غیرا خلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی خوراک پر پلنے والی ریاستیں، شکاری ریاستیں ہوتی ہیں۔ یہ ہمیشہ تاک میں ہوتی ہیں کہ کوئی ایسا ایشو، کوئی ایسا معاملہ، کوئی ایسا مسئلہ، کوئی ایسا حادثہ، کوئی ایسا سانحہ وقوع میں آئے، اور جب ایسا کچھ ہوجاتا ہے، یہ اسے فوراً شکار کر نا چاہتی ہیں۔ خواہ یہ کوئی قدرتی آفت ہو، جیسے کہ سیلاب یا زلزلہ، یا کوئی ایسا حادثہ یا سانحہ یا واقعات کا کوئی ایسا سلسلہ، جس میں بالخصوص عام شہریوں کو جان ومال کا نقصان اٹھانا پڑے، اور خواہ یہ حادثات یا سانحات، خود اس کی اپنی غلط اور بدعنوان پالیسیوں کا نتیجہ ہوں، ریاست کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کی دلچسپی کا محور صرف یہ بات ہوتی ہے کہ اسے اپنے کسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے کام میں کیسے لایا جائے۔
جبکہ معقولیت کا تقاضا یہ ہے کہ جوواقعہ، جو سانحہ بھی وقوع پذیر ہو، نہ صرف اس کی وجوہات اور اس کے پیچھے کارفرما قوتوں کا نام ونشان کھوجا جائے اور ان کے تدارک کا مناسب اور ضروری بندوبست بھی کیا جائے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا تجزیہ بھی کیا جائے اور ان کی درستگی اور تصحیح کے لیے پر خلوص سعی کی جائے اور کوئی ایسی تدبیر وضع کی جائے کہ آئندہ ایسے واقعات اور سانحات وقوع پذیر نہ ہونے پائیں، یا اگرا یسا ہو بھی تو شہریوں کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔ یہ تما م باتیں کسی خواب کی دنیا کی باتیں نہیں، بلکہ اسی دنیا میں بسنے والے انسانوں نے یہ سب کچھ سوچا، سمجھا، اور پھر کر دکھایا ہے۔
تاہم، یہ نہ صرف افسوس کا مقام ہے، بلکہ پاکستانی ریاست کی شدید نااہلی بھی کہ ایک ایسے کام میں یہ کلی طور پر ناکام ہو گئی ہے، جسے کسی بھی ریاست کا اولین فریضہ سمجھا اور گردانا جاتا ہے، یعنی اپنے شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق اور آزادیوں کی حفاظت۔ پاکستانی ریاست نے اپنے اس اولین فریضے کو تو پسِ پشت ڈالا ہی، اس نے ان لوگوں اور ان گروہوں کے ساتھ بھی ساز باز کا رشتہ استوار کر لیا، جو کسی نہ کسی ایجینڈے کے تحت پاکستانی شہریوں کی جان ومال اور ان کے حقو ق کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان میں سیاسی اور غیرسیاسی دونوں قسم کے عناصر شامل ہیں۔ بلکہ پاکستانی ریاست نے ایسی گمراہ کن پالیسیاں تشکیل دیں، جن کی تکمیل کے لیے ایسے گروہوں کو تخلیق کیا گیا، جو خود پاکستانی آئین اورپاکستان کے شہریوں کے دشمن بن گئے۔
آخرِ کار یہ ہو ا کہ اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مفادات کے تحفظ کے جنون میں گرفتار پاکستانی ریاست نے اپنے شہریوں کو تنہا اور بے یا رومددگار چھوڑ دیا۔ پھر یہ بھی کہ اس کی گمراہ کن پالیسیوں کے تنائج بھی تو برآمد ہونے تھے، اور یہ بھی شہریوں کے لیے ہی مہلک ثابت ہوئے۔ کیونکہ خواہ یہ جان کا نقصان ہو یا مال کا، اس کا بوجھ آخراً شہریوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہی صورت سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بھی رہی۔ وہ بھی اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مفادات میں ایسی اندھی ہو چکی ہیں کہ انھیں شہریوں کی جان ومال اور ان کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ سے کوئی غرض نہیں۔ یہ شہریوں کو اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں، اور ان کے ساتھ اسی طرح کا سلو ک کرتی ہیں۔ پاکستان میں شہریوں کے ساتھ جوظلم و زیادتیاں، اور غیرانسانی سلوک ہور ہا ہے، اس کی تمام ذمے داری ان پر آتی ہے۔ حقیقتاً سیاسی اور آئینی اور قانونی اختیار ان کے پاس رہا ہے، اور ہے، اور انھوں نے پاکستانی ریاست کا قبلہ درست کرنے کی ذرا سی کوشش بھی نہیں کی۔ اس کے برعکس انھوں نے ایسے ریاستی عناصر کو مضبوط کیا، جو شہری دشمن پالیسیوں کے خالق اور مالک تھے اور ہیں۔
مراد یہ کہ پاکستانی سیاست نے بھی پاکستانی ریاست کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ چونکہ آئینی اور قانونی اختیار کی حامل پاکستان کی سیاسی پارٹیاں رہی ہیں، اور اب بھی ہیں، لہٰذا، انھیں اصل اور بڑا مجرم گرداننا چاہیے۔ کیونکہ یہ یہی سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان ہیں، جنھوں نے ریاست کا قبلہ درست کرنے کے بجائے اسے اپنے غیر سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کا جرم بھی کیا، اور مسلسل اس جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اصلاً یہ یہی سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان ہیں، جنھوں نے پاکستانی ریاست کو ایک شکاری ریاست بنا دیا ہے۔ یعنی ایک ایسی ریاست، جو اپنے فرائض سے مکمل کوتاہی کی مرتکب تو ہو ہی رہی ہے، بلکہ یہ شہریوں کے ساتھ ہونے والے سانحات کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے باز نہیں آتی۔
سوات میں جو سانحہ ہوا، جس میں کسی مخفی نہیں بلکہ علانیہ دہشت گردی نے ملالہ کو نشانہ بنایا اور جس میں شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئیں، وہ ”سلسلۂ روز وشب، نقش گرِ حادثات“ کی لڑی سے ٹوٹا ہوا دانہ نہیں۔ یہ سانحہ ایک ایسا منشور ہے، جو پاکستانی ریاست، سیاست اور حکومت کے ماضی کا عکس دکھانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ریاست، سیاست اور حکومت کے حال اور مستقبل کا نقشہ کھینچ کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہ عکس اور یہ نقشہ، کوئی جدا جدا چیزیں نہیں، بلکہ جو ماضی میں ہوا، وہی آج ہمارا پیچھا کررہا ہے، اور کل بھی ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔ بلکہ بات صاف صاف بات کرنی چاہیے کہ آج اور مستقبل میں پاکستان کے عام شہریوں کا پیچھا کرتا رہے گا۔
جیسے ہی یہ سانحہ ہوا، میڈیا نے، جو خود گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے، اپنی پوری توجہ اس پر مرکوز کر دی۔ پھر حکومت کو بھی جوش آ گیا۔ یعنی شکاری اپنے مچان میں سویا ہوا تھا، اٹھ بیٹھا۔ حکومتی کارندوں نے اپنے جھوٹ آلودہ بیان اگلنے شروع کر دیے۔ اپنی بے معنی تقاریر جھاڑنی شروع کر دیں۔ اور حکومت نے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا۔ پھر اربابِ حکومت اور اربابِ ریاست نے مل کر اس سانحے پر غوروفکر کیا، جو محض ’’نشستن، گفتن، برخاستن“ تک محدود رہا۔ یہ کیسے پتہ چلے کہ اس اجلاسِ با اختیار میں اس سانحے کے اسبا ب اور نتائج و عواقب پر بھی نظر ڈالی گئی یا نہیں۔
اسی اثنا میں دوسرے سیاسی شکاری بھی کمر باندھ چکے تھے؛ اب انھوں نے بھی اس سانحے کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل اس سانحے کو یوں پیش کیا گیا تھا، جیسے سب متفق الرائے ہوگئے ہیں۔ جیسے بکھرے دانوں کو اس سانحے نے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ عیاں ہو گیا کہ یہ ایک سراب تھا۔ بھانت بھانت کے ذہنوں نے بھانت بھانت کی بولیاں بولنا شروع کر دیں۔ اب کھلا کہ اور بہت سے مفادات بھی ہیں، جو حکومت سے بھی بڑے شکاری بنے ہوئے ہیں۔
کائنا ت اورشازیہ تو پیچھے رہ گئیں، ریاست اور سیاست کو ان کی ضرورت نہیں تھی؛ ان کے لیے ملالہ ایک اچھا شکار تھی۔ سو اب ملالہ کی عیب جوئی اور عیب گیری کا ڈول ڈلا۔ منشا کسی نہ کسی طور اس پر کیے جانے والے حملے کو جواز عطا کرنا تھا۔ اب شکاری ریاست، اور شکاری حکومت نے بھی پینترے بد لنے شروع کیے۔ ایک نئے راگ کی تانیں بلند ہونے لگیں۔ یہ راگ ہے اتفاق اور یکجہتی کا۔ دلیل یہ ہے کہ جب تک ملک میں مکمل اتفاق اور مکمل یکجہتی پیدا نہیں ہو جاتی، ریاست اور حکومت اس وقت تک دہشت گردوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گی۔ مراد یہ کہ جیسے ہی دوسرے سیاسی شکاری میدان میں آئے، شکاری ریاست اور شکاری حکومت نے پسپائی اختیار کر لی، اور اتفاق اور یکجہتی کا سبق دہرانا شروع کر دیا۔ یا پھر یہ چیز پسپائی کا بہانہ ثابت ہوئی۔
کیا اس کوتاہی اور بے عملی کا مطلب یہ نہیں بنتا کہ ریاست اور سیاست دونوں اپنا چال چلن درست نہیں کرنا چاہتیں۔ جب کسی حادثے کا زخمی ہسپتا ل میں پڑا ہو، اور اس کی زندگی بچانے کے لیے فوری آپریشن کی ضرورت ہو تو کیا یہ کہا جائے گا کہ ملک کے تمام ڈاکٹروں میں اتفاقِ رائے اور یکجہتی پیدا ہو جائے، زخمی کا آپریشن تب کیا جائے گا۔ یعنی یہ کہ اگر پاکستان کی کل آبادی، اٹھارہ یا بیس کروڑ شہریوں کی جان ومال اور ان کے حقوق کو چند سو، یا چند ہزار یا چند لاکھ دہشت گردوں اور ان کے حواریوں سے شدید خطرہ لاحق ہو تو ان کا تحفظ تب کیا جائے گا، جب ملک میں مکمل اتفاقِ رائے اور مکمل یکجہتی پیدا ہو جائے گی۔ کیا پاکستان کے آئین میں کوئی ایس دفعہ موجود ہے، جو ریاست اور حکومت کو اس انتظار میں رہنے کا حق دیتی ہو کہ وہ اپنی ذمے داری اور فرائض پر اس وقت تک عمل درآمد نہ کرے، جب تک ملک میں یکجہتی پیدا نہ ہوجائے۔ کیا اگر کل کلاں کوئی طاقت پاکستان کی سرحدوں پر حملہ آور ہو جائے (داخلی سرحدیں تو پہلے ہی حملہ آوروں کی زد میں ہیں!) تو کیا ریاست اور حکومت اتفاق اور یکجہتی کے انتظار میں بیٹھی رہیں گی!
[یہ تحریر 30 اکتوبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں