جمعہ، 6 ستمبر، 2013

پاکستان کی غیرآئینی تاریخ: ایک مختصر خاکہ

”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں مجھے اداکاری نہیں آتی۔ اگر مجھے سیاسی اقتدارکی خواہش ہو تو روکنے والا کون ہے۔ فوج میرے ساتھ ہے اور میرے پاس طاقت ہے، جو جی میں آئے کروں۔ آئین کیا ہوتا ہے؟ دس بارہ صفحات کا ایک کتابچہ۔ میں کل ہی اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں اور ایک نئے نظام کے تحت حکومت شروع کر سکتا ہوں۔ کون ہے جو مجھے روکے۔“ (جینرل محمد ضیاءالحق)   

مورخین نے پاکستان کی متعدد آئینی تاریخیں لکھی ہیں، اور مستقبل میں بھی ایسی تاریخیں لکھی جائیں گی۔ لیکن تاحال پاکستان کی غیرآئینی تاریخ لکھے جانے کا کو ئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غیرآئینی تاریخ کو سامنے رکھے بغیر آئینی تو کیا پاکستان کی کوئی بھی تاریخ لکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان کی عمر کا تقریباً نصف حصہ غیرآئینی ادوار پر مشتمل ہے اور بقیہ نصف حصہ آئینی اور نیم آئینی ہونے کے باوجود، اس غیرآئینی حصے کے اثرات سے گہنایا ہوا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں نصف صدی غیرآئینی حکومتیں بر سر اقتدار رہیں اور بقیہ نصف صدی غیرآئینی حکومتیں برسر اقتدار نہیں رہیں۔ سو ایسے میں غیرآئینی عوامل کو نظر انداز کر کے پاکستان کی ”تاریخی پیش رفت“ کو سمجھنا اور قلمبند کرنا، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف ہے۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ پاکستان کی آئینی تاریخ کے مقابلے میں، غیرآئینی تاریخ زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں اس غیرآئینی تاریخ کا ایک مختصر خاکہ وضع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے:

1945-46 میں ہندوستان میں مرکز اور صوبوں کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ کانگریس نے بیشتر عمومی سیٹوں پر اور مسلم لیگ نے بیشتر مسلم سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ فروری 46 میں سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا، لارڈ پیتھک لارینس نے برطانوی ہاﺅس آف لارڈز میں اور برطانوی وزیر اعظم ایٹلی نے ہاﺅس آف کامنز میں ایک پالیسی کا اعلان کیا۔ یہ تین نکات پر مشتمل تھی:

i - آئین کی تشکیل کے لیے طریقِ کا ر کے ضمن میں برطانوی ہند کے منتخب نمائندگان سے صلاح و مشورہ کیا جائے گا۔

ii - آئین ساز مجلس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

iii - ہندوستان کی بڑی جماعتوں کے تعاون سے ایگزیکٹو کونسل یا عبوری کابینہ قائم کی جائے گی۔

اس موقعے پر برطانوی وزیرِاعظم نے واضح کیا کہ ” ہندوستان کو اپنے مستقبل کے آئین کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔“ متذکرہ پالیسی پرعمل درآمد اور آئینی تنازعے کے حل کی تلاش کے لیے ایک خصوصی مشن، ”کابینہ مشن“ ہندوستان بھیجا گیا۔ اس مشن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہندو-مسلم تنازعہ تھا۔ کانگریس انڈین یونین میں ایک مضبوط مرکز چاہتی تھی، جبکہ مسلم لیگ مضبوط مسلم صوبوں کی حامی تھی۔ دونوں جماعتیں آئینی مسائل کے کسی متفقہ حل پر راضی نہ ہو سکیں۔ بہ ایں وجہ، شملہ کی سہ فریقی کانفرنس (مئی 1946) ناکام ہو گئی۔

کابینہ مشن کی ناکامی سے یہ واضح ہو گیا کہ ہندو-مسلم تنازعے کا آئینی حل ممکن نہیں۔ لہذٰا، برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے واحد آئین ساز اسیمبلی کا تصور ترک کر کے بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے علاحدہ علاحدہ آئین ساز اسیمبلیوں کے قیام کا فیصلہ کیا۔

4 جولائی 1947 کو بر طانوی پارلیمینٹ میں انڈین انڈی پینڈینس بل پیش کیا گیا۔ 18 جولائی کو اس بل کو شاہی تصدیق حاصل ہوگئی اور 19 جولائی کو یہ بل انڈین انڈی پینڈینس ایکٹ بن گیا۔ اس طرح، دہلی کی عبوری حکومت کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ دو مملکتوں کا قانونی جنم تھا۔ اس کے ساتھ ہی دو آئین ساز اسیمبلیاں بھی وجود میں آ گئیں۔ انڈین انڈی پینڈینس ایکٹ کی رو سے ان اسمبلیوں کو دو فرائض سونپے گئے تھے: (i) آئین تیار کرنا؛ اور (ii) جب تک اس اسیمبلی کا بنایا ہوا آئین نافذالعمل نہ ہو جائے تب تک وفاقی آئین ساز اسیمبلی یا پارلیمینٹ کی حیثیت سے کام کرنا۔ واضح رہے کہ آئین کی تشکیل کے لیے کسی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔ آئین کی تیاری تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ہی پاکستان کا عملی آئین تھا۔

پاکستان کی آئین ساز اسیمبلی کا افتتاحی اجلاس 10-14 اگست 1947 منعقد ہوا۔ قائد اعظم، صدر اور اقلیتی رکن جے۔ این منڈل عارضی چیئر مین منتخب کیے گئے۔ ابتدائی طور پر آئین ساز اسیمبلی کے ارکان کی تعداد 69 تھی، جو بعد میں بہاولپور، خیر پور اور بلوچستان کی ریاستوں اور قبائلی علاقوں کو نمائندگی دینے سے بڑھ کر 74 ہو گئی۔ آئین کی تشکیل کے لیے مختلف کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ سب سے زیادہ اہم تھی۔ اس نے دسمبر 1950 میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔ دوسری کمیٹیوں میں شہریوں کے بنیادی حقوق، اقلیتوں سے متعلق معاملات، ریاستوں سے مذاکرات اور قبائلی علاقہ جات کے معاملات سے متعلق کمیٹیاں شامل تھیں۔

پہلے مجوزہ آئین کا دوسرا ڈرافٹ قیامِ پاکستان کے پانچ برس بعد 22 دسمبر 1952 کو آئین ساز اسیمبلی کے سامنے رکھا گیا اوراس پر بحث شروع ہوئی۔ لیکن اس ضمن میں پیش رفت کے بجائے ڈیڈلاک پیدا ہو گیا۔ مگر وزیرِاعظم محمد علی کی کوششوں سے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیابی ہوئی۔ 16 ستمبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کے پہلے آئین کا حتمی ڈرافٹ منظور کر لیا۔ 17 اکتوبر 1954 سے آئین پر بحث کا آغاز ہونا تھا۔ محمد علی نے قوم کو آئین کا تحفہ دینے کے لیے تاریخ ( 25 دسمبر 1954) بھی مقرر کر دی تھی۔          

14 اکتوبر 1954 کو ”ڈان“ نے یہ خبر دی کہ ” آئین سازی کی تکمیل کے لیے پندرہ دن سے بھی کم عرصے میں آئین ساز اسیمبلی کا اجلاس منعقد ہو گا۔ بتایا جاتا ہے کہ آئینی بل تیار ہے اور اس کے ایکٹ بننے میں اب رسمی منظوری کی دیر ہے۔“ 25 دسمبر 1954 کو اس آئین کا نفاذ عمل میں آ جانا تھا۔

لیکن ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ گورنر جینرل غلام محمد نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا اور وہ تاریخی جملے ادا کیے جو بعد میں ایسے ہی مواقع پر دہرائے جانے تھے۔ انھوں نے کہا: ”ملک سیاسی بحران کا شکار ہے۔ آئینی مشینری تباہ ہوچکی ہے۔ لہٰذا، پورے پاکستان میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ آئین ساز اسمبلی اپنی موجودہ شکل میں عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور مزید کام نہیں کر سکتی۔ آخری اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے آئینی معاملات سمیت تمام معاملات کا فیصلہ کرلیں گے۔ جتنی جلد ممکن ہو گا، انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔“

یہ تھا انجام پہلی آئین ساز اسیمبلی اور اس کے تیا ر کردہ آئین کا۔ یہ آئین، آئین ساز اسیمبلی کی سات برس کی کوششوں کے بعد تیار ہوا تھا۔ اس کی تباہی کے بعد ملک کو کیا حاصل ہوا: ایک ایسا آئین، جو غلام محمد کے شخصی احکامات سے مرتب ہوتا تھا۔

آئین ساز اسیمبلی کے صدر، مولوی تمیز الدین خاں نے گورنر جینرل کے اس اعلان کو ”غیر آئینی، غیر قانونی، دائرۂ اختیار سے متجاوز اور ناقابلِ عمل“ قرار دیتے ہوئے سندھ کی عدالت میں چیلنج کیا۔ چیف کورٹ آف سندھ کے فل بینچ نے متفقہ طور پر مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دیا اور یہ کہا کہ آئین ساز اسیمبلی ایک مقتدر مجلس ہے، جسے ایک خاص مقصد کے لیے بنایا گیا تھا اور جب تک اس کا مقصد پورا نہیں ہو گا، یہ اس وقت تک برقرار رہے گی، تاآنکہ اس کے ارکان کی دو تہائی اکثریت اسے خود تحلیل نہ کر دے۔ عدالت نے یہ قرار دیا کہ آئین ساز اسیمبلی کو تحلیل کر نے کا اختیار تو اب انگلستان کے پاس بھی نہیں رہا اور یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ جو اختیار اب انگلستان کے پاس بھی نہیں رہا، وہ 1947 کے بعد پاکستان میں پھر سے استعمال میں لایا جاسکے۔

حکومت نے سندھ کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اس وقت چیف جسٹس مشہورِ زمانہ محمد منیر تھے۔ فیڈرل کورٹ نے ایک تکنیکی نکتے کا سہارا لیتے ہوئے 21 مارچ 1955 کو چار۔ایک کی اکثریت سے گورنر جینرل کے حق میں فیصلہ دے دیا اور پاکستان کی پیشانی پر مہرِ لاقانونیت ثبت کردی۔

اب ایک نیا ” آئین توڑو، آئین بناﺅ“ کھیل شروع ہو گیا۔ اس فیصلے کے چھ دن بعد 27 مارچ 1955 کو گورنر جینرل نے ایک آرڈینینس کے ذریعے متعدد اختیارات سنبھالنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایک نئے آئین کی تشکیل کا اعلان بھی کیا۔ تاہم، 13 اپریل 1955 کو فیڈرل کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ آئین کی تشکیل کا کام صرف آئین ساز اسیمبلی کر سکتی ہے؛ گورنر جینرل اور اس کی کابینہ اس اختیار کی حامل نہیں۔ یہاں کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے گورنر جینرل کو ایک ”نئی آئین ساز اسیمبلی“ کے قیام کا اختیار بھی دے دیا۔ حکومت نے 60 رکنی “آئین ساز کنوینشن“ بلانے کا اعلان کیا۔ یوں ایک دوسری آئین سازاسیمبلی وجود میں آ گئی۔ اس کے ارکان کی تعداد بعد میں 80 کر دی گئی۔ اس نے چھ ماہ کے اندراندر، اپنا کام مکمل کرنا تھا، وگرنہ یہ خود بخود تحلیل ہو جاتی۔

7 جولائی 1955 کو دوسری آئین ساز اسیمبلی کا افتتاحی اجلاس مری میں منقعد ہوا۔ 8 جنوری 1956 کو اس نے آئین کا ڈرافٹ پیش کیا، جسے کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے بعد 29 فروری 1956 کو منظور کر لیا گیا۔ 2 مارچ 1956 کو آئین کا بل گورنر جینرل کی منظوری کے لیے بھیجا گیا۔ اس دوسرے آئین کی 245 دفعات میں سے بیشتر دفعات پہلے آئین کے ڈرافٹ پر مبنی تھیں۔ 23 مارچ 1956 کو یہ ”غیر قانونی“ آئین نافذ کر دیا گیا۔

یہ دوسرا آئین نفاذ کے بعد محض ڈھائی بہاریں دیکھ سکا۔ 7 اکتوبر 1958 کی ایک رات کے نصف پہر میجر جینرل سکندر مرزا نے مارشل لا لگا دیا اور آئین منسوخ کر دیا گیا۔ بعد ازاں جینرل ایوب نے سکندر مرزا کو معزول کر کے ملک سے باہر بھیج دیا اور اقتدارسنبھال لیا۔ مرکزی اورصوبائی کابینہ برطرف اور قومی اور صوبائی مقننّہ تحلیل کردی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے جینرل ایوب نے کہا کہ ہمارا پہلا اور آخری مقصد جمہوریت کی بحالی ہے، لیکن ایسی جمہوریت جسے لوگ سمجھ سکیں اور جو لوگوں کے کام آ سکے۔ یہ مارشل لا 8 جون 1962 تک نافذ رہا۔

10 اکتوبر 1958 کو جینرل ایوب نے ایک انٹرویو میں کہا: ”ہم نے جمہوریت کومستقل بنیادوں پرخیرباد نہیں کہا ہے۔ ہمیں جمہوریت کی طرف واپس جانا ہو گا۔ ہمیں اسے کارآمد بنانا ہو گا۔“ اسی روز انہوں نے ایک حکم جاری کیا، جس کے مطابق صدر کسی بھی وقت کسی بھی قانون کو تبدیل کر سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بنیادی حقوق ختم ہو گئے ہیں اورصدر کو قانون سازی کا لامحدود اختیار حاصل ہے اور یہ کہ صدر کے اس اختیا ر پرکسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ اگرچہ اس حکم کے مطابق پاکستان کی حکومت کو مقدور بھر مرحوم آئین کے مطابق چلایا جانا تھا، لیکن اس میں حکومت سے مرحوم آئین کے قوانین مراد نہیں تھے، بلکہ حکومت کا ڈھانچہ مراد تھا۔ جبکہ آئین کو تو پہلے ہی منسوخ کر دیا گیا تھا۔

17 فروری 1960 کو جینرل ایوب نے پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک ”آئینی کمیشن“ تشکیل دیا۔ اس کا مقصد پاکستان میں پارلیمانی حکومت کی ناکامی کے اسباب کا پتہ چلانا تھا۔ مزید برآں، کمیشن نے مستحکم حکومت کے قیام کے لیے آئینی تجاویز بھی پیش کرنا تھیں۔ کمیشن نے اپنی ”تحقیقات“ کے نتیجے میں یہ ثابت کر دکھایا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت ناکام ہو چکا ہے۔ اس نے ناکامی کے تین اسباب بھی تلاش کیے:

i- انتخابات کا عدم انعقاد اور سابقہ آئین کی خامیاں

ii- وزارتوں اور سیاسی جماعتوں میں سربراہانِ مملکت کی اور صوبائی حکومتوں کی بے جا مداخلت

iii - منظّم اور نظم و ضبط کی حامل جماعتوں کی قیادت کا فقدان اور بالعموم کردار سے عاری سیاستدان اورانتظامیہ میں ان کا غیر ضروری عمل دخل

سیاستدانوں نے اس کمیشن کے نتائج کو مسترد کر دیا۔ ان میں چودھری محمد علی پیش پیش تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پارلیمانی نظامِ حکومت ناکام نہیں ہوا ہے اورنہ ہی سیاستدانوں کو مورِدالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ خود صدر میجر جینرل سکندر مرزا نے اپنے حلف سے غداری کی ہے۔ ڈھائی برس قبل انہوں نے جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا، اس آئین کو انہوں نے خود ہی منسوخ کر دیا۔ چودھری محمد علی کا موقف تھا کہ میجر جینرل سکندر مرزا نے دانستاً پارلیمانی جمہوریت کو بگاڑا اور تباہ کیا تاکہ وہ تاحیات آمر بن سکیں، بلکہ حالات ساز گار ہوں تو اپنی بادشاہت قائم کر لیں۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اگرچہ عام سیاستدان ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہیں، لیکن آئین کی مبینہ ناکامی کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود میجر جینرل سکندر مرزا پر آتی ہے۔ چودھری محمد علی نے کہا کہ آئین پرکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ خاصے عرصے تک نافذالعمل رہے۔

تاہم کمیشن نے پاکستان کے لیے کسی بھی نوع کے استبدادی نظام کی تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ تجویز کیا کہ طرزِ حکومت خواہ کوئی بھی ہو، اسے بہر صورت نمائندہ کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ کمیشن نے اس ضمن میں لارڈ ایکٹن کے معروف قول کا حوالہ بھی دیا۔ ”اختیار خواہ کسی بھی قسم کا ہو، کرپٹ بناتا ہے؛ اختیارِ مطلق، مطلقاً کرپٹ بناتا ہے۔“ کمیشن نے صدارتی نظام کی سکیم پیش کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیا کہ قانون سازی ہو یا اہم تقرریاں یا مالیات، آزاد اور خود مختار مقننّہ ناگزیر ہے۔

کمیشن نے مئی 1961 میں اپنی رپورٹ صدر جینرل ایوب کو پیش کی۔ صدراور کابینہ نے اس پر غوروخوض کیا۔ اس کا جائزہ لینے کے لیے مزید کمیٹیاں بنائی گئیں۔ پھران کمیٹیوں کی رپوٹوں کو جانچا گیا۔ اس طرح چار ماہ میں تیسرے آئین کا حتمی ڈرافٹ تیار ہو گیا۔ یکم مارچ 1962 کو اس کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔

اس آئین میں انتخابات کے نظام، ’بنیادی حقوق،‘ سیاسی جماعتوں اور عد لیہ کے کردارسے متعلق کمیشن کی اہم تجاویز کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اصل میں یہ آئین، صدارتی نظامِ حکو مت کا داعی تھا۔ اس کے پیچھے یہ نظریہ کار فرما تھا کہ ملک کے نظم و نسق کا ذمے دار صدر ہے اور قومی اسیمبلی کے ارکان کا منصب عوام کے جذبات کی نمائندگی کرنا ہے۔

13 مارچ 1969 کو صدرجینرل ایوب خان نے پارلیمانی نظام اور براہِ راست انتخابات کے احیا کا اعلان کیا۔ اس مقصد کے لیے قومی اسیمبلی کے ذریعے آئین میں ترمیم کی جانی تھی اور یوں مارچ 1970 میں بالغ حقِ رائے دہی پر مبنی انتخابات ہونے تھے۔ اس طرح جو اسیمبلی وجود میں آتی، وہ آئین میں کوئی بھی ترمیم کر سکتی تھی۔ یہ احیا چھ ماہ کے احتجاجی جلوسوں، ہڑتالوں، ہنگاموں اوربالآخر سیاستدانوں کے ساتھ راﺅنڈ ٹیبل کانفرینس کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا۔

لیکن کچھ سیاستدان صدرجینرل ایوب کے استعفے کے مطالبے پر ڈٹے رہے اور انہوں نے مجوزہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ صورتِ حال اتنی خراب ہوئی کہ صدرجینرل ایوب نے مستعفی ہو کر اقتدار آرمی کے کمانڈر انچیف جینرل یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ جینرل یحییٰ نے 5 مارچ 1969 کو مارشل لا نافذ کیا اور آئین کو منسوخ کر دیا۔ یہ ابتدائی بائیس برسوں میں بننے اور منسوخ ہونے والا، پاکستان کا تیسرا آئین تھا۔

30 مارچ 1970 کو جینرل یحییٰ نے ’’لیگل فریم ورک آرڈر‘‘ جاری کیا۔ اس آرڈر میں ان نکات کو واضح کیا گیا تھا، جن کے مطابق آئین تشکیل دیا جانا تھا۔ اس کی رو سے قومی اسیمبلی کے لیے 120 دنوں کےاندراندر آئین وضع کرنا ضروری تھا، ورنہ یہ خود بخود تحلیل ہو جاتی۔

دسمبر 1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات منعقد ہوئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کی اکثریتی جماعت، عوامی لیگ تھی۔ جینرل یحییٰ کے ’’لیگل فریم ورک آرڈر‘‘ کے مطابق (قانونی طور پر) آئین کی تشکیل، عوامی لیگ کا حق تھا اور حکومت بنانے کی جائز حق دار بھی وہی تھی۔ 3 مارچ 1971 کو قومی اسیمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلا ن کیا گیا۔ عوامی لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر آئین بنا سکتی تھی، لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوا، یا نہیں ہو نے دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے 13 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے قومی اسیمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی۔ اس پر جینرل یحییٰ نے یہ اجلاس ملتوی کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بزورِ فوج، بنگالیوں کومطیع کرنےکی کوشش کی گئی۔ دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان، پاکستان سے جدا ہو گیا۔ پاکستان بھی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا، اور بنگلہ دیش بھی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوا!

اس طرح 1971 کا آئین سقوطِ ڈھاکہ کی نذر ہو گیا۔ جینرل یحییٰ نے 17 دسمبر 1971 کو اس کے نفاذ کا اعلان کرنا تھا۔ یہ پاکستان کا چوتھا آئین تھا، جو بن کھلے مرجھا گیا۔

نئے اور”مختصر“ پا کستان میں 20 اکتوبر 1971 کو جینرل یحییٰ نے عنانِ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے سپرد کر دی۔ ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے پہلے اور شاید آخری سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔ وہ صدرِ مملکت بھی تھے۔

14 اپریل 1972 کو قومی اسیمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ 17 اپریل 1972 کو عبوری آئین کی منظوری کے ساتھ 21 اپریل 1972 کو عبوری آئین کا نفاذ عمل میں آیا اور مارشل لا اٹھا لیا گیا۔ 21 اپریل کو ہی قومی اسیمبلی نے 25 ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی۔ اس نے یکم اگست 1972 تک آئین تیار کرنا تھا۔ پھر اس معیاد میں 31 دسمبر 1972 تک توسیع کر دی گئی۔ اس کمیٹی نے 2 فروری 1973 کو آئین کا مسودہ قومی اسیمبلی میں پیش کیا۔ 19 اکتوبر 1972 تک پارلیمانی رہنماﺅں میں اہم آئینی امور پر سمجھوتہ ہو گیا تھا، مگر پھراختلافات پیدا ہو گئے۔ فروری سے مارچ 1973 تک کشیدگی اتنی بڑھی کہ حزبِ اختلاف نے 24 مارچ سے آئین سازی کے عمل کا بائیکاٹ کر دیا۔ تاہم، اپریل 1973 میں حزبِ اختلاف کی ترمیمات منظور کر لی گئیں اور بائیکاٹ ختم ہو گیا۔ 10 اپریل 1973 کو قومی اسیمبلی نے اور 12 اپریل 1973 کو صدرِ مملکت نے آئین کی منظوری دی۔ 14 اگست 1973 کو یہ پانچواں آئین نافذ ہو گیا۔

یہ آئین پہلی مرتبہ براہِ راست انتخابات کی بنیاد پر منتخب ہونے والے عوام کے نمائندوں نے تشکیل دیا تھا۔ اسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے تمام ارکان نے اس پر دستخط کیے۔ ہاں، تین ارکان نے آئین سے متعلق کاروائی میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس آئین میں دفعہ-6 کی صورت میں خود اپنی بقا کا میکانزم بھی رکھا گیا تھا، جس کے مطابق آئین کو جزوی یا کلی طور پر معطل یا منسوخ کرنے والا سزائے موت کا حق دار تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے آئینی مدت پوری ہونے سے قبل ہی مارچ 1977 میں انتخابات منعقد کیے۔ حزبِ اختلاف نے حکومت پر قومی اسیمبلی کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے ”الزامات“ عائد کیے اور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ جلسے جلوس اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ موسم سازگار دیکھتے ہوئے 5 جولائی 1977 کو جینرل ضیاء نے مارشل لا نافذ کر کے آئین معطل کر دیا۔ گرچہ ظاہر یہ کیا گیا کہ آئین کے چند حصے ہی معطل کیے گئے ہیں (ان معطل حصوں میں دفعہ-6 یقیناً شامل تھی)۔          

24 مارچ 1981 کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، جینرل ضیاء کی طرف سے عبوری آئینی حکم (یا بدنامِ زمانہ پی۔ سی۔او) مجریہ 1981 جاری کیا گیا۔ ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ اعلیٰ عدالتیں، مارشل کورٹس کے فیصلوں پر نظر ثانی کر رہی تھیں۔ اب اس حکم کی دفعہ-2 کے تحت 1973 کے آئین کی چند دفعات کے علاوہ تمام آئین کو معطل کر دیا گیا۔ اسی حکم کی دفعہ-16 کے تحت صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے آئین میں ترمیم کے اختیارات بھی حاصل کر لیے۔

جینرل ضیاء تقریباً پونے چار برس جزوی طور پر معطل شدہ آئین سے کام چلاتے رہے۔ 24 دسمبر 1981 کو انہوں نے مجلسِ شوریٰ کے قیام کا اعلان کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے آئین میں کچھ بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ لہٰذا، ملک کو ایک نیا سیاسی ڈھانچہ دینے کے لیے تین کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ (i) کابینہ کمیٹی؛ (ii) اسلامی نظریاتی کونسل کی کمیٹی؛ اور (iii) مجلسِ شوریٰ کی کمیٹی۔ فروری 1983 میں ایک اور خصوصی کمیٹی مقرر کی گئی۔ 2 اپریل 1983 سے جولائی 1983 کے دوران اس کمیٹی کے پانچ اجلاس ہوئے۔ 16 مئی 1983 کے اجلاس میں اس کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کمیٹی نے 1983 کے آئین میں درج صدر اور وزیرِاعظم کے اختیارات میں توازن پیدا کرنے، اوراسلامی سیاسی ڈھانچے کی روشنی میں سیاسی جماعتی نظام کے قیام کے لیے سفارشات پیش کرنی تھیں۔ اس کمیٹی نے 8 جون 1983 کو اپنی رپورٹ خصوصی کمیٹی کو پیش کی۔

مگر جینرل ضیاء ان کمیٹیوں کی رپورٹوں سے مطمئن نہ ہوئے۔ انھوں نے تمام کمیٹیوں کی رپوٹوں کا جائزہ لینے اورجامع سفارشات کی تیاری کے لیے ایک آئینی کمیشن قائم کر دیا۔ کمیشن کے سربراہ مولانا ظفراحمد انصاری تھے۔ انھوں نے 6  اگست 1983 کو کمیشن کی سفارشات پر مبنی رپورٹ جینرل ضیاء کو پیش کی۔ اس کمیشن نے غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کی سفارش کی تھی۔ 12 اگست 1983 کوجینرل ضیاء نے مجلسِ شوریٰ کو بتایا کہ ہمارے پاس تین راستے تھے:(i) 1973 کے آئین کو بحال رکھا جائے؛ (ii) اسے منسوخ کر دیا جائے؛ یا (iii) اسے کچھ ترامیم کے ساتھ بحال رکھا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے تیسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ پہلے دو راستوں میں کئی خطرات پو شیدہ تھے۔ انھوں نے مجلسِ شوریٰ کو یقین دلایا کہ غیرجماعتی بنیادوں پرانتخابات اورانتقالِ اقتدار کا کام 23 مارچ 1985 تک مکمل کر لیا جائے گا۔

اب اس تجویز کا چرچا بھی کیا گیا کہ پارلیمانی جمہوریت یا کسی اور جمہوریت کے بجائے، اسلامی نظامِ جمہوریت، یعنی شوریٰ کریسی کے نفاذ کے لیے موجودہ نظام میں صدارتی انتخاب کا اضافہ کیا جائے۔ 14 اگست 1983 سے ’تحریکِ بحالیِ جمہوریت‘ (ایم ـ آر ـ ڈی؛ موومینٹ فار دا ریسٹوریشن آف ڈیماکریسی) کا آغاز ہو گیا۔ 1984 میں جینرل ضیاء نے ریفرینڈم یا صدارتی انتخاب کا چرچا کیے رکھا اور یکم دسمبر 1984 کو انھوں نے ریفرینڈم کا اعلان کر دیا۔ اس کے لیے، ریفرینڈم آرڈر 1984 جاری کیا گیا۔ 19 دسمبر 1984 کو ریفرینڈم کا انعقاد ہوا۔ اسے کسی بھی عدالت، ٹریبیونل، یا اتھاریٹی میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب جینرل ضیاء، صدرایوب، صدریحییٰ، اور بعد میں آنے والے صدر مشرف کی طرح، صدر ضیاء ہو گئے۔

12 جنوری 1985 کو جینرل ضیاء نے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ 25 فروری کو قومی اسیمبلی، اور28 فروری کو صوبائی اسیمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ مارچ کے وسط میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد 23 مارچ 1985 کو غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب، پارلیمینٹ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جینرل ضیاء نے محمد خان جونیجو کو وزیرِاعظم نامزد کیا اوران سے حلف لیا۔

2 مارچ 1985 کو جینرل ضیاء نے آئین کی بحالی کا حکم، صدارتی حکم نمبر 14، مجریہ 1985 جاری کیا۔ اس حکم کی رو سے آئین کی متعدد دفعات میں تبدیلیاں یا ترامیم عمل میں لائی گئیں۔ پھر تو یہ کام خوب چلا۔ 30 دسیمبر 1985 کو جینرل ضیاء نے مارشل لا حکم نمبر 107 جاری کیا۔ اس کی رو سے 5 جولائی 1977 کے مارشل لا کے نفاذ کے حکم کو منسوخ کر دیا گیا۔ تاہم، چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ، انھوں نے اپنے پاس ہی رکھا۔ 29 مئی 1988 کو جینرل ضیاء نے آئین کی دفعہ B-2-58 کے تحت وفاقی کابینہ اور وزیرِاعظم جونیجو کو برطرف کردیا اور قومی وصوبائی اسیمبلیاں توڑ دیں۔

آخرِکار، 17 اگست 1988 کو C-130 کے حادثے میں جینرل ضیاء کی موت کے ساتھ، مارشل لا کا دور اختتام پذیر ہوا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، 16 نومبر 1988 کو دوبارہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات منعقد ہوئے۔ حکومت بنی۔ پھر ٹوٹی۔ پھر بنی، پھر ٹوٹی۔ ماورائے آئین کئی اقدامات ہوئے۔ یہ سلسلہ یو نہی چلتا رہا۔ یہاں تک کہ 12 اکتوبر 1999 کو ’پاک فوج‘ نے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ شامت آئین کی ہی آئی، کیونکہ طاقت اور آئین دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں۔ آئین کو معطل کر دیا گیا اور وہی جینرل ایوب والا فارمولا دہرایا گیا کہ کاروبارِمملکت مقدور بھر آئین کے مطابق چلایا جائے گا اور جہاں آئین رکاوٹ بنے گا، اسے آئین نہیں سمجھا جائے گا۔ یوں 12 اکتوبر1999 سے آئین ایک مرتبہ پھر سپریم نہیں رہا۔

مختصر، یہ کہ 24 اکتوبر 1954 کو آئین ساز مجلس اور آئین کی تحلیل سے پیدا ہونے والا آئینی خلا مسلسل بڑھتا رہا۔ اسے پُر کرنا تو ایک طرف، خلا در خلا پیدا کیے جاتے رہے۔ عدالتیں، آئینی تسلسل کو تقویت دینے اورآئینی خلاﺅں کو دور کرنے کے بجائے، ان پر مہرِتصدیق ثبت کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ایک ’ناقابلِ حکمرانی‘ اور بےسمت ملک کہا جانے لگا۔ اس کے اداروں نے ایک مو قع پرست شخص کی طرح، اصول و اقدار اور قانون و آئین جیسی ہر شے کو تسلیم کرنا چھوڑ دیا۔ نتیجتاً آئین کی بالادستی کی عدم موجودگی میں ملک طاقت ور ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ گیا۔ یہی اس کی غیر آئینی تاریخ ہے۔

تاہم، مارچ 2007 سے آئین کی بالادستی کی ایک عظیم جنگ کا آغاز ہوا، جس میں آئین دوست اور قانون پسند قوتوں کو کامیابی ہوئی۔ مگر یہ جنگ ابھی جاری ہے، اور اس کامیابی کو ایک مستقل لازمے کی شکل دینے کے لیے پاکستانی ریاست پر اشرافی طبقات یعنی ریاستی اشرافیہ کے قبضے کا قلع قمع ضروری ہے۔ آئین دشمن اور قانون مخالف قوتیں سازشوں کے جال بُن رہی ہیں، اور بیشتر عناصر ان کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔ یہ وہ پرانے دن بہار کے واپس لانے کے لیے تڑپ رہے ہیں، جب چمن میں ان کا طوطی بولتا تھا، اور عدلیہ ان کے گھر کے ججوں پر مشتمل ہوتی تھی، اور میڈیا ان کے لکھے گیت گایا کرتا تھا۔ یہ عناصر ابھی تک اس نئی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان غیر آئینی دور سے آگے نکل آیا ہے، اور ایک بیدار اور چوکس عدلیہ کی موجودگی میں پاکستان کی ریاست، سیاست اور حکومت کو آئین اور قانون کے تحت ہی کام کرنا ہو گا۔ مگر یہ ایک مستقل جنگ ہے، تاآنکہ آئین اور قانون کی بالادستی کی روایت پاکستان کے رگ و پے میں رچ بس نہ جائے!  

[یہ مضمون تین اقساط میں ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہورمیں جولائی – اگست 2000 میں شائع ہوا۔ یہ 19 اپریل، 2000 کو مکمل ہوا تھا۔ مختلف اوقات میں اس پر نظرثانی کی جاتی رہی ہے۔ اب کچھ اضافے کے ساتھ، اسے بلاگ پر پوسٹ کیا جارہا ہے۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں