ موجود ہیں، اور نئی نسل بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بالی ووڈ کی پروڈ کشنز (اورانڈین ٹی وی چینلز کے ڈرامے)، اشرفی حلقوں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ ان کے عاشقوں میں ریٹائرڈ جینرل بھی شامل ہیں۔ کبھی ٹاک شوز دیکھیے سنیے، ان کی گفتگو میں ہندی الفاظ بولتے سنے جا سکتے ہیں۔ موبائل فونز پر انڈین گانوں کی دھنیں، وزیرستان میں بھی بجتی ہیں، جہاں متوقع آپریشن کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ ابھی جب کیبل ٹی وی عام نہیں ہوا تھا، تب بھی انڈین فلمیں دستیاب تھیں۔ ان کی سمگلنگ، منافع بخش کاروبار تھا۔ جب ٹی وی چینلز عام ہوئے تو ان کی نشریات میں انڈین فلموں اور انڈین چینلز کو نمایاں مقام حاصل رہا۔ کیبل ٹی وی نے تو انڈین فلموں اورانڈین چینلز اور ان کے ڈراموں کو پاکستان کے چپے چپے میں پہنچا دیا۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے انھیں قریب قریب ہر شخص کی زندگی کا حصہ بنا دیا۔ بلکہ انڈین فلمیں اور موسیقی تو ایک طرف، انڈین ٹی وی چینلز کے ڈرامے، ریالیٹی شوز، موسیقی اور ڈانس کے پروگرام، پاکستان میں انڈین فلموں سے زیادہ مقبول ہو چکے ہیں۔
پاکستانیوں میں انڈین فلموں اور انڈین ٹی وی چینلز کی مقبولیت، ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ پر اس حقیقت کو حکومت سمیت کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ سینسرشدہ انڈین فلموں کی نمائش پاکستانی سینماؤں میں شروع ہو چکی ہے؛ تاہم، قانون کی رو سے، انڈین ٹی وی چینلز کی نمائش پر مکمل پابندی ہے۔ ابھی کچھ سال پہلے یہ سارے چینلز کیبل ٹی وی پردستیاب تھے۔ پھر وہی کمینگی شروع ہوئی۔ پاکستانی ٹی وی چینلز نے ان پر پابندی لگوا دی، ان کا کاروبار متاثر ہو رہا تھا۔ مفافقت یہ ہے کہ خود انھی پاکستانی ٹی وی چینلز نے انڈین فلمیں، ڈرامے، اور ریالیٹی شوز، اور موسیقی اور ڈانس کے پروگرام دکھانے شروع کر دیے۔ ایک پاکستانی ٹی وی چینل، ”ڈانس انڈیا ڈانس“ کو ”ڈانس اِز ڈانس“ میں تبدیل کر کے دکھا رہا ہے۔
اسی طرح، تمام پاکستانی ٹی وی چینلز، انڈین فلموں کے ساتھ ساتھ انڈین ٹی وی چینلز کے ڈرامے اور پروگرام دکھا رہے ہیں۔ یہ کیسی منافقت ہے۔ پاکستان میں ان چینلز کی نمائش پر پابندی ہے، اور ان چینلز کے پروگرام، پاکستانی چینلز دکھا رہے ہیں۔ بلکہ حال ہی میں متعدد پاکستانی چینلز، ان چینلز کے خلاف عدالت میں جا پہنچے ہیں، جو دھڑا دھڑ انڈیا کے پروگرم دکھا رہے ہیں۔ عدالت نے جب پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھاریٹی) کے نمائندے سے یہ پوچھا کہ پیمرا، انڈین پروگراموں کے ساتھ مختلف سلوک کیوں کرتا ہے تو جواب دیا گیا: پیمرا اس پابندی کوختم نہیں کر سکتا، تاآنکہ انڈیا، ہندوستان میں پاکستانی چینلز کی نمائش کی اجازت نہ دے۔ یہ وہی دلیل ہے کہ جب تک انڈیا، پاکستانی فلموں کی نمائش انڈیا میں نہیں ہونے دے گا، اس وقت تک انڈیا کی فلمیں پاکستان میں دکھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مگرپاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش کی قانونی اجازت دی جا چکی ہے۔ لہٰذا، یہ دلیل اپنا جواز کھو چکی ہے۔
پھر یہ بھی کہ پاکستانی فلمیں، انڈیا کی فلموں کے مقابلے میں کوئی وزن نہیں رکھتیں۔ اسی طرح پاکستانی ٹی وی چینلز کے پروگرام، انڈین ٹی وی چینلز کے پروگراموں کے مقابلے میں بے وزن ہیں۔ انڈین ٹی و ی چینلز پر پابندی لگا کر اصل میں پاکستان کے ٹی وی چینلز کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، اور پاکستان کے شہریوں کو کوالیٹی کے پروگرام دیکھنے سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اور یوں، پاکستان کے ٹی وی چینلز کو اسی اندھے کنوئیں میں دھکیلا جا رہا ہے، جس میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو ڈبویا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں پاکستان کے ٹی وی چینلز کے پروگراموں کی کوالیٹی میں کوئی بہتری نہیں آئی، بلکہ ان کا معیار بد سے بد تر ہوا ہے۔ یہ سب چینلز، انڈین ٹی وی چینلز پر پابندی لگوانے میں پیش پیش ہیں۔ یہ کسی بھی ملک کے چینلز سے مقابلہ کرنے کے اہل نہیں، لہٰذا، اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ کیسی ثقافتی منافقت ہے! بلکہ حکومت اور اسیمبلیوں میں بیٹھے شہریوں کے نمائندے بھی کیسے منافق ہیں کہ شہریوں کی اکثریت کے جمہوری حق کو پامال کررہے ہیں۔ اور چند گروہوں کے مفادات اور ثقافتی منافقت کو تحفظ دے رہے ہیں۔ انڈین ٹی وی چینلز پر پابندی کا فائدہ، پاکستان کے ٹی وی چینلز کو ہے، جو ثقافتی منافقت کا مجسم نمونہ ہیں۔ دوسری طرف، وہ تنگ نظرفاشسٹ گروہ ہیں، جو شہریوں کے جمہوری حق پراپنی پسند ناپسند مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اس ثقافتی منافقت کی بڑی مجرم اصل میں حکومت ہے، جو چند گروہوں کی بات پرتو کان دھرتی ہے، مگر پاکستان کے شہریوں کی اکثریت کی پسند کو وقعت نہیں دیتی۔ کیا یہ ثقافتی منافقت، غیرانسانی اور غیر جمہوری رویوں کی مظہر نہیں!
[یہ تحریر یکم دسمبر کو روزنامہ مشرق میں شائع ہوئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں