جمعہ، 6 ستمبر، 2013

کم سِن سیاست کی کہانی: 1857 سے 2012 تک

نوٹ: یہ کالم 24 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔ تاہم، جیسا کہ اخبارات کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس کے آخری دو پیرے تبدیل کر دیے گئے۔ یہ تو کچھ مجھے شک بھی تھا کہ اس کالم کی آخری سطور مِن و عَن شائع ہوں گی یا نہیں، اسی لیے میں نے ذرا نظر ڈالی تو معلوم ہوا، یہ پیرے غائب ہیں۔ اب پہلہے کالموں کے ساتھ کیا ہوا، میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہاں اس بلاگ پر روزنامہ مشرق پشاور میں چھپنے والے جو بھی کالم پوسٹ کیے گئے ہیں، وہ سب اصل ورشن ہیں۔

موجودہ کالم، جو اخبار میں چھپا ہے، اس میں آخری دوپیروں میں سے آخری تو سرے سے کافور ہو گیا ہے، اور آخری سے پہلے پیرے میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ یہ تبدیل شدہ پیرا دیکھیے:

’’ یہ انیسویں صدی کی سیاسی کہانی ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی، 2012 میں زندہ ہیں۔ کوئی ڈیڑھ سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ (یہاں تک تواصل سطور برقرار رکھی گئ ہیں۔ اس کے بعد یہ سطریں اخبار کی طرف سے اضافہ کی گئی ہیں۔) یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا آج کا پاکستان، 1857 کی اودھ کی سلطنت ہے۔ آج بھی پاکستان (کی) سیاسی جماعتوں میں موروثیت کا وہی شاہی طریقہ رائج ہے۔ کوئی بھی جماعت ماسوائے ایک کے پارٹی کی قیادت کارکنوں کو دینے کی روادار نہیں۔ جمہوریت کا دعویٰ سب کرتی ہیں مگر جمہوری رویہ کسی بھی پارٹی کی قیادت میں نہیں پایا جاتا۔ تمام بڑی جماعتوں میں قیادت اپنے نامزد جانشینوں کو سونپنے کی مثالیں موجود ہیں۔‘‘

اب اصل پیرے ملاحظہ کیجیے:

’’یہ انیسویں صدی کی سیاسی کہانی ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی، 2012 میں زندہ ہیں۔ کوئی ڈیڑھ سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ مگر ایک خبر نے پھر چونکا دیا۔ گو کہ یہ نئی خبر نہیں، پھر بھی یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کیا آج کا پاکستان، 1857 کی اودھ کی سلطنت ہے۔ 21 نومبر کے اخبارات کی خبر کے مطابق بلاول نے اپنے والد، آصف علی زرداری، صدرِ پاکستان کے ہمراہ، ایوانِ صدر میں ”پاکستان - مستقبل کے رہنما“ کانفرینس سے خطاب کیا۔ اسے آئندہ الیکشن سے متعلق انتخابی مہم کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلاول زرداری کو سیاست کا تاج تو اسی وقت پہنا دیا گیا تھا، جب بے نظیر بھٹو قتل ہوئی تھیں۔ اس وقت خودآصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بنے تھے اور بلاول کو چیئر مین کی مسند پر سرفراز کیا تھا۔ بلکہ یہ بندوبست ایک ”تحریری وصیت“ کی روسے عمل میں لایا گیا تھا۔ اور جس طرح تخت نشینی کے وقت شہزادوں کو خطابات اور القابات سے نوازا جاتا تھا، اسی طرح بلاول کو ایک مخصوص ”سیاسی“ نام دیا گیا تھا: بلاول بھٹو زرداری۔

کیا یہ سیاست کا درست انداز ہے۔ کیا ایسا ہونا چاہیے۔ یہی نہیں، پیپلز پارٹی کے اس بندوبست کے پیچھے جو سوچ اور رویے کارفرما ہیں، ان کے ساتھ، کچھ نہایت اہم سوالات لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا پاکستان پیپلز پارٹی، واجد علی شاہ کے خاندان کی پارٹی ہے۔ اور کیا پاکستان اودھ کی سلطنت ہے۔ اور کیا بلاول، مرزا برجیس قدر ہیں، اور آصف علی زرداری، نواب محل۔ اور پیپلز پارٹی میں معزز و مدبر سمجھے جانے والے رہنما، جیسے کہ اعتزاز احسن، میاں رضا ربانی، اور کئی دوسرے، یہ سب محض درباری ہیں، اور ان کی فکر اور سیاست اس دربار سے وابستہ ہے! اور وابستہ رہے گی! اور ہزاروں لاکھوں کی رعیت کا کیا کہنا، جو رعیت بنے رہنے پر مصر ہے!‘‘

اور یہ رہا اصل کالم:

ویسے تو تنہا برصغیر کی تاریخ میں ایسی مثالیں کثرت سے مل جائیں گی کہ کب کب اور کہاں کہاں حکومت پر تسلط قائم رکھنے کے لیے کم سِنوں کوتاج پہنا یا گیا اور تخت پر بٹھا یا گیا۔ تاہم، فی الحال مولانا عبدالحلیم شرر کی شاہکار کتاب، ”گذشتہ لکھنؤ“ میرے پیشِ نظر ہے۔ مولانا شرر نے اپنی کتا ب میں 1857 کے غدر یا جنگِ آزادی پر ایک باب باندھا ہے، ”جنگِ آزادی اور لکھنؤ۔“ اس میں سے ایک اقتباس دیکھیے:

’بادشاہ (واجد علی شاہ) کلکتہ میں تھے، ان کا خاندان لندن میں تھا اور معاملہ زیرِ غور تھا کہ یکایک کارتوسوں کے جھگڑے اور گورنمنٹ کی ضد نے 1286 (1857ء) میں غدر پیدا کر دیا اور میرٹھ سے بنگالے تک ایسی آگ لگی کہ اپنے پرائے سب کے گھر جل اٹھے اور ایسا فتنہ پیدا ہوا کہ ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ کی بنیاد ہی متزلزل نظر آتی تھی۔ جس طرح میرٹھ وغیرہ کے باغی ہر طرف سے سمٹ کے دہلی میں جمع ہوئے تھے اور ظفر شاہ کو ہندوستان کا شہنشاہ بنایا تھا، ویسے ہی الہٰ آباد و فیض آباد کے باغی مئی 1857ء میں جوش وخروش کے ساتھ لکھنؤ پہنچے۔ ان کے آتے ہی یہاں کے بھی بہت سے بے فکرے اٹھ کھڑے ہوئے اور شاہی خاندان اودھ کا اور کوئی رکن نہ ملا تو واجدعلی شاہ کے ایک دس برس کے نابالغ بچے مرزا برجیس قدر کو تخت پر بٹھا دیا اور ان کی ماں نواب محل سلطنت کی مختار کل بنیں۔ تھوڑی سی انگریزی فوج یہاں موجود تھی اور اس کے ساتھ یہاں کے تمام یورپین عہدہ داران مملکت جو باغیوں کے ہاتھ سے جا ں بر ہو سکے، بیلی گارد میں قلعہ بند ہو گئے جس کے گرد باغیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی دھس بنا دیے گئے تھے اور حفاظت و بسر کا کافی بندوبست کر لیا گیا تھا۔ غنیمت ہوا یا یہ کہیے کہ قسمت اچھی تھی کہ واجدعلی شاہ لکھنؤ سے جا چکے تھے ورنہ وہی خواہ مخواہ بادشاہ بنائے جاتے۔ ان کا حشر ظفر شاہ سے بدتر ہوتا اور اودھ کے پریشان حالوں کو ذرا پنپنے کے لیے مٹیا برج کے دربار کا جو ایک رعایتی سہار امل گیا تھا، یہ بھی نصیب نہ ہوتا۔“
اس ضمن میں اتنا تو واضح ہے کہ مرزا برجیس قدر کو تخت پر بٹھانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے، اور انھیں نہ صرف تخت کا جائز حق دار ثابت کیا جا سکتا تھا، بلکہ رعیت میں بھی انھیں قبولیت حاصل ہو سکتی تھی۔ کم سِن شہزادے، برجیس قدر کو تاجدار بنانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریزوں کے سامنے انھیں تخت کا وارث بنا کر پیش کیا جا سکتا تھا۔ ابھی اس زمانے میں حقِ بادشاہت مقبول تھا، اسی کی رو سے انگریز، شاہی خاندان کو وظیفہ، پنشن، تنخواہ، وغیرہ، دیا کرتے تھے۔ کم سِن کو بادشاہ اس لیے بھی بنایا گیا کہ جس شاہی خاندان کے ہاتھ میں اس وقت عنانِ اقتدار تھی، جنگِ آزادی کی رہنمائی اور سربراہی بھی اسی کو کرنی تھی۔ بہادر شاہ ظفر کی مثال سامنے ہے۔

ایسی تمام صورتوں میں ایک مشکل یہ پیش آتی تھی کہ وہ کم سِن جسے تخت پر بٹھا یا جاتا تھا، ابھی تو اس کے کھیلنے کھانے کے دن ہوتے تھے، وہ بے چارہ اتنی دانائی اور عقل وشعور کہاں رکھتا تھا کہ مملکت اور سیاست کے پیچیدہ معاملات کو سمجھ اور حل کر سکے۔ یہی وجہ تھی کہ جب لکھنؤ کے باغیوں نے برجیس قدر کو تاج کے بوجھ سے لاد دیا تو ان کی ماں، نواب محل، سلطنت کی مختارِ کل بنیں، اور اس بھاری بوجھ کو اٹھایا۔ یعنی برجیس قدر جنھیں تخت پر بٹھایا گیا تھا، وہ تو محض ایک شو پیس تھے، ان کے پیچھے اصل اقتدار و اختیار ان کی ماں، نواب محل کے پاس تھا۔ ایسا کرنے کے پیچھے کوئی سیاسی چال موجود نہیں تھی۔ حقیقتاً یہ ضروری تھا، کیونکہ تاج و تخت کا وارث اور کوئی نہیں ہوتا تھا۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو صاف بات ہے، تاج وتخت ہاتھ سے نکل سکتا تھا۔ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں، گوکہ کچھ صورتوں میں بادشاہ، پہلے ہی اپنی پسند سے کسی اورکو تخت کا وارث قرار دے دیتا تھا۔

مولانا شرر مزید بتاتے ہیں کہ اب لکھنؤ میں برجیس قدر کا ”زمانہ“ تھا اور حضرت محل کی ”حکومت۔“ بہرحال سکہ، برجیس قدر کے نام کا جاری ہوا۔ سلطنت کے عہدے دار مقرر ہوئے، ملک سے تحصیل وصول ہونے لگی۔ ابھی اسی سال نومبر کے مہینے میں برجیس قدر کی تخت نشینی کو چھ یا سات ماہ ہوئے تھے کہ انگریزی فوج لکھنؤ پر تسلط حاصل کرنے آ گئی۔ انگریزی فوج میں پنجاب کے سکھ اور بھوٹان کے پہاڑی شامل تھے، اور کہا جاتا ہے کہ انھیں لوگوں نے زیادہ مظالم کیے۔ نئی سلطنت کا جو نقش قائم ہوا تھا، دوتین دن کی گولہ باری میں مکڑی کے جالے کی طرح ٹوٹ کر رہ گیا۔ خود نواب محل اور برجیس قدر کو، دوسرے مفروروں کے ساتھ، نیپال کی طرف بھاگنا پڑا۔ چونکہ کوئی ایک لاکھ آدمیوں کا مجمع ساتھ تھا، سو یہ صلاح تھی کہ ہمالیہ کی گھاٹیوں میں پناہ گزیں ہو جائیں، جب موقع ملے انگریزوں پر حملہ کر دیں۔ فتح ہو تو اپنے وطن، تاج وتخت جا سنبھالیں، شکست ہوتو یہیں پہاڑوں میں بس رہیں۔ لیکن یہ ہونا مشکل تھا۔

نیپال کی حکومت نے برجیس قدر اور نواب محل کو پناہ دے دی، مگر ہمراہیوں کو وہاں سے بھاگ جانے کاحکم دیا۔ نیپال کے دربار سے بادشاہ اور ان کی ماں کے لیے معمولی وظیفہ مقرر ہو گیا۔ ان کے ساتھ جس قدر جواہرات تھے، سب کے سب دولتِ نیپال کی نذ رہوئے۔ نواب محل تو وہیں پیوندِ خا ک ہوئیں۔ جب ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی منائی گئی تو برجیس قدر کا قصورمعاف ہوا، اور واپسی کی اجازت ملی۔ وہ نیپال سے کلکتہ پہنچے۔ واجد علی شاہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ بڑی اولاد کی حیثیت سے مرزا قمر قدر سب سے زیادہ تنخواہ پا رہے تھے۔ برجیس قدر نے دعویٰ کیا کہ بادشا ہ کی اولاد میں وہ زیادہ معزز و مستحق ہیں۔ پنشن کے قانون کی رو سے تنخواہ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ تمام ورثا اور وابستگان کی خبر گیری ان کے سپرد کی جائے۔ اپنے اس دعوے کی پیروی میں وہ انگلستان جانے کی تیاری میں تھے کہ ان کے خاندان میں سے ہی کسی نے دعوت کی۔ دعوت سے واپسی پر سب کی حالت خراب ہو گئی، اور ایک ہی دن میں وہ، ان کی اہلیہ اور کئی فرزند، سب کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

یہ انیسویں صدی کی سیاسی کہانی ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی، 2012 میں زندہ ہیں۔ کوئی ڈیڑھ سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ مگر ایک خبر نے پھر چونکا دیا۔ گو کہ یہ نئی خبر نہیں، پھر بھی یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کیا آج کا پاکستان، 1857 کی اودھ کی سلطنت ہے۔ 21 نومبر کے اخبارات کی خبر کے مطابق بلاول نے اپنے والد، آصف علی زرداری، صدرِ پاکستان کے ہمراہ، ایوانِ صدر میں ”پاکستان - مستقبل کے رہنما“ کانفرینس سے خطاب کیا۔ اسے آئندہ الیکشن سے متعلق انتخابی مہم کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلاول زرداری کو سیاست کا تاج تو اسی وقت پہنا دیا گیا تھا، جب بے نظیر بھٹو قتل ہوئی تھیں۔ اس وقت خودآصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بنے تھے اور بلاول کو چیئر مین کی مسند پر سرفراز کیا تھا۔ بلکہ یہ بندوبست ایک ”تحریری وصیت“ کی روسے عمل میں لایا گیا تھا۔ اور جس طرح تخت نشینی کے وقت شہزادوں کو خطابات اور القابات سے نوازا جاتا تھا، اسی طرح بلاول کو ایک مخصوص ”سیاسی“ نام دیا گیا تھا: بلاول بھٹو زرداری۔


کیا یہ سیاست کا درست انداز ہے۔ کیا ایسا ہونا چاہیے۔ یہی نہیں، پیپلز پارٹی کے اس بندوبست کے پیچھے جو سوچ اور رویے کارفرما ہیں، ان کے ساتھ، کچھ نہایت اہم سوالات لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا پاکستان پیپلز پارٹی، واجد علی شاہ کے خاندان کی پارٹی ہے۔ اور کیا پاکستان اودھ کی سلطنت ہے۔ اور کیا بلاول، مرزا برجیس قدر ہیں، اور آصف علی زرداری، نواب محل۔ اور پیپلز پارٹی میں معزز و مدبر سمجھے جانے والے رہنما، جیسے کہ اعتزاز احسن، میاں رضا ربانی، اور کئی دوسرے، یہ سب محض درباری ہیں، اور ان کی فکر اور سیاست اس دربار سے وابستہ ہے! اور وابستہ رہے گی! اور ہزاروں لاکھوں کی رعیت کا کیا کہنا، جو رعیت بنے رہنے پر مصر ہے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں