جمعہ، 6 ستمبر، 2013

ایک اور ذخمی سانپ

بعض اوقات یہ بات بالکل حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ وہ ملوث ہیں ان طبقات کے ساتھ، یہ نظام جن کے فائدے میں ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ وہ خود ان طبقات کی سیاسی پارٹیاں ہیں، اور بظاہر عام شہریوں کی نمائندہ بنی ہوئی ہیں۔ اس سے بڑی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں شکاری پارٹیاں بن گئی ہیں اور ہر وقت شکارکی تلاش میں رہتی ہیں۔ کچھ پارٹیوں نے تو باقاعدہ شکار گاہیں قائم کر لی ہیں، اور وہاں کوئی دوسرا شکاری پر نہیں مار سکتا۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی سیاسی پارٹیاں بسا اوقات ایسے کام کر دیتی ہیں، جنھیں حیران کن کہنا چاہیے۔ حیران کن اس لیے کہ یہ ان کی فطرت اور عادت کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔

ایسا ہی ایک کام برس 1999 میں مسلم لیگ (ن) سے ہو گیا تھا۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر مسلم لیگ (ن) نے یہ کام ارادتاً کیا ہوتا تو یہ اس کا کریڈٹ ضرور لیتی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے ایسے کاموں کو بہت جلد بھول بھی جاتی ہیں۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ اس لیے بھول جاتی ہیں، اور ان کاموں کا کریڈٹ اس لیے نہیں لیتیں کہ کہیں ان سے اسی طرح کے کاموں کی توقعات نہ باندھ لی جائیں۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ کام ایسا تھا کہ جیسے کسی موذی سانپ کا سر کچلنا۔ ایسا موذی سانپ، جو بہت ہی خطرناک ہو، اور جس کی کنڈلی تلے اور بہت سے موذی سانپ محفوظ بیٹھے ہوں۔ یہ کام تھا چونگی اور ضلع محصول کا بیک جنبشِ قلم خاتمہ۔

میں ان دنوں ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں کالم لکھا کرتا تھا۔ میں نے اس ’’ظالمانہ نظام‘‘ کے خاتمے پر ایک کالم لکھا۔ اب کل پرسوں سے مجھے یہ کالم یاد آ رہا ہے۔ یاد آنے کی وجہ اس میں زخمی سانپ کی تشبیہ ہے۔ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے جو حکم دیا ہے کہ کراچی میں انتخابی حلقہ بندیوں کی تشکیل نئے سرے سے کی جائے، اور جن عناصر پر اس کی زد پڑتی ہے, وہ جس طرح تلملا رہے ہیں، عین اسی طرح اس وقت وہ عناصر تلملا رہے تھے، جن کے مفادات چونگی اور ضلع محصول کے اس  ظالمانہ نظام سے وابستہ تھے۔ اُن دنوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھیے، اور آج کل اخبارات میں جو کچھ چھپ رہا ہے، اس پر بھی نظر ڈالیے، کتنے ہی زخمی سانپ تلملاتے تڑپتے نظر آئیں گے۔

شائع ہونے والا نہیں، اصل لکھا جانے والا کالم ملاحظہ کیجیے:

زخمی سانپ
    
ایک زمانہ تھا کہ اپنے ہی ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے جاتے ہوئے یوں محسوس ہوتا تھا کہ آدمی کسی دوسرے ملک میں داخل ہو رہا ہے۔ اجنبی قسم کے بدمعاش، ڈاکوﺅں کی طرح آپ اور آپ کے سامان کے درپے ہوجاتے تھے، اور جس طرح اسسٹینٹ کمشنر آنکھیں بند کر کے ٹریفک چالان کا جرمانہ نشر کرتے ہیں، یہ اسی طرح اپنی مرضی کی ”کسٹم ڈیوٹی“ وصول کرتے تھے۔ اس کسٹم ڈیوٹی کو مطلق العنان بلدیاتی حکومتیں، چونگی اور ضلع محصول کہتی تھیں اور لوگ اسے ’’غنڈہ ٹیکس‘‘ کا نام دیتے تھے۔

یہ بلدیاتی حکومتیں خود کچھ بڑے بڑے سیاسی بادشاہوں کی مٹھی میں ہوتی تھیں، اور ان ٹیکسوں کا ٹھیکہ دینا اور لینا ایک بڑا سیاسی کاروبار تھا۔ ہرفرد خواہ وہ عام ہو یا خاص، اس غنڈہ ٹیکس اور اس کے وصول کرنے والے مسلح و غیرمسلح غنڈوں کی لوٹ کھسوٹ اور دھونس دھاندلی کا شکار تھا۔ مراد یہ کہ ’عام معافی‘ کی طرح یہ ظلم عام بھی تھا اور سرِعام بھی۔ بلدیاتی حکومتیں اگرچہ اشیا کے مقررہ محصول کی طویل فہرستیں شائع کرتی تھیں، لیکن یہ فہرستیں ملک کے آئین کی طرح کہیں دفتروں میں پڑی رہتی تھیں۔ چونکہ بلدیاتی حکومتوں کے مطلق العنان فرمانروا اس گنگا میں خود ہاتھ دھوتے تھے، بلکہ ڈبوئے رہتے تھے، لہٰذا، ڈاکو نما ٹھیکیداروں اور ان کے کارندوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔ آپ کو شہروں اور ضلعوں کی سرحدوں پر ٹرانسپورٹ کی لمبی قطاریں تو یاد ہوں گی، اور آپ نے چونگی یا ضلع محصول بھی ادا کیا ہو گا۔ آپ کے پاس اس محصول کی ادائیگی کی رسید بھی موجود ہو گی۔ یاد کیجیے آپ نے کتنی رقم ادا کی۔ یاد کیجیے رسید پر کتنی رقم درج تھی۔ مشکل ہے۔ رسید پر درج تحریر اور رقم پڑھنا کسی پڑھے لکھے فانی انسان کے بس کی بات نہیں۔

لیکن پھر کیا ہوا کہ موجودہ حکومت کا دماغ پھِر گیا۔ کہتے ہیں کہ یہ حکومت جاگیرداروں، زمینداروں کی حکو مت نہیں، گرچہ یہ اس میں بھی گھسے ہو ئے ہیں۔ خیر نجا نے بیٹھے بٹھائے اس حکومت کے سر میں کیا سمائی کہ اس نے ان غنڈہ ٹیکسوں کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ بلکہ مقررہ تاریخ کو حقیقتاً اس اعلان پرعمل بھی کر ڈالا۔ جس دن یہ ظلم کی رات ختم ہوئی، اس صبح اخبارات نے سرخیاں لگائیں کہ چونگی ناکے سیل؛ ظلم کے گھر بند۔ ڈاکو نما ٹھیکیداروں اور ان کے کارندوں پر کیا گزری، ایک اخبار کی زبانی سنیے:”برآمدگی ٹیکس اور محصول چونگی کا عملہ نظام کے خاتمے کے بعد چارپائیاں اور کرسی میز سر پر اٹھا کر گھروں کو چل دیا۔ ۔ ۔ ایک طویل عرصے تک شہریوں سے گیارہ گنا کے نام پر غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنے والے، دوبارہ اس نظام کی بحالی کے لیے آس لگائے، چونگیات کے دفاتر سے زاروقطار روتے ہوئے رخصت ہوئے۔ جبکہ عملے نے نظام کے خاتمے کے آخری ایام میں شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔“ (چٹان، یکم جولائی 1999)

چونکہ سونے کی اس کان سے وزرا، اراکینِ اسمبلی، سیکرٹری بلدیات، میڑوپولٹین اور میونسپل کارپوریشنوں کے لارڈ میئر اور میئر، ضلع کونسلوں کے چیئرمین، اور سیاستدان سب کے سب متمتع ہوتے تھے، لہٰذا، ایک ناقابل شکست ’’چونگی مافیا‘‘ اور ’’کمیشن مافیا‘‘، وجود میں آ چکا تھا۔ ایک ہفت روزہ کے مطابق جب سے ”حکو مت نے چونگی مافیا کے خا تمہ اور کمیشن مافیا کے آگے بند با ندھتے ہوئے یکم جولائی سے محصول چونگی اور ضلع ٹیکس کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، ۔ ۔ ۔ چونگی مافیا نے اندھیر مچا رکھا ہے اور کئی گنا زائد وصولی کر رہے ہیں۔ (جبکہ) عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، جو اس مافیا کے ہا تھوں پریشان تھے۔ سرکاری اراکینِ پارلیمنٹ اس فیصلے پر بظاہر داد کے ڈونگرے برساتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے دل کی کیا حالت ہے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔“ (زندگی، 27 جون تا 3 جولائی)

ہمارے یہاں تو جو شخص کروڑ دو کروڑ کھا جاتا ہے، اس پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر کسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کے لیے بھیجا بھی جائے تو وہ اپنا حصہ وصول کر کے گھر کی راہ لیتا ہے، اور جو ایسا نہ کرنا چاہے، اسے ویسے ہی گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ حساب کتاب یہ ہے کہ کروڑ دو کروڑ میں اتنی گنجائش تو ہوتی ہے کہ چند لاکھ زکوٰة نکال دینے کے بعد بھی خاصا کچھ بچ جائے۔ اب جہاں اربوں کی بات ہو، وہاں تو یہ سوچنا بھی قابلِ گرفت جرم بن جاتا ہے کہ کسی پر ہاتھ ڈالا جائے اور گرفت کی جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ چونگی و ضلع ٹیکس کے نظام سے بلدیاتی حکومتوں کو تو صرف 19 ارب روپے پہنچتے تھے، جبکہ ٹھیکیدار بہادر اور ان کے معاونین 80 ارب روپے ڈکار جاتے تھے۔ یہ 80 ارب کا ڈاکہ روکنا کوئی چھوٹی سی بات نہیں۔ ان ارب پتی ڈاکوﺅں کا ناطقہ بند کرنا یقیناً بہت بڑا کارنامہ ہے، اور حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی! (یہ خطرہ آہستہ آہستہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے!)

اس ظالمانہ نظام کا بیک جنبشِ قلم خا تمہ ایک نہا یت قا بلِ تحسین اقدام ہے۔ اس کے پیچھے کوئی مخصوص مفاد یا مقصد کارفرما نظر نہیں آتا۔ اس نظا م کے خاتمے سے اب تک حزب ِ اختلا ف یا حزبِ اقتدار یا حکومت کے مخالفین اور ناقدین اس پر شک و شبے کی نظر ڈالنے کے باوجود فی الحا ل کوئی ایسا نکتہ تلاش نہیں کر سکے ہیں، جو کسی پیوستہ مفاد کا پتہ دیتا ہو۔ یہ اصلاً ایک ایسا صاف ستھرا کام ہے، جس میں حکومت کے ہاتھ بالکل گندے نہیں ہوئے۔ اسے سراسر بھلائی ہی بھلائی کہا جا سکتا ہے۔

تاہم، نقص ڈھونڈ نکالنے والوں کا منہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ کیا بھی نہیں جانا چاہیے۔ نیت صاف ہو تو خامیوں کی نشاندہی فائدہ ہی پہنچاتی ہے۔ ایک اخبار نے 27 جولائی 9919 کو ایک چھوٹی سی خبر شائع کی ہے۔ اس کا عنوان ہے: ”ضلع ٹیکس اور محصول چونگی کا نظام اگست کے آخر تک بحال ہونے کا امکان۔“ اس میں بتایا گیا ہے کہ ”ملک کے دو بڑوں نے اربوں روپے کا ٹیکس بچانے کے لیے لاکھوں غریبوں کو بے یارومدد گار کر دیا۔ جبکہ اگست کے آخر میں ضلع ٹیکس اور محصول چونگی کی بحالی کا امکان ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک کی دو بڑی شخصیات نے اپنا سیمنٹ کلیئر کروانے کے لیے ضلع ٹیکس اور محصول چونگی ختم کروا دی اور اس نوٹیفکیشن پر پنجاب اور سندھ میں عمل درآمد کروا دیا جبکہ بلوچستان اور سرحد نے عمل درآمد کروانے سے انکار کر دیا۔“

اس خبرکی صحت، سچائی اوراس کے قابل یقین ہونے سے قطع نظر، اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت یہ ظالمانہ نظام بحال کر دے گی۔ حکومت کو دوٹوک الفاظ میں اس کی وضاحت کر دینی چاہیے۔ علاوہ ازیں، 30 جون 1999 کو اگرچہ چونگی اور کمیشن مافیا کے ارب پتی زخمی سانپ شاہراہوں سے رینگتے گھسٹتے اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے، لیکن رات کے اندھیرے میں یہ مختلف نقاب چڑھائے پھر سے نمودار ہو گئے ہیں۔ ایک اخبار نے بجٹ میں چونگی محصول اور ضلع ٹیکس کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد 14 جون کو لکھا تھا کہ ”چونگی اور ضلع ٹیکس کا خاتمہ سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ حزب ِاختلاف کی جماعتیں اسے صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور قومی یکجہتی کو نقصان کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔“

یہ دونوں اعتراضات ”سیاست“ پر مبنی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر صوبائی حکومتوں کے ادارے شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہوں اور وفاقی حکومت انھیں اس ظلم و ستم سے نجا ت دلانا چاہے (اور، جبکہ وفاقی حکومت ان ٹیکسوں کے خاتمے سے صو بائی حکومتوں کو ہونے والے نقصا ن کی تلافی بھی کر رہی ہے) توکیا یہ صوبائی حقوق پر ڈاکہ ہو جائے گا۔ اور قومی یکجہتی کو پہنچنے والے نقصان کی بات تو ناقابلِ فہم ہے۔ فرض کریں اگر ایسا ہی ہے تو کیا جب چونگی اور کمیشن مافیا 80 ارب روپے غصب کر رہا تھا تو قومی یکجہتی مضبوط ہو رہی تھی۔ یہ سب زخمی سانپوں کی منطق ہے۔

یہ زخمی سانپ، ان کے سرپرست، ان کے کارندے اور ’پروردے‘، طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ’’بے روزگاری‘‘ کے جواز کو بڑے حملے کے طور پر کام میں لا رہے ہیں۔ ابتدا ہی سے حزب ِاختلاف اور حزبِ اقتدار کے بہت سے سیاستدان یہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ ہزاروں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ حکو مت بڑا ظلم کر رہی ہے، ان بے روزگاروں کا کیا بنے گا۔ یہ اعتراض قطعاً بے جا اور بے بنیاد ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ پوست اگانے، اس سے ہیروئن بنانے، اور پھر ہیروئن بیچنے کی اجازت کیا محض اس لیے دے دی جائے کہ اس سے بہت سے افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ کیا چونگی اور ضلع ٹیکس کا نظام محض اس لیے بحال کر دیا جائے کہ یہ ہزاروں افراد پھر سے روزگار پر لگ جائیں گے۔ کیا ان لاکھو ں کروڑوں افراد کی ابتلا کسی کھاتے میں نہیں آتی، جو چونگی اور کمیشن مافیا کی غنڈہ گردی اور نوچ کھسوٹ کا شکار تھے، اور جو اب بھی اس نظام کی بحالی کی خبروں سے لرز رہے ہیں۔
         
مزید برآں، حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے یہ زخمی سانپ نئے سے نئے دلائل و شواہد پیش کر رہے ہیں۔ وہ بلدیاتی اداروں کے منتخب افراد کو احتجاج اور استعفٰی دینے پر اکسا رہے ہیں۔ فارغ ہونے والے چونگی ملازمین کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اور انھیں بھڑکا رہے ہیں۔ ان کی بے روزگاری کو انسانیت کا بہت بڑا مسئلہ بنا کر جذبا ت ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتو ں کو فنڈز مہیا نہیں کر رہی۔ چونگی ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔ انھیں تنخواہیں دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ یہ بتایا جا رہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی آمدنی ختم ہو کر رہ گئی ہے؛ وہ اب ترقیا تی پروگراموں پر عمل درآمد کس طرح کریں گے۔ مراد یہ کہ مختلف حیلے بہانے تراشے جا رہے ہیں، اور ہر پہلو سے حکو مت کے اس اقدام کی مخالفت کی جارہی ہے، اور اس پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ کچھ اخبار بھی اپنی اخباریت چمکانے کے لیے اس معاملے کو خوب اچھال رہے ہیں اور اس زہریلے پروپیگنڈے کو پھیلانے میں زخمی سانپوں کے معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

سیدھی سی بات ہے کہ 80 ارب کھانے والے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وہ پلٹ کر وار ضرور کریں گے۔ وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں اور کریں گے۔ عام شہری تو متحد اور منظم نہیں، ہاں، وہ لوگ جنہیں حقیقتاً اس غنڈہ گردی سے نجات ملی ہے اور جو متحد و منظم ہیں یا ہو سکتے ہیں، انہیں ہوشیار ہو جانا چاہیے ۔ کاشتکاروں، دکانداروں، تاجروں، صنعتکاروں کو اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے کھل کر سامنے آنا چاہیے؛ تاکہ چونگی اور کمیشن مافیا حکومت پر دباﺅ ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے، اور اس ظالمانہ نظام کو بحال نہ کروا سکے۔ بلکہ فرض کریں کوئی اور حکومت آ جائے تو بھی یہ نظام پھر سے اپنے پاﺅں نہ جما سکے۔ ہمیں زخمی سانپوں سے مستقل طور پر اپنی حفاظت کرنی ہو گی۔ کتابِ ظلم کا ایک باب کسی طور ختم ہو ہی گیا ہے تو یہ دوبارہ نہیں کھلنا چاہیے!


(یہ کالم 24 اگست کو مکمل ہوا تھا، اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور میں10-16اکتوبر 1999  شائع ہوا۔)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں