فاربس کی مرتبہ فہرست کے مطابق بِل گیٹس، امریکہ کے امیر ترین اور دنیا کے دوسرے امیر ترین فرد ہیں۔ وہ 1995 سے لے کر 2009 تک دنیا کے امیرترین فردشمار ہوتے تھے۔ مارچ 2012 تک کے اعداد وشمار کی رو سے وہ 61 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔ ارب پتی بننے کے بعد سے اب تک وہ 28 بلین ڈالر چیریٹی میں دے چکے ہیں۔ وہ اپنی کمپنی ”مائیکروسافٹ“ کے قیام کے وقت (1975) سے، اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے، پر 2008 میں انھوں نے اس عہدے کو چھوڑ دیا تاکہ جو چیریٹی فاؤنڈیشن ان کی اہلیہ اور انھوں نے ”بِل اینڈ میلِنڈا گیٹس فاؤنڈیشن“ کے نام سے قائم کی ہے، اس کے ذریعے بھلائی کے کاموں پر توجہ دے سکیں۔ انھوں نے 1999 میں اس فاؤنڈیشن کو چیریٹی کے طور پر مائیکروسافٹ کے سٹاک کی شکل میں 16 بلین ڈالر دیے۔ یہ فاؤنڈیشن ایڈز، ٹی بی،پولیو کے تدارک کے لیے فنڈز مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ بالخصوص افریقہ میں ایسی فصلوں کے لیے پیسہ خرچ کرتی ہے، جوقحط کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ جب بِل گیٹس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایک مرتبہ پھر مائیکروسافٹ کے معاملات سنبھالنا چاہیں گے، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جزوی طور پراپنی کمپنی کو کچھ وقت تو دیتے ہی ہیں، اپنی باقی زندگی وہ فاؤنڈیشن کا کام کرنا پسند کریں گے۔
بِل گیٹس کا کنبہ زیادہ بڑا نہیں۔ یہ ایک بیوی، دوبیٹیوں اور ایک بیٹے پر مشتمل ہے: جینیفر،عمر 16 برس، فیبی، عمر 10 برس، اور، روری، عمر 13 برس۔ بِل گیٹس انھیں بہترین تعلیم دلا رہے ہیں۔ ان کی صحت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ پر وہ بالکل عام بچوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ روزمرہ کے کام کرتے ہیں، اور انھیں جیب خرچ ملتا ہے۔ انھیں آئی پیڈ، آئی فون یا آئی پاڈز لینے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ وہ ان کے متبادل کے طورپر وِنڈوز استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پاس وِنڈوز کا ہی ایک میوزک پلیئر ہے۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ مِنی وین میں کنسرٹ جاتے ہیں۔ بِل گیٹس کا کہنا یہ ہے کہ ان کی دولت ان کے بچوں کو منتقل نہیں ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق تینوں بچوں کو وراثت میں صرف دس دس ملین ڈالر ملیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی دولت بچوں کے لیے اچھی نہیں، اور انھیں اپنی زندگی خود بنانی ہو گی۔ بِل گیٹس اپنا پیسہ بھلائی کے کاموں میں لگا کر دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے مائیکروسافٹ کے ذریعے، دنیا کو پہلے ہی کتنا بد ل ڈالا ہے۔
بِل گیٹس کسی اور سیارے پر نہیں بستے۔ وہ کسی خیالستان کے شہنشاہ نہیں۔ ان کے بچے پریوں کے کسی دیس کے شہزادے شہزادیاں نہیں۔ یہ پانچوں، بِل گیٹس، میلِنڈا گیٹس، اور ان کے تینوں بچے اسی انسانی سیارے، زمین، پر موجود ایک ملک کے شہری ہیں۔ ہاں، ان کے پاس، بلکہ درست طو پر یہ کہنا چاہیے کہ بِل گیٹس کے پاس، شہنشاہوں اور شہزادوں سے بھی کہیں زیادہ دولت ہے۔ اس کے باوجود وہ عام انسان اور عام سے شہری ہیں۔ ان کا ملک، ریاستہائے متحدہ امریکہ، پاکستان سے کوئی سات، ساڑھے سات ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ لیکن یہ طبعی فاصلہ، دونوں سوسائیٹیوں کے بیچ حائل انسانی واخلاقی اقدار کے فاصلے کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ میرے ایک دوست جب امریکہ گئے اور واپس آئے تو میں نے ان سے پوچھا: ہاں، بھئی کیا خیال ہے پھر۔ ان کا جواب بہت معنی خیز تھا: امریکہ ایک علیٰحدہ دنیا ہے، اور پاکستان بھی ایک علیٰحدہ دنیا ہے۔
پاکستان ایک علیٰحدہ دنیا کیوں ہے۔ اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں بِل گیٹس پیدا نہیں ہوتے۔ یہاں ”مائیکروسافٹ“ جیسی کمپنیاں نہیں بنتیں (جو دنیا کو تبدیل کر دیں)۔ یہاں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے والے لوگ، سب کے سب، دولت اپنے بچوں کے لیے کماتے ہیں! یہاں ہربا پ کی دولت، خواہ یہ دیانت داری کے ساتھ کمائی گئی ہو، یا بد دیانتی کے ذریعے، وہ بالاآخر وراثت کے طورپر ان کی اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔ چلیں اس پر معترض ہونا بجا نہیں، کیونکہ قانونی طور پر ہر کسی کی دولت اس کی اولاد کو ملتی ہے، اوریہ ہر فرد کا حق ہے کہ وہ جسے چاہے، اپنی دولت اسے منتقل کرے۔ ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں، جو لوگ اپنا پیسہ بھلائی کے کاموں میں صرف کرتے ہیں، بالعموم وہ کفارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا تعلق بھلائی سے کم ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کوشش کے باوجود مجھے انگریزی کے لفظ ”چیریٹی“ کا کوئی ایسا اردو متبادل نہیں ملا، جس کے ساتھ منفی تلازمات جڑے نہ ہوں۔ اسی لیے میں نے ”چیریٹی“ کے لفظ کو ترجیح دی ہے۔
پاکستان کے ایک علیٰحدہ دنیا ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جہاں امریکی بِل گیٹس نے انتہائی دولت مند ہونے کے باوجود امریکی سیاست میں قدم نہیں رکھا، وہاں اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو کب کے نہ صرف سیاست میں حصہ لے چکے ہوتے، بلکہ اپنے پیسے کے بل پر یہاں کی سیاست کو بدل چکے ہوتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ سیاست کو اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہوتے۔ آخراً یہ کہ دونوں طرح کی دولت، یعنی اپنی دولت، کاروبار اور جائیداد، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی دولت اور جائیداد (یعنی سیاسی پارٹی اور انتخابی حلقے) کو بھی اپنی اولاد کے نام کر چکے ہوتے۔ بلکہ ان کی دونوں بیٹیاں اور ایک بیٹا، سب کے سب اس وقت سیاست کے میدان میں منزلیں مار رہے ہوتے۔
مختصراً یہ کہ پاکستان ایک ایسا امریکہ بن چکا ہوتا، جہاں بِل گیٹس اس قدر موجدی، تخلیقی اور سچے نہ ہوتے، جتنا وہ ہیں۔ پھر یہ کہ ان کی نظر انسانی، اخلاقی اور سماجی قدروں پر قطعاً نہ ہوتی، بلکہ انسانیت، اخلاقیات، اور اصولوں جیسی فضول چیزوں کو لات مارکر، وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت بنانے ( کمانے نہیں) میں لت پت مصروف ہوتے۔ بلکہ وہ اب تک آئین، قانون، قواعد و ضوابط، جیسی رکاوٹوں کو روند کر پاکستان اور پاکستان سے باہر، دولت کے انبارلگا چکے ہوتے۔ بلاشبہ، وہ اس وقت پاکستان کے صدر، یا وزیرِ اعظم تو ضرور ہوتے۔ پھر جہاں تک ان کے بیٹے اور دونوں بیٹیوں کا تعلق ہے تو وہ بھی ایم- این- اے، یا ایم- پی- اے تو ضرور ہوتیں۔ یا پھر کسی وفاقی یا صوبائی کرسیِ وزارت پر براجمان ہوتیں۔ یا اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی کل اولاد ایسے بڑے سرکاری عہدوں پر متمکن ہوتی، یا ایسے کسی سرکاری محکمے میں رونق افروز ہوتی، جہاں دولت کی ریل پیل ہوتی اور سرکاری آسائشوں کا ہُن برس رہا ہوتا۔
فرض کریں اگر پاکستان میں بِل گیٹس کی اولاد قومی اسیمبلی، یا کسی صوبائی اسیمبلی، یا سینیٹ میں نہ ہوتی، اور ان کے حصے میں کوئی سرکاری محکمہ یا سرکاری دولت نہ آئی ہوتی، تو وہ کم ازکم اپنے والد یا والدہ کے سیاسی قد کاٹھ ، یا سیاسی و سرکاری اثرو رسوخ کی وجہ سے سرکاری پروٹوکول، اور سرکاری مراعات سے ضرور متمتع ہو رہے ہوتے۔ سرکاری گاڑیاں، سرکاری افسران، سرکاری رہائش گاہیں، سرکاری محکمے ان کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہوتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بِل گیٹس کی بیٹیوں کا نام، جینیفر یا فیبی نہ ہوتا، بلکہ فضہ گیلانی، یا آصفہ زرداری، یا مریم نواز شریف ہوتا۔ اوران کے بیٹے کا نام روری نہ ہوتا، بلکہ مونس الہٰی ، یا بلاول زرداری، یا حمزہ شہباز شریف، یا عبدالقادر گیلانی، یاعلی موسیٰ گیلانی ہوتا۔
مراد یہ کہ امریکی سیاست، امریکی سیاست نہ ہوتی، پاکستانی سیاست کی طرح کی سیاست ہوتی، جہاں شہری بے چارے، آزاد اور باعزت شہری نہیں، حکمران طقبات کی غلام رعیت ہوتے۔ اور بِل گیٹس کے بچے عام سے انسان نہ ہوتے، جنھیں اپنی زندگی خود بنانی پڑتی، بلکہ ان کا رتبہ شہزادیوں اور شہزادوں جیسا ہوتا۔ ایسی شہزادیاں اور شہزادے جنھیں رعایا پر حکمرانی کرنے کے لیے تیارکیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ پاکستان کی غلام رعیت بھی، باقی دولت اور جائیداد کی طرح ان شہزادیوں اور شہزادوں کو منتقل ہو رہی ہوتی، جیسے پاکستا ن میں ہو رہی ہے۔ اور بے چارہ میڈیا، ان شہزادیوں اور شہزادوں کے قد کاٹھ بنانے اور بڑھانے میں ہمہ تن غرق ہوتا۔
اس موازنے و مقابلے کا سبق یہ ہے کہ بِل گیٹس بے چارے تو سادہ لوح ثابت ہوئے۔ کاش وہ کبھی پاکستانی سیاست دانوں سے ملے ہوتے، اور ان سے سیاسی کاروبار کے گُر سیکھے ہوتے تو وہ بھی آج ”مائیکروسافٹ“ کمپنی کے ساتھ ساتھ، جو پورے پاکستان کو سافٹ ویئر سپلائی کر رہی ہوتی، ایک عدد سیاسی جائیداد (یعنی سیاسی پارٹی) کے مالک بھی ہوتے، اور یہ بھی کہ وہ ان دونوں طرح کی جائیدادوں کو بڑی آسانی سے اپنی اولاد کومنتقل کر چکے ہوتے!
[یہ تحریر 3 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں