جمعہ، 6 ستمبر، 2013

قانون کی حکومت یا قانون ساز کی حکومت

انسانی دنیا کے فیصلے تصورات کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ طاقت اور کمینگی سے کام لے کر کچھ بھی کرلیا جائے، اگر وہ تصورات کی دنیا میں غلط ہے تو وہ نہ صرف غلط رہے گا، بلکہ ایک دن عملاً غلط قرار پائے گا۔ جیت، سچائی اور درست تصورات کی ہمدم ہے، طاقت اور کمینگی کی نہیں۔ مراد یہ کہ جتنے بھی مارشل لا لگ جائیں، اور اسلحے کی طاقت سے اپنی جو بھی باتیں منوا لی جائیں اور آئین کا حصہ بنا دی جائیں، او ر اس کے ساتھ ساتھ منتخب نمائندے اپنی وفاداریوں اور مفادات کی ساز باز کے ذریعے عام شہریوں کی نفسیاتی، مذہبی، سماجی اور معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان شہریوں کا جتنا بھی استحصال کر لیں، کیونکہ یہ اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے، لہٰذا، یہ غلط ہی رہے گا، اور یقینا اسے ایک دن صحیح ہونا ہے اور صحیح ہو کر رہے گا۔

یہ تمہید اسی بحث کے ضمن میں ہے کہ پاکستان میں کونسا ادارہ بالا تر اور بالا دست ہے۔ مطلب یہ کہ کوئی ادارہ، خواہ یہ پارلیمینٹ ہو یا ملیٹری، اور یہ طاقت اور کمینگی اور ساز باز سے کچھ بھی کرلیں، یہ غلط ہے، اور عملاً غلط ٹھہرے گا۔ یہ بحث اس حوالے سے بھی نہایت اہم ہے کہ پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق اور ان کی زندگی کی کوالیٹی کا انحصار اس بحث کے نتائج پر ہے۔ اس بیچ ابھی تک تو پارلیمینٹ کی بالادستی کی بات ہورہی تھی، تاہم، وفاقی وزیرِ اطلاعات، قمر زمان کائرہ نے ایک جست اور بھری، اور صدرِ مملکت کو بالاتر اور بالادست قرار دے دیا ہے۔ چونکہ موجودہ صدرِ پاکستان، پیپلز پارٹی کے شریک نہیں، بلکہ حقیقی چیئرمین ہیں، وہ پیپلز پارٹی کے لیے یقیناً بالاتراور بالادست ہوں گے، آئین اورقانون کے سامنے نہیں!

جہاں تک سنجیدہ بحث کا سوال ہے تو سیاسی بیانات کو اہمیت دینا کج بحثی کے زمرے میں آسکتا ہے۔ سو اس سے بچتے ہوئے، میں اسی نکتے کی طرف واپس آنا چاہوں گا، جس پر گذشتہ دوکالموں، ”قدیم ریاست اور آئین کی بالادستیکا اصول“، اور ”جدید ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول“ میں بات ہوئی ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ پہلے بادشاہ ہی قانون ہوتا تھا، یا یہ کہ وہ خود قانون سازی کرتا تھا، اور اس ضمن میں مطلق العنان ہوتے ہوئے بھی، وہ بعض اوقات متعدد تقاضوں کے ہاتھوں مجبور بھی ہو تا تھا۔ ان تقاضوں میں ایک تقاضا خود اس کے بنائے ہوئے، یا قبول کیے ہوئے قوانین اور قواعد و ضوابط بھی ہوتے تھے۔ ان قوانین کے پیچھے خود بہت سے تقاضے کارفرما ہوتے تھے، اور بادشاہ ان قوانین کو مرضی اور خواہش کے مطابق تبدیل نہیں کر سکتا تھا۔ مراد یہ کہ ”مطلق العنانی“ بہت مہنگا سودا ہوتا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شہریوں پر کی جانے والی حکومت کی نوعیت کا خاصہ یہ ہے کہ قانون ہر ایک کے لیے یکساں ہو، اور اس کا تعین اور نفاذ ایک منضبط طریقِ کار کے مطابق سب پر ہو۔ قانون کی یہی خاصیت تھی، جو قدیم ریاست کے خاتمے اورجدید آئینی ریاست کے قیام کا سبب بنی۔ یعنی جب قانون کا تصور وضع ہو گیا تو ضروری ہو گیا کہ اس تصورکے تقاضے بھی پورے ہوں۔

تاہم، یہ کہنا درست ہو گا کہ قدیم ریاست کے دور میں، مجموعی طور پر اور آخری تجزیے کے مطابق بھی، یہ بادشاہ ہی تھا، جو قانون بھی تھا اور قانون ساز بھی۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی جڑی ہوئی ہے کہ حکومت کے تمام معاملات میں حتمی اختیار بادشاہ کے پاس ہی ہوتا تھا۔ وہ خود قانون تھا، خود قانون ساز تھا، اور پھر خود حاکم بھی تھا، اور اس کے ساتھ خود عدالت بھی تھا۔ پھر یہ بھی کہ وہ خود سپہ سالار بھی تھا۔ مراد یہ کہ بادشاہت کے ادارے میں وہ تمام ادارے ضم تھے یا شامل تھے، جو حکومت اور حکمرانی کے لیے ضروری ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ قانون سازی، ریاست کا نظم ونسق، اور عدل گستری، یہ تینوں چیزیں ایک شخص، یعنی بادشاہ، میں جمع اور مرتکز تھیں، جنھیں جدید ریاست میں آ کر علاحدہ اور آزاد حیثیت دی گئی۔ یہ تینوں ادارے ہیں: مقننہ، عدلیہ، اور انتظامیہ۔ بلکہ ان تینوں اداروں کو جدید ریاست کا لازمہ کہنا چاہیے۔ پاکستان میں یہ پارلیمینٹ، سپریم کورٹ اور حکومت ہیں۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ گوکہ بادشاہ، خود سپہ سالا ر بھی تھا، مگر فوج کا محکمہ علاحدہ وجود رکھتا تھا، اور اس حوالے سے حتمی اختیار بھی بادشاہ کے پاس ہی ہوتا تھا۔ جیسا کہ آج کل بھی فوج، سول حکومت کی ماتحتی میں کام کرتی ہے۔ پاکستان کا آئین تو یہی کہتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ بادشاہ کے بنائے ہوئے جرنیل، اسلحے کی طاقت کے زور پر حکومت پر بھی قابض ہو جاتے تھے۔ جیسے پاکستان میں ہوتا رہا ہے۔ یا بعض صورتوں میں جب بادشاہ کا اختیار اور حکم کمزور پڑ جاتا تھا تو یہ جرنیل، ”شاہ ساز“ (کِنگ میکر) بھی بن جاتے تھے۔ جیسا کہ پاکستان کے معاملے میں سمجھاجاتا ہے۔ تاہم، جدید ریاست کے ظہور کے ساتھ، فوج کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ فوج کو اب بھی حکومت کے اختیار اور حکم کا پابند رکھا گیا۔ مختصراً یہ کہ قدیم ریاست میں یہ قانون ساز ہی تھا، جو خود حاکم بھی تھا، منتظم بھی تھا، اور منصف بھی تھا۔ سیدھے لفظوں میں یہ کہ قدیم ریاست، قانون کے بجائے، قانون ساز کی حکومت سے عبارت تھی۔

جدید ریاست تک آتے آتے، بادشاہ کے تینوں وظائف، جو اس کی ذات میں مرتکز تھے، علاحدہ ہو گئے۔ اب حاکم، صرف منتظم تھا۔ قانون سازی کا ادارہ اس سے علاحدہ وجود کا حامل ہو گیا۔ قانون ساز کو حاکم کے منصب سے علاحدہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ حاکم کی مطلق العنانی اور من مانی کو قانون کا پابند بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر، اسے اپنی مرضی اور مفاد کے قانون بنانے سے باز رکھنا ممکن نہ تھا۔ یہاں چلتے چلتے یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ دیانت دار حاکم کا مغالطہ عملاً غلط ثابت ہو چکا تھا، اورکسی ایک فرد کی اخلاقی سا لمیت پر نظامِ حکومت کو استوار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی لیے سہ ستونی (مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ) نظامِ حکومت کا تصور مضبوط ہوا۔ مطلق العنانی کو ختم کرنے اوربادشاہت کے تحت غلام کا درجہ رکھنے والے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی یہی صورت کارگر سمجھی گئی۔ مطلب یہ کہ اصلاً نظامِ حکومت میں بہتری شہریوں کے حقوق کو تقویت دینے کی سمت میں گامزن تھی۔

اگر ایسا نہ کیا جائے، تو پھر تو وہی بادشاہت، شکل بدل کر مسلط ہوجائے گی۔ جیسا کہ پاکستان میں کوشش کی جا رہی ہے کہ پارلیمینٹ، یعنی قانون ساز کو بالادست بنا کر ایک جدید قسم کی بادشاہت قائم کردی جائے۔ یعنی قانون کے بجائے، قانون ساز کی حکومت کا تسلط قائم کر دیا جائے۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ حاکم کو قانون ساز بنا دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ صدیوں میں نظامِ حکومت میں جو بہتری آئی ہے، اسے زائل کر دیا جائے، اور شہریوں کے حقوق کے حوالے سے جو ارتقا ہوا ہے، اسے پھر پیچھے موڑ دیا جائے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شہریوں کو جو حقوق کی تھوڑی بہت دستیابی ممکن ہوئی ہے، اسے پسپا کر دیا جائے۔

ایک چیز جس پر ہمیں خوب سوچنے کی ضروت ہے، وہ ہے کہ حکومت قائم کیوں ہوتی ہے، اور اس کا مقصدِ اولیٰ کیا ہوتا ہے۔ یہاں مختصراً یہ کہنا کافی ہو گا کہ ہر طرح کی حکومت کا مقصد، اول و آخر، فرد یا شہریوں کے جان ومال کی حفاظت، اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ سوقدیم ریاست، یعنی بادشاہت سے جدید ریاست، یعنی آئینی ریاست میں جو تبدیلی آئی، اس کی بنیاد یہی ہے، اور اس حوالے سے نظامِ حکومت میں جو ترقیاں لائی گئیں، ان کے ارتقا کی سمت زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں شہریوں کی جان ومال اوران کے حقوق کا تحفظ ہے۔ یہ چیز قانون کی حکومت کے تحت ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ قانون ساز کی حکومت کے نتائج پاکستان کے عام شہری گذشتہ 65 برس سے بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں قانون ساز کی بالادستی نے، یا قانون ساز کی حکومت نے ایک اشرافی ریاست کو جنم دیا ہے، جو پاکستان کے شہریوں کی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ سو ایسے میں قانون کی حکومت کا مطلب ہو گا، پاکستان کے عام شہریوں کی بالادستی، اور پاکستان کے عام شہریوں کی حکومت!


[یہ تحریر 17 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں