جمعہ، 6 ستمبر، 2013

برج نارائن چکبست کا ایک شعر

برج نارائن چکبست (1926-1882) کا ایک شعر زبان زدِ عام رہا ہے:

زندگی کیا ہے عنا صر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا

اسے برِ صغیر میں ابھرنے والے ” ترقی پسند عہد“ کا نمائندہ شعر بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس شعر کے عقب میں جو تصورات اور اقدار کارفرما ہیں، ان کا اظہار شبلی نعمانی (1914-1857) نے یوں کیا ہے:

”مادئیین کا خیال ہے کہ روح کوئی جداگانہ چیز نہیں بلکہ جس طرح چند دواؤں کی ترکیب دینے سے ایک مزاج خاص پیدا ہو جاتا ہے یا تاروں کی خاص ترکیب سے خاص خاص راگ پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح عناصر کی خاص طور پر ترکیب پانے سے ایک مزاجِ خاص پیدا ہوجاتا ہے جو ادراک اور تصور کا سبب ہوتا ہے اور اسی کا نام روح ہے ۔“ (ص: 108؛ الغزالی، مطبع شاہجہانی، دہلی، 1923)

یہ شعر ایک خاص نقطۂ نظرکو بیان کرتا ہے ۔ تاہم، سائنس اور فلسفہ دونوں اس اندازِ فکر سے بہت آگے ہیں ۔ اور اسی سوچ کے تحت میرے ذہن میں یہ شعر کچھ یوں تبدیل ہوا:

زندگی کیا ہے عناصر نے بگاڑی ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا بگڑ جا نا خود

اور پھر برٹرینڈ رسل (1970-1872) کا یہ پیرا بھی نظر سے گزرا (”اے فری مینز ورشپ“ - 1902) ۔ اسے انگریزی میں ہی ملاحظہ کیجیے:

“That man is the product of causes which had no prevision of the end they were achieving; that his origin, his growth, his hopes, and fears, his loves and his beliefs, are but the outcome of accidental collocations of atoms; that no fire, no heroism, no intensity of thought and feeling, can preserve an individual life beyond the grave; that all the labours of the ages, all the devotion, all the inspiration, all the noonday brightness of human genius, are destined to extinction in the vast death of the solar system, and that the whole temple of man's achievement must inevitably be buried beneath the debris of a universe in ruins - all these things, if not quite beyond dispute, are yet so nearly certain, that no philosophy which rejects them can hope to stand. Only within the scaffolding of these truths, only on the firm foundation of unyielding despair, can the soul's habitation henceforth be safely built.”

اتنی بڑی اور بے حد و بے حساب کائنات میں”زندگی“ کی حقیقت کیا ہے، اس بارے میں کچھ کہنا شاید ہمیشہ قبل از وقت رہے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں