یہ کالم مثالوں کے ساتھ ایک ضرب المثل کی تشریح سمجھ لیجیے۔ مثل ہے: حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ۔ فرہنگِ آصفیہ میں اس کا مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے: (کہاوت) پرائے مال کو اپنا سمجھ کر صرف میں لانے یا غیر کا مال بے دریغ صرف کرنے کے موقع پر بولتے ہیں۔ نوراللغات اس کہاوت کے مفہوم میں یہ اضافہ کرتی ہے: گِرہ کا کچھ خرچ نہیں ہوتا۔
اب کچھ مثالیں دیکھیے۔ 5 اکتوبر کو ٹاک شو، ”آج کامران خان کے ساتھ“ میں بتایا گیا: ’ایک بڑا دلچسپ معاملہ ہے، انتظامی معاملہ ہے، سیاسی نہیں، 82 کروڑ روپے، بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ اسلم رئیسانی نے اپنے خاندان کو ادائیگی کی ہے، دس سال پرانا قبائلی تنازعہ ہے اس کی بنیاد پر، ایک ہائی کورٹ کا آرڈر ہے، یہ فیصلہ کیا گیا ہے، 82 کروڑ روپے پہنچے ہیں انھیں کے خاندان کو، انھیں کی حکومت میں۔ ایک چیک سے ادائیگی ہوئی ہے، جھگڑا ہوا تھا، رند قبیلے اور رئیسانی قبیلے کے درمیان، رند قبیلے نے طاقت کی بنیاد پر اس کا نقصان کیا تھا، املاک کو، گھروں کو تباہ و برباد کیا تھا، رئیسانی قبیلے کے لوگ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں لے گئے تھے، ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا تھا کہ حکومت نقصانات کا جائزہ لے اور اس بات کویقینی بنائے کہ اس قسم کے واقعات نہ ہوں۔‘
’جب اسلم رئیسانی کی حکومت نے مختلف مراحل میں نقصانات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اس وقت کے چیف سیکریٹری نے اس پورے طریقِ کار پر شدید اعتراضات کا اظہار کیا تھا، اور کہا تھا کہ دو قبائل کے درمیان کا معاملہ، حکومتِ بلوچستان اس کی ادائیگی کرے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، پھر بلوچستان سے چیف سیکریٹری ناصر کھوسہ کا تبادلہ ہو گیا، اسی دوران بلوچستان حکومت نے، جس کے وزیرِ اعلیٰ اسلم رئیسانی ہیں، تمام مراحل بہت تیز ی سے مکمل کیے، اس دوران نہ تو سپریم کورٹ میں کوئی اپیل دائر کی گئی، نہ ہی بلوچستان ہائی کورٹ سے مزید تشریح کے لیے کہا گیا، اور یوں ایک چیک ادا کیا گیا 82 کروڑ کا اسلم رئیسانی کے بھائی نواب لشکری رئیسانی کو، جوپیپلز پارٹی کے بہت اہم رہنما ہیں، پہلے صوبائی کابینہ میں بھی شامل تھے۔‘
پھر کامران خان نے اسلم رئیسانی سے بات کی اور ان کا موقف پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ حکومت نے ہمارے نقصان کی تلافی کی ہے۔ جس پر کامران خان نے پوچھا کہ ہائی کورٹ نے تو ایسا کوئی واضح حکم نہیں دیا تھا کہ 82 کروڑ روپے ادا کیے جائیں، پھر بلوچستان حکومت نے، اورچیف منسٹر نے یہ 82 کروڑ روپے کیوں ادا کر دیے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ ان کی کسی سے بات نہیں ہوئی، وہ کچھ نہیں جانتے، اور انتظار کے بعد یہ ادائیگی ہوئی۔ اسی پروگرام میں 12 اکتوبر کو بتایا گیا کہ اسلم رئیسانی اور لشکری رئیسانی کے سوتیلے بھائی، نوابزادہ امین اللہ رئیسانی، جو عمان میں پاکستان کے سفیر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان بیاسی کروڑ روپوں میں سے ان تک کچھ نہیں پہنچا اور یہ پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئے۔
کچھ اور اہم مثالیں۔ نومبر 2011 میں سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے لاہور میں ایچیسن کالج کو 30 ملین روپوں کی گرانٹ عطا کی۔ اس سے قبل 2009 میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائین لمیٹڈ (ایس، این، جی، پی، ایل) کی طرف سے، جو ایک پبلک کمپنی ہے، ایک نجی یونیورسیٹی، لاہور یونیورسیٹی آف مینیجمینٹ سائینسز (لَمز) کو 100 ملین روپوں کی ڈونیشن دی گئی۔ اسی سال کے آغاز میں چیف منسٹر پنجاب نے پنجاب اسیمبلی میں پیپلزپارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈرشوکت بسرا کو، جو حزِبِ اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں، 1.3 ملین روپے ان کے بیٹے کے علاج کے لیے دیے۔
تازہ ترین مثال پنجاب سے ہے۔ ملاحظہ کیجیے: ستمبر میں لاہور میں ’بجٹ اور تعلیمی سرمایہ کاری‘ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے تعلیم کے بجٹ کے لیے سب سے زیادہ رقم مختص کی ہے۔ اسی سیمینار میں ایک این- جی- او، آئی- سیپس (آئی- ایس- اے- پی- ایس) کے ایک محقق نے یہ انکشاف کیا کہ پنجاب حکومت نے آرمی پبلک سکول وکالج راولپنڈی کو 100 ملین روپوں کی گرانٹ دی ہے۔ اس کے علاوہ پاک ترک کالج کو ایک سکول اور کالج کے قیام کے لیے 12.8 ملین روپے دیے گئے۔ آئی- سیپس کے محقق نے مزید بتایا کہ گذشتہ سالوں میں پنجاب حکومت کی طرف سے نجی اداروں کو دی جانے والی گرانٹس میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2011-12 میں یہ گرانٹس 11 فی صد تھیں، جبکہ سال 2012-13 میں یہ گرانٹس بڑھ کر 12.37 فی صد ہوگئیں۔
گو کہ اس قسم کی مثالوں سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے ( بے چارے ٹیکس دینے والوں کے لیے خزانہ خالی!)، اور اگر کوئی ان کی جمع و ترتیب کرے تو دنیا بھر کے بادشاہوں کی دریا دلی کی کہانیاں ماند ہو کر رہ جائیں۔ تاہم، اس کہاوت کی توضیح کے لیے یہ چند مثالیں ہی کافی ہیں۔
مزید وضاحت کے لیے، اس سے ملتی جلتی کچھ اور کہاوتیں دیکھیے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم: مفت کا روپیہ بیدردی اور بےقدری سے صرف کیا جاتا ہے۔ دوسرے کے روپیہ کی قدر نہیں ہوتی۔ پرائی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ مال لٹے سرکار کا مرزا کھیلے پھاگ: پرائے مال پر عیش منانا۔ دوسرے کا مال برباد کر کے آپ رنگ رلیاں کرنا۔ لوٹ کے موسل بھی بھلے: مفت کی ادنےٰ چیز بھی اچھی ہے۔ اس کہاوت کے پیچھے ایک واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ نادرشاہ نے دلی فتح کی تو ہر ایرے غیرے کو لوٹ مار کا موقع ہاتھ آ گیا۔ ایک اوباش کسی گھر میں گھسا، وہاں اسے کچھ نہ ملا تو ایک موسل نظر پڑا، وہی اٹھا لیا۔ راستے میں کسی نے پوچھا، اتنی بھاری چیز لیے کہاں جا رہے ہو، بولا مفت کا موسل بھی بھلا۔ اسی مفہوم سے ملتی جلتی ایک اور کہاوت خاصی معروف ہے، بندربانٹ: ایسی تقسیم جس میں تقسیم کرنے والے کا فائدہ ہو اور جن کی چیز ہے وہ گھاٹے میں رہیں۔ (یہ الفاظ و مطالب مذکورہ بالا دونوں فرہنگوں سے ماخوذ ہیں۔)
اب ذرااس فن کی بھی کچھ بات ہوجائے، جو ان دریا دل حکمرانوں کی اس سخاوت اور فیاضی کو ممکن بناتا ہے۔ صاف بات ہے اگر یہ فیاض لوگ اقتدار میں نہ ہوں تو ان کی یہ فیاضی دھری کی دھری رہ جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل میں یہ اقتدار اور شہریوں کا ٹیکس کا پیسہ ہے، جو ان کے دلوں کو بڑا کر دیتا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے اس فن کا نام ہے، سیاست۔ سیاست کو دوسروں کے پیسے پر زندہ رہنے کا فن بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں نے جتنا اس فن میں مہارت حاصل کی ہے، شاید ہی کہیں اور ایسا ہوا ہو۔ بلکہ یہاں تو اشرافی طبقات کا ایک پورا سلسلہ ہے، جو طفیلی زندگی گزارتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ شہریوں کا ٹیکس کا پیسہ ان کا حق ہے، اور یوں ساری عمر، اورنسل در نسل یہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ پڑھتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست مجموعی طور پر اشرافی طفیلی طبقات کے درمیان اس لڑائی پر مبنی ہے کہ شہریوں کے پیسوں پر کس کا حق زیادہ ہے، اور اب کس کی باری ہے۔ گو کہ پاکستانی سیاست دانوں نے یہ سبق بھی سیکھ لیا ہے، جیسے پنجابی میں کہتے ہیں، کہ: رل کھاؤ تے کھنڈکھاؤ۔ یعنی جو چیز مل جل کر کھائی جائے، وہ کچھ زیادہ ہی میٹھی ہو جاتی ہے۔
پھر کیا کیا جائے۔ پاکستانی اشرفی طفیلی جمہوریت کا علاج کیا ہے۔ پہلے بھی ایک کالم میں ذکر آیا تھا کہ اول تو حکمرانی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے تمام صوابدیدی اختیارات اور صوابدیدی فنڈز ختم ہونے چاہئییں۔ اور دوم یہ کہ حکومت کے تمام حسابات ویب سائیٹس پر دستیاب ہونے چاہئییں۔ اس کے پیچھے یہ اصول کارفرما ہے کہ خواہ یہ منتخب حکمران ہوں یاریاست کے ملازمین، شہریوں کا ٹیکس کا پیسہ ان کے پاس ایک امانت ہے، اور انھیں اس کی ایک ایک پائی کا حساب دینا چاہیے۔ یہی اصل جوابدہی، اور یہی اصل احتساب ہے!
[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 16 اکتوبر کو شائع ہوئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں