جمعہ، 6 ستمبر، 2013

مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!

چینی کے برتن کتنے خوبصورت اور نازک ہوتے ہیں۔ یہ جب ٹوٹتے ہیں، کتنا عجیب چھناکا اور کتنا دکھ ہوتا ہے۔ اگر کسی چائنہ شاپ میں بیل جیسا جانور آ گھسے توکتنے چھناکے اور کتنے دکھ کرِچی کرِچی ہوجاتے ہیں۔ یہی سوچ ”چائنہ شاپ میں بیل“ کے انگریزی محاورے میں رچی بسی ہے۔

پاکستان بھی ایک چائنہ شاپ ہے، اور اس کے حکمران طبقات، بلکہ حکمرانی کرنے والی اشرافیہ ایک بیل ہے، ایک بدمست بیل، جو اس شاپ میں سجے چینی کے خوبصورت اور نازک برتنوں کی توڑ پھوڑ کررہا ہے۔ محاورے کا بیل تو شاید کچھ مہذب ہو، کیونکہ اس کا تعلق انگریزی سے ہے، جبکہ پاکستانی بیل سے ایسی کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ دلدار پرویز بھٹی ایک مرتبہ ریڈیو پر بچوں کو کہانی سنا رہے تھے: بچو! ایک کتا تھا، وہ بہت کتا تھا۔ اس پاکستانی بیل کو بھی ایسا ہی بیل سمجھنا چاہیے۔ یہ بیل صرف برتنوں پر مہربان نہیں، یہ تو خود شاپ کے درپے ہے۔ یہ اس شاپ کی عمارت کو گرا دینا اور اسے بنیادوں سمیت اکھاڑ دینا چاہتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، یہ اس علاقے، اس بازارکا امن بھی تباہ کردینا چاہتا ہے، جہاں یہ شاپ واقع ہے۔

گذشتہ دنوں یہ خبر اخبارات میں اور ٹی وی چینلز پر گردش کر رہی تھی کہ توقیر صادق گورنر ہاؤس لاہورمیں روپوش ہیں۔ یہ وہی توقیر صادق ہیں، جو مبینہ طورپر 83 ارب روپے کے سکینڈل میں نیب کو مطلوب ہیں۔ اب نیب کونسا اتنا ایف- بی- آئی ہے کہ ا نھیں فوراً گرفتار کر لے۔ یہ تو پاکستان میں ایک سپریم کورٹ ہے، جو اشرافیہ کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے، اسی نے نیب کی گردن مروڑی تو توقیر صادق کی گرفتاری کا ڈول ڈلا۔ جب ڈُھنڈیا پڑی تو پتہ چلا کہ وہ لاہور میں مہمانی کے مزے اڑا رہے میں۔

ایسے میں اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا گورنر ہاؤس، پاکستان میں نہیں تو اشرافیہ بُرا منائے گی، اور سوال اٹھانے والے کو وطن دشمن قرار دے دے گی۔ اگر یہ سوچا جائے کہ اگر آج انگریزوں کی حکومت ہوتی تو گورنرصاحب، توقیر صادق کے ہمراہ قانون کی گرفت میں ہو تے۔ لیکن ایسا سوچنے والے کو اشرافیہ، پاکستان کی آزادی کا دشمن اور انگریزوں کا پٹھو قرار دے دے گی۔ اوراگر یہ پوچھا جائے کہ کیا جمہوریت کا یہی مطلب ہے کہ حکومتی عمارات، مجرموں کی پناہ گاہیں، اور حکومتی شخصیات، مجرموں کی محافظ بن جائیں تو اشرافیہ ایسا کہنے والے کو جمہوریت دشمن اور ڈکٹیٹر شپ کی پیداوار قرار دے دے گی۔

سنیے اور سوچیے: 8 اکتوبر کے ”ایکسپریس ٹریبیون“ میں ایک سٹوری چھپی ہے۔ یہاں میں رپورٹر اسد کھرل اور اس اخبار کے شکریے کے ساتھ اس خبر سے استفادہ کر رہا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھاریٹی(اوگرا) کے سابق چیئر مین، توقیر صادق، جو اربوں روپے کے سکینڈل کے بڑے ملزم ہیں، سیاسی فائر وال کے پیچھے چھپ کر خود کو گرفتاری سے بچاتے رہے۔ ویک اینڈ پر سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق نیب کی ایک ٹیم جمعے (5اکتوبر) کو لاہور پہنچی، اور متعلقہ پولیس افسران کے ساتھ مل کر مشکوک جگہوں پر ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے ۔ تاہم، اس ٹیم کو اس وقت رک جانا پڑا، جب توقیر صادق کی گورنر ہاؤس میں موجودگی کی اطلاع کی تصدیق ہو گئی۔ گورنر ہاؤس کے گرد محاصرہ قائم کر دیا گیا۔ لیکن توقیر صادق گورنر کی گاڑی میں بیٹھ کر رفو چکر ہو گئے، کیونکہ گورنر کی گاڑی کو کوئی بھی چیک نہیں کرسکتا۔ (اس کا مطلب ہے کہ اس گاڑی سے تو بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے!)

دوگھنٹے بعد وہ ایل- پی- جی ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار کے ساتھ دیکھے گئے، اور اقبال ٹاؤن میں اپنے انکل سے ملاقات کے بعد، وہ رائے ونڈ میں اپنے بھائی کے فارم ہاؤس جا پہنچے۔ نیب کی ٹیم اپنی پوری تیاری کے ساتھ لاہور پہنچی تھی، اس نے لاہور پولیس کو ان مشکوک پناہ گاہوں کے بارے میں بھی بتایا تھا، توقیر صادق جہاں جہاں پائے جا سکتے تھے۔ ان مقامات میں پیپلزپارٹی کے رہنما عزیزالرحمٰن چن کی رہائش گاہ بھی شامل تھی۔ اصل میں یہ لاہورپولیس کے مخبر تھے، جو نیب کی پارٹی کو اس وی- آئی- پی ملزم کی حرکت سے مطلع رکھ رہے تھے۔ پولیس کو ان کے جہاں پہنچنے کی اطلاع ملتی، وہ پولیس کے وہاں پہنچنے سے چند لمحے پہلے کھسک جاتے۔ ظاہر ہے اندر کے کچھ لوگ ان کو بھی لمحے لمحے کی خبر دے رہے تھے۔ پھر وہ پیپلز پارٹی کے جینرل سیکریٹری جہانگیر بدر کے گھر پہنچے۔ اور شام کواسلام آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ پیر (8 اکتوبر) کو سپریم کورٹ میں پیش ہو جائیں گے۔  

لاہور کے سی- سی- پی- او اسلم ترین کے مطابق پولیس نے توقیر صادق کی گرفتاری کے لیے نیب کی ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون کیا، اور کئی مقامات پر چھاپے مارے۔ جبکہ نیب کے ذرائع کے مطابق سی- سی- پی- او نے تو تعاون کیا، لیکن آئی-جی پنجاب، اورپنجاب کانسٹیبلری کے کمانڈینٹ، اور ایک انٹیلی جینس ایجینسی کے اعلیٰ سطحی عہدیدار، ملزم کو پناہ مہیا کرتے رہے، اور ملزم کو چھاپہ مار ٹیم کی حرکت سے آگاہ کرتے رہے۔ ان معزز شخصیات نے پنجاب حکومت سے درخواست کی تھی کہ توقیر صادق کو گرفتار نہ کیا جائے، وہ سپریم کورٹ میں خود گرفتاری دے دیں گے۔
یہ ہے ایک ناکام گرفتاری کی کہانی۔ لیکن یہ ساری کہانی کچھ ”نورا کشتی“ جیسی، اور اس ریس جیسی لگتی ہے، جس میں ایک میکانکی خرگوش کو میکانکی طریقے سے دوڑایا جاتا ہے اور ذی جان کتے اس خرگوش کا تعاقب کرتے ہیں۔ وہ خرگوش کو پکڑ نہیں پاتے، کیونکہ مقصد کتوں کی ریس لگوانا ہوتا ہے۔ ذرا اس کہانی کے کرداروں پرنظر ڈالیے، اس میں آئینی کردار بھی شامل ہیں اور قانونی کرداربھی۔ دوسرے الفاظ میں اس میں وہ کردار بھی شامل ہیں، جو قانون بناتے ہیں، اور وہ کردار بھی، جو قانون کا نفاذ کرتے ہیں۔ سب نے مل کر سسپینس اور ایکشن سے بھرپور فلم بناڈالی!

انگریزی اخبار ’نیوز‘ نے 9 اکتوبر کو رپورٹ کیا کہ لیڈر آف دا ہاؤس، جہانگیر بدر نے پیر (8 اکتوبر) کو سینٹ میں شدید احتجاج کیا۔ نیب نے پنجاب ہاؤس، اسلام آباد میں ان کے کمرے پر رات کی تاریکی میں چھاپہ مارا۔ انھوں نے سینیٹ میں اپنی شکایت رجسٹر کروائی کہ پنجاب پولیس، اسلام آباد پولیس، اورایف- آئی- اے کے اہلکار نیب کے افسران سمیت اتوار (7 اکتوبر) کی رات دیر تک ان کے کمرے کے دروازے پر موجود رہے۔ سینیٹ کے چیئر مین، نیئر بخاری نے وزارتِ داخلہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے کہ لیڈر آف دا ہاؤس کو کیوں ہراساں کیا گیا۔ تمام سینٹ ارکان نے جہانگیر بدر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اپوزیشن لیڈر اسحاق ڈار نے بھی انھیں ہراساں کرنے کی مذمت کی۔ رضا ربانی نے کہا کہ یہ واقعہ پارلیمان اور سیاست دانوں کے خلاف ایک سازش کا حصہ ہے۔ اے- این- پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ نادیدہ طاقتیں ابھی تک حکمرانی کر رہی ہیں۔ مشرق پشاور نے بھی 9 اکتوبر کو این- این- آئی کے حوالے سے یہ خبر دی کہ نیب نے توقیر صادق کے گورنر ہاؤس سے مبینہ فرار میں ملوث ہونے پر ایل- پی- جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کے صدر(کمہار پر بس نہ چلا ، گدھیا کے کان اینٹھے ۔ کیا ملزم کو پناہ دینے والا قانون کی گرفت سے بچ سکتا ہے!) اورجہانگیر بدر کے صاحبزادے علی بدر سے پوچھ گچھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ پنجاب حکومت نے بھی ان کے فرار میں پولیس کے ملوث ہونے کا نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقات شروع کردی ہیں۔

آج 11 اکتوبر ہے، رات کے نو بج چکے ہیں۔ ابھی تک توقیر صادق سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس، 10 اکتوبر کے ’ایکسپریس ٹریبیون‘ میں پہلے صفحے پر یہ سٹوری شائع ہوئی کہ انھوں نے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقو ق سے داد خواہی چاہی ہے اور عدالت اور حکومت دونوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کے انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ ملک سے باہر ہیں۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے!

یہ عدالتیں، یہ نیب، یہ ایف- آئی- اے، یہ ایف- سی، یہ پولیس، کس لیے ہیں۔ ان کے ساتھ یہی سلوک کرنا ہے، ان کا مضحکہ اڑانا ہے، اور انھیں صرف عام شہریوں کی زندگی خراب کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے تو بند کیجیے یہ سب ڈرامے! بند کیجیے یہ سپریم کورٹ، یہ ہائی کورٹس! بند کیجیے یہ تحقیقا تی ادارے! بند کیجیے یہ پولیس کے محکمے! جرأت کیجیے اور پاکستان میں شہنشاہیت کے قیام، بلکہ بحالی کا اعلان کیجیے! مملکتِ اشرافیہ پاکستان ، آپ کو مبارک ہو!

[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 13 کو اکتوبر کو شائع ہوئی۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں