یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں انسانی تہذیب کی اعلیٰ و ارفع تحصیلات اور اقدار اپنی موت سے ہمکنار ہو چکی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے نرم و نازک پھول پودے صحرا کی شدید گرم آب و ہوا میں جھلس کر مر جاتے ہیں ۔
انھیں میں سے ایک چیز تخیّل ہے ۔ اور اگر واقعی ایسا ہے، جیسا کہ محسوس ہوتا ہے کہ تخیّل کی موت ہو گئی ہے تو پھر آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔ درجِ ذیل تحریر، تخیّل کی موت کا نوحہ تو نہیں، ہاں اس کی تصیل ضرور ہے کہ یہ موت کیسے اور کیوں واقع ہوئی:
تخیّل کی موت
میں دیو جانس کلبی تو نہیں ۔ یہ اسی کا ہیا ؤ تھا کہ دن دہاڑے، جلتا دیا ہاتھ میں لیے انسان کی تلاش کرتا تھا ۔ اسے انسان کا حسب نسب معلوم تھا ۔ وہ انسان کو اس کے چہرے مہرے سے پہچان سکتا تھا ۔ اور اس نے خود ایک انسان سوچا تھا کہ انسان کیا ہوتا ہے ۔ وہ کہتا تھا کہ انسان، پیدا ہوا ہوایا، انسان نہیں ۔ اسے انسان بننا پڑتا ہے ۔ اور اسے وہ انسان کہیں نہ ملا، جس نے پیدائش کے بعد، خود کو، خود پیدا کیا ہو، بنایا ہو، گھڑا ہو، تراشا ہو، اور نقش نگاری سے مزین کیا ہو ۔ خود کو انسان میں ڈھالا ہو ۔ اور ایک نئے انسان کی تعریف وضع کی ہو اور خود کو اس انسان کی تعریف پر پورا اتروایا ہو۔
دیو جانس نے انسان کا جو تصور وضع کیا، اس پر پورا اترنے کی پوری سعی بھی کی ۔ اس کی اس کوشش کے سبب ہی اسے کلبی کہا جاتا ہے، ایک منفی تلازم کے ساتھ ۔ جبکہ دیکھا جائے تو یہ اس کا اپنا اندازتھا ۔ کسی اور کا انداز کچھ اور ہو گا ۔ سب کا انداز مختلف ہو گا ۔
ہاں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا انداز نرالا تھا ۔ بے حد سادہ زندگی ۔ ایک چادر اوڑھنے لپیٹنے کے لیے، اور ایک مٹی کا پیالا پانی کے لیے ۔ جب کہیں اس نے دیکھا کہ اوک سے پانی پیا جا سکتا ہے، تو اس نے اس پیالے کو توڑ، خود کو اور ہلکا کر لیا ۔ اس نے ایک گھڑے نما برتن میں زندگی گزاری، جسے قدیم زمانے میں تکفین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔
یونہی ایک مرتبہ جب وہ لیٹا دھوپ سینک رہا تھا، تو وہاں سے ”سکندر ِ اعظم “ کا گزر ہوا ۔ اسے بتایا گیا یہی دیو جانس ہے ۔ سکندر اس کے پاس چلا آیا ۔ اور شاہانہ انداز میں اس کی کوئی بھی خواہش پوری کرنے کا عندیہ دیا ۔ دیوجانس کا جواب تھا: یہاں سے ہٹو اور دھوپ آنے دو ۔
دیو جانس کے بارے میں ڈاکٹر خالد الماس نے ایک مضمون، ”آشفتہ سر فلسفی، جو ’انسان‘ کی تلاش میں سرگرداں رہا،“ (اردو ڈائجسٹ، نومبر 2007) لکھا ہے، جس میں بیان کی گئی کچھ باتوں سے میں نے بھی استفادہ کیا ہے، اس میں مولاناروم کے ایک شعر کا ذکر بھی ہے، اور اس کا مفہوم دیوجانس کی انسان کی تلاش سے مشابہ ہے ۔ اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ کل شیخ چراغ ہاتھ میں لیے سارے شہر میں گھومتا رہا، اور کہتا رہا کہ میں چوپایوں سے دلبرداشتہ ہو گیا ہوں، اور کسی انسان کی تمنا رکھتا ہوں ۔
یہ وہی بات ہے کہ وہ اعلٰی سے اعلٰی تر درجہ اور معیار کیا ہو سکتا ہے، جو انسان کو حیوان سے بلند کر دیتا ہے ۔ چوپائے سے اٹھ کر دوپایہ ہو جانا، کوئی بڑی بات نہیں ۔ دوپائے سے انسان ہونا، اصل بات ہے ۔
ڈاکٹر خالد نے یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ دیوجانس ایک کتے کی مانند زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتا تھا ۔ اسی پر بس نہیں، وہ کتا کہلوانا بھی پسند کرتا تھا ۔ اور اسے یہی لقب دیا گیا ۔ اس کا کہنا تھا، جتنا میں کسی انسان سے ملتا ہوں، اتنا ہی کتے کے لیے میر ی پسندیدگی بڑھتی جاتی ہے ۔ کورِنتھ میں اس کے مزار پر بھی کتے کا مجسمہ نصب ہے ۔
آخراً، یہ بھی کہ جب بالآخر ایک دن، دیوجانس کی طبیعت میں یہ احساس آخری سطح تک رچ گیا کہ دنیا انتہائی لغو، بے ہودہ، لایعنی، اوٹ پٹانگ اور بیکار شے سے زیادہ کچھ نہیں، تو اس نے سانس نہ لینے کا ارادہ کر لیا ۔ اس نے خود سانس لینا روک لیا ۔ اور مرگیا ۔ لیکن یہ موت نہیں تھی، جس نے اسے موت سے ہمکنار کیا ۔ وہ اپنی زندگی بھی خود تھا، ا ور موت بھی خود ۔
تو دیو جانس کی اس ترجیح میں کیا چیز مضمر ہے ۔ وہ اس سے کیا مطلب پیدا کر نا چاہتا تھا ۔ میری سمجھ یہ ہے کہ وہ اس وقت کے انسانوں کی زندگی پر کتے کی زندگی کو ترجیح دیتا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہنا چاہتا تھا، جیسے کہ سقراط کا قول بھی ہے، جسے وہ اپنے استاد کا درجہ دیتا تھا، کہ وہ زندگی، جسے جانچا پرکھا نہیں گیا، جینے لائق نہیں ۔ یعنی ایسی زندگی سے کتے کی زندگی بہتر ہے، جس میں جانچ پرکھ کا کوئی ذرہ ملوث نہیں ۔ کے، ایل، سہگل کی گائی غزل بھی یہی کچھ کہتی ہے: بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں / دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں ۔
اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زندگی جس شکل میں موجود ہے، یا جس صور ت میں اس نے وجود پایا، دیو جانس اس سے نا مطمئن تھا ۔ وہ زندگی کو کسی اور انداز میں متشکل دیکھنا چاہتا ہو گا ۔
مزید، اس میں یہ مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ انسان وہ ہوتا ہے جو وہ خود سوچ سمجھ کر بنے ۔ یعنی وہ اپنے انتخاب سے کچھ بھی بنے ۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ چونکہ پیدا ہوا انسان، بنا بنایا انسان نہیں، پیدا تو جانور بھی ہوتا ہے، تو کیا وہ بھی انسان کہلائے گا ۔ سو ایسے میں جوچیز انسان کو انسان بناتی ہے، یا بنا سکتی ہے، وہ اس کی انتخاب کی آزادی ہے ۔ اور اس انتخاب کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ چاہے انسان، اپنے انتخاب سے کتا بن جائے، یوں وہ انسان ضرور بن جائے گا ۔
جبکہ صاف بات ہے کہ کتے کو یہ آزادی میسر نہیں کہ وہ اپنی پسند، اپنے انتخاب سے کتے کے علاوہ کچھ اور بنے، یا بن سکے ۔
خود دیوجانس کی موت اس کااپنا انتخاب تھی، آئی ہوئی موت نہیں ۔
تاہم، یہ دیوجانس کی نخوت بھی ہو سکتی ہے کہ وہ انسان کی تلاش کرتا تھا ۔ مراد یہ کہ وہ خود انسانیت کے بلند ترین درجے پر فائز تھا، اور انسان شناس بھی تھا، تبھی تو وہ انسان کی تلاش کا بیڑا اٹھا پایا ۔ اور کیا استہزائیہ انداز تھا کہ سورج جلے، دیا جلائے، بازار میں انسان ڈھونڈتا پھر تا تھا ۔ کہنا یہ چاہتا تھا کہ انسان نا پید ہے ۔
اس کے انداز میں کہیں یہ چیز بھی ڈھکی تھی کہ انسان کی جو تعریف اس نے گھڑی ہے، وہی حرف ِ آخر ہے ۔ یوں، کیا وہ دوسروں کی نہ جانچی، نہ پرکھی گئی، اورنہ جینے لائق زندگی کے انتخاب کی آزادی کو رگید تو نہیں رہا تھا! وہ اس زمانے کے انسانوں پر مجسم ”طنز“ تھا!
جس طرح کے انسان، دیوجانس انسانوں کوبنتا دیکھنا چاہتا تھا، اس کے پاس ان کا ایک خاکہ موجود تھا ۔ ایسا خاکہ کہ غالبا ً اس خاکے سا کوئی انسان کہیں نہ ہو، کہیںنہ ملے ۔ یہ اس کی بڑائی بھی تھی، عظمت بھی ۔ تکبر بھی! اوروہ خود اس خاکے کی عملی تصویر بھی بنا ۔
خیر اگر آج زندہ ہوتا تو سادہ زندگی کے تصور میں ایک لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کے کنیکشن کو ضرور شامل کرتا!
دیوجانس کے وقت سے اب تک، انسان نے بس اتنی ہی ترقی کی ہے ۔
میں تو دیوجانس کی خاک بھی نہیں ۔ لیکن اس سے اختلا ف ضرور کرتا ہو ں کہ انسانوں کو ویسا انسان بننے دیا جائے، جیسا وہ بننا پسند کریں ۔ یعنی انھیں آزادی ہو کہ جیسا انسان وہ بننا چاہیں، بن جائیں ۔ جیسے دیو جانس کو آزادی تھی ۔ تب ہی تو وہ دیوجانس کلبی بنا ۔
ہاں، دیو جانس کی طرح، ہر کسی کو ان پر حکم لگانے کی آزادی بھی ہو کہ وہ کیسے انسان ہیں ۔ جیسے اس نے اس وقت کے انسانو ں کو جانچا اور پرکھا تھا، اور پھر مستردکر دیا تھا ۔ پھراس کے ساتھ یہ بھی کہ علم و معلومات پر کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔ اور انسا ن پر بھی ۔ یہ چیزیں انسا ن کی آزادی کی شرائط میں سے ہیں ۔
ہزار رنگ پھول کھلنے میں ہی چمن کی بہار ہے ۔ ہر زمین میں ایک ہی پودا نہیں لگتا ۔ اور انسان ایسا کوئی پودا نہیں کہ تیار کیے گئے گملوں میں سما جائے، اور پھلے پھولے ۔
شعر: ایسا ویسا نہ سمجھنا سب کو / اپنے جیسا نہ سمجھنا سب کو ۔ (خ۔ا)
اس تمہید کا حاصل یہ ہے کہ میری نظر میں ایک چیز جو انسا ن کی تعریف میں ایک لازمے کی طرح گندھی ہوئی ہے، وہ ہے تخیّل ۔ سو، مجھے انسان، یا پورے انسان کی تلاش نہیں، جیسے دیو جانس کو تھی ۔ مجھے صرف اس تخیّل کی تلاش ہے، دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ، انسان جس سے عبارت ہے ۔ اور میں ایک ایسی سرزمین پر زندہ ہوں، جہاں سے تخیّل، کافور ہو گیا ہے ۔
شاید ڈر کر کہیں بھا گ گیا ہے!
ابھی کچھ ماہ کی بات ہے، ادیب اور مفکر انتظار حسین نے ”دلیل “کی موت کی خبر سنائی تھی ۔ یکم جنوری، 2011 کو روزنامہ ”ایکسپریس“میں ان کا کالم بعنوان ”دلیل کی موت، نعرے کابول بالا“ شائع ہوا ۔ اسے خبر نہیں، خبر کی باز تصدیق کہنا بہتر ہو گا ۔
اس میں انھوں نے بتایا کہ ’کہاں سے چل کر ہم کہاں پہنچے ۔‘ ایک زمانہ تھا جب مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں دلیل کا بول بالا تھا ۔ ”افسوس کہ اس زمانے سے ہمارے زمانے تک آتے آتے ایک بڑا واقعہ گزر گیا ۔ دلیل کی شہادت ہوگئی ۔ اس کے ساتھ ہی مکالمہ کی روایت کی موت واقع ہو گئی ۔ انسانی عقل سے اعتبار اٹھ گیا - - - “
آخرمیں وہ لکھتے ہیں: ”تو اب ہمارے بیچ سے دلیل غائب ہو چکی ہے ۔“
یقینا پاکستان میں بہتوں نے دلیل کی موت کو ”ذلیل“ کی موت کہہ کر بھی یاد کیا ہو گا!
انتظار حسین کی خبر اور سند کافی و وافی ہے، نقل اور تصدیق دونوں کے لیے ۔ دلیل اور عقل دونوں کا ارتحال ہو چکا ۔ یہ تو بہت بڑی چیزیں ہیں ۔ انسان کی تشکیل اور انسان کی تعریف ان دونوں کے بغیر نامکمل بھی ہے اور ناکافی بھی ۔ میں دلیل اور عقل کی بات نہیں کررہا ۔ میں تو بہت خام اور بہت کچی بات کر رہا ہوں ۔ وہ چیز جو قدیمی انسان نما انسان میں بھی موجود تھی، میں تو اس کی بات کر رہا ہوں ۔ تخیّل کی بات ۔ عقل اور دلیل کے معاملات تو بہت بعد میں آتے ہیں ۔ بلکہ کیا خبر تخیّل نے ہی ان کے لیے زمین ہموار کی ہو!
تو ذلیل دلیل کی موت کے بعد، اگلی خبر یا اگلی بڑی خبر یہ ہے کہ تخیّل بھی ہمارے بیچ سے غائب ہو چکا ہے ۔ مر چکا ہے ۔ کہیں دفنا دیا گیا ہے ۔
اخبارات، رسائل، ٹی، وی چینلز، فلمیں، ہر میڈیم، جس میں انسانی زندگی اظہار پاتی ہے، تخیّل سے عاری ہو چکا ہے ۔ ادب، شاعری، وغیرہ، میں، کہیں اس کے کھنڈرات مل جائیں تو مل جائیں، ورنہ وہاں بھی اس نے جگالی کی صورت اختیار کرلی ہے ۔ جوکچھ پہلے لوگ سوچ اورخیال کر گئے، اسے باربار بنا بگاڑ کر سامنے لایا جارہا ہے ۔ بیچا جا رہا ہے ۔ نام بنایا اور چمکایا جا رہا ہے ۔
یہ بھی تو اس بات کا ثبوت ہے کہ تخیّل نایاب شے ہو گیا ۔ آج کے لوگ تخیّل سے تہی دامن ہو گئے ۔ وحشت ہوتی ہے، تخیّل کے بغیر انسانی زندگی کیسے ہو سکتی ہے، کیسی ہو سکتی ہے ۔ تخیّل سے محروم لوگ کیسے ہو سکتے ہیں ۔ سب کچھ سامنے ہے: تخیّل کے بغیر زندگی بھی، اور تخیّل سے محروم لو گ بھی ۔
اسی بات کو سازشی اندازمیں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے ۔ اور بہت سے دانشور اور مفکر فوراً سے پیشتر کہنا بھی چاہیں گے کہ لوگوں کو تخیّل سے محرو م کردیا گیا ہے! بہت بڑی سازش ہوئی ہے ۔ ان لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ جیسے تخیّل کا غائب ہو جانا، کسی سازش کا نتیجہ ہے، اسی طرح اس کی واپسی بھی ایک سوچی سمجھی سازش (یعنی منصوبہ بندی) کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے ۔ سب کچھ سازش ہے، منصوبہ بندی ہے ۔
یا یوں کہہ لیں کہ تخیّل کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے ۔ یعنی تخیّل ایک ایسی چیز ہے، جسے انسانوں کے اندر سے بیدخل کیا جا سکتا ہے، اور ان میں دوبارہ داخل بھی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ نظریہ بہت سی شکلوں میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن اس کا خا صہ یہ ہے کہ یہ انسانوں کوایک ایسی مخلوق گردانتا ہے، جسے جیسا چاہیں، اس انداز سے بنایا، یا بگاڑا جا سکتا ہے ۔ اس مخلوق کو جس شکل میں چاہیں ڈھال سکتے ہیں ۔ صرف سانچے بنانے کی ضرورت ہے ۔ اورپھر انسانوں کو ان سانچوں میں ڈالنے اور نکالنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اس طرح کے انسان بن جائیں، جس طرح اینٹیں ہوتی ہیں، جن کو جوڑ بٹھا کر دیواریں اور محل تعمیر کیے جا سکتے ہیں ۔
اور یہ سمجھ دار، دانا، دانشور، عقل مند لوگ ہیں، یا حکمران لوگ ہیں، یا اشراف ہیں، جن کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ طے کریں، انسانوں کو کیسا انسان بنا نا ہے ۔ مثلا ً، تخیّل کا حامل، یا تخیّل سے عاری ۔ تو سازش پسندوں کے مطابق انسانوں کو تخیّل سے عاری کر دیا گیا ہے ۔
یہاں سے آگے بڑھیں تو ان سازش پسندوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے ۔ ایک طرح کے سازش پسند، انسانوں کو اپنی پسند کا انسان بنانا چاہتے ہیں، اِنھیں دایاں بازو کہہ لیجیے ۔ دوسری طرح کے سازش پسند، انسانوں کو دوسری طرح کا انسان بنانے پر تلے ہیں ۔ اِنھیں بایا ں بازو کہہ لیجیے ۔
یہاں ان بازؤوں کی لمبائی، چوڑائی، یعنی ان کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں، بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ دونوں بازو، انسانوں کو آزادی نہیں دینا نہیں چاہتے کہ وہ کیسے انسان بننا چاہتے ہیں ۔ جیسا انسان دائیں بازو والے انھیں بنانا چاہتے ہیں ۔ یا جیسا انسان بائیں بازو والے انھیں بنانا چاہتے ہیں ۔ یا جیسا دیوجانس چاہتا تھا ۔ یا اس سے بڑھ کر یہ کہ جیسے انسان، وہ خودبننا چاہتے ہیں ۔ یا جیسے دیو جانس، دیو جانس جیسا انسان بنا ۔
میں اسے کوئی سازش نہیں کہتا، لیکن میری رائے یہ ہے کہ اسی بازوئی تسلط، اور اسی طرح کے متعدد نظریات کے حاملوں کے دباؤ نے تخیّل کے بیج کو پنپنے نہیں دیا ۔ جہاں جہاں اور جب جب تخیّل کی کونپل نے سر اٹھایا، اسے کاٹ ڈالا گیا، اور پامال ہونا پڑا ۔
اگرچہ تخیّل خود آزادی ہوتا ہے، اور تخیّل کی ضمانت بھی؛ تاہم، بازوئی تسلط کے خوف نے تخیّل کو ماند کر دیا ہے ۔ اسے موت کی، یا موت جیسی نیند سلا دیا ہے ۔ کافی سال پہلے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ”پاپیلوں“ نامی فلم میں ایک جملہ ہے، جس کا مفہو م کچھ یوں ہے: ’قید ِتنہائی میں، جو کچھ آپ سوچتے ہیں، وہ حقیقت بن جاتا ہے ۔‘
لیکن، آزادی کی یہ زندگی گزارنے کے لیے قید ِ تنہائی کی سزا پانا ضروری ہے ۔ اوریہاں پاکستان میں چونکہ تخیّل کو کھلا چھوڑنا بھی موت کو دعوت دینے جیسا ہو گیا ہے (جبکہ تخیّل تو ایک بگٹٹ گھوڑا ہے!) ۔ جیسے دلیل دینا قتل کا بلاوا بن گیا ہے ۔ اور یقینا سب کے سب لوگ، خود کو قید تنہائی کی سزا دینے سے رہے ۔ انھوں نے اس سودے کو غنیمت جانا ہے کہ قید ِ تنہائی کے بجائے بڑے جیل میں سب کے ساتھ مل کر رہیں، اور اس کے بدلے میں، تخیّل کا سامان باندھ کر جیل کے حکام کے حوالے کردیں ۔
سو، غالبا ً سب نے یہ ٹھان لی ہے کہ تخیّل سے کام لینے کی کوئی ضرورت نہیں؛ تخیّل کی کوئی ضرورت نہیں ۔ بنے بنائے، ڈھلے ڈھلائے تخیّل کے نمونے موجود ہیں، ان کی جگا لی کریں، اور دنیا اور عاقبت، دونوں میں فلاح پائیں ۔ ہر کہیں، ہر شعبے میں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ بات اسی طرح بنی ہوئی لگ رہی ہے ۔
اوراس سے بھی بڑی بات یہ کہ سب کے سب یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ سودا برا نہیں ۔ سوائے ان تھوڑے سے سرپھروں کے جو زندگی کو حسن اور خوبصورتی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اور زندگی کو ایک لطیف احساس کی طرح جانتے ہیں، اور اسے اس احساس سے معمور بھی پاتے ہیں ۔ اور تخیّل کی تراشی کسی دنیا میں دیوجانس کی طرح کی زندگی گزارنے کی جرأت بھی رکھتے ہیں ۔ اور اس موجود دنیا پر تخیّل کی دنیا کو متقدم سمجھتے ہیں، اور اس ”لایعنی“ دنیا کو تخیّل کے مطابق بنتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔
یا یہ کہ زندگی کو تخیّل سمجھتے ہیں ۔ یا زندگی کو تخیّل سے بھرپور حقیقت مانتے ہیں ۔ ایسا تخیّل جو کتنی ہی صورتوں میں اظہار پاتا ہے ۔ شاعری، افسانہ، مصوری، موسیقی، گائیکی، وغیرہ، وغیرہ ۔
جیسا کہ کسی کا کہنا تھا کہ اگر گالی نہ ہوتی تو میں گھٹ کے مرجاتا ۔ اسی طرح، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر تخیّل نہ ہو تو انسان گھٹ کے رہ جائے ۔ اور تخیّل کے بغیر، لاش بن جائے ۔ زندہ لاش؛ فلموں والی زندہ لاش ۔
تخیّل کے بغیر انسان، ایک ایسا انسان بن جاتا ہے، بالکل اس جانور کی طرح کا، جوجو کھاتا ہے، وہی ہگ دیتا ہے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں نکال سکتا ۔ جو بھی کھاتا ہے، اسے گو بنا کر خارج کر دیتا ہے ۔ انسان بھی، بالخصوص پاکستان کا انسان بھی ایسا ہی جانور بن گیا ہے ۔ گاربیج اِن، گاربیج آؤٹ ۔ جو اندر ڈالیں، وہی باہر نکلے گا ۔ بلکہ اچھا بھی اندر ڈالیں، تو وہ بھی غلیظ بن کر باہر آئے گا ۔
پاکستان کا انسان عجیب انسان بن گیا ہے ۔ یہ بد صورتی دیکھتاہے؛ بد صورتی کھاتا ہے؛ بد صورتی پیتا ہے؛ اور اگر کہیں کوئی لقمہ خوبصورتی کا، دیکھنے، کھانے اور پینے کو مل جائے، تو اسے بھی بدصورتی بنا کر باہر نکالتا ہے ۔ پاکستا ن کا انسان بھی ایک عجیب سانچہ بن گیاہے، ایک فرما، اس میں کچھ بھی ڈلے، باہر وہی بد صورتی نکلے گی ۔ یوں لگتا ہے اس کے اندر تخیّل کا کارخانہ جیسے صدیوں سے بند پڑا ہے ۔
اس کی جو کچھ وجوہ اوپر بیان ہوئیں، ان کے علاوہ بھی کچھ اور اسباب ہیں ۔ جیسے کے پاکستان میں رائج ثقافت کا نظریہ؛ اور علم کا نظریہ ۔ ان نظریات نے بھی تخیّل کا سد ِ باب کرنے، اور اس کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔
ثقافت کو پاکستان میں نچلے طبقوں کے رہن سہن کا نمونہ سمجھا جاتا ہے ۔ اور اسے ”ڈیکوریشن پیس“ کی صورت میں اشرافیہ کے گھروں میںپوجا جاتا ہے ۔ یا ثقافتی ورثے کے عجائب گھروں کی زینت بنا کر محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ اسے بیچنے کے لیے نمائشوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے، اور ان میں ثقافت کے مختلف مظاہر کا مظاہرہ کرنے والے زندہ نمونے پرفارمینس دیتے دکھائے جاتے ہیں ۔ اس ثقافت کو محفوظ کرنا بہت بڑے شعبے اور فن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ نچلے طبقات پر بڑا احسان کرنے کے برابر کام گردانا جاتا ہے ۔ اور شاید کہیں یہ خواہش بھی کارفرما رہتی ہے کہ یہ طبقات اسی انداز پر جیتے رہیں؛ ان کا یہ انداز تبدیل نہ ہو ۔
جیسا کہ علم کی بنیاد دلیل پر ہے، اور پاکستان میں دلیل کی موت تو کب کی ہوچکی ۔ انتظارحسین نے تو اس کی موت در موت کا نوحہ لکھا تھا ۔ اور جب دلیل مرچکی، تو علم کہاں سے آئے گا ۔ بہ ایں سبب، پاکستان کی زمین، علم کے لیے شور زمین بنی ہوئی ہے ۔
اسی طرح، پاکستان میں ثقافت بھی پروان نہیں چڑھ سکی ۔ ہوا کہ کہ یہاں پاکستان میں ثقافت کا یہ دوسرا نظریہ جڑ نہیں پکڑ سکا کہ ثقافت کی بنیاد تخیّل پرہے، آزاد تخیّل پر ۔ ماضی، یا ریاست، یا حکومت، یا اشرافیہ پر نہیں ۔ اور یہ کہ تخیّل انتہائی انفرادی اور شخصی چیز ہے ۔ اوریہ بھی کہ تخیّل کی بنیاد فرد ہے ۔ آزاد فرد ۔ اندر سے آزاد فرد ۔
میں اندر سے آزاد فرد کی بات اس لیے کر رہاہوں کہ باہر کی آزادی کو تو قوانین،اور قواعد وضوابط کی مدد سے یقینی بنایا جا سکتا ہے؛ لیکن اندر کی آزادی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ ہاں، باہر کی آزادی، وہ کم سے کم ضمانت ہے اندر کی آزادی کی، جسے ممکن کردکھا نا ممکن ہے ۔ اندر کی آزادی، پھر وہی انفرادی اور شخصی معاملہ ہے ۔ یعنی انفرادی انتخاب اور انفرادی طرز ِ حیات کا معاملہ ہے ۔
جیسے کنوئیں کا مینڈک بننے کے لیے کنوئیں کی موجودگی ضروری نہیں؛ اسی طرح، کنوئیں سے باہر آ جانے کا مطلب، آزاد ہوجانا نہیں ۔ کنوئیں میں رہ کر بھی آزاد رہا جا سکتا ہے ۔ کہنا میں یہ چاہ رہا ہوں کہ جبر کے تحت بھی تخیّل سرگرم رہ سکتا ہے، اور آزادی میں بھی ۔ اور شہادت تو یہ بھی ہے کہ آزادی کے تحت ، تخیّل سست پڑجاتا ہے ۔
لیکن پاکستان کے ضمن میں یہ ساری باتیں بیکار معلوم ہوتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے روشندان کو پنبہ، ڈکّا، لگا کر بند کر دیا گیا ہے ۔ غلط ہو گیا ۔ بند نہیں کیا گیا ۔ خود بند کر لیا گیا ہے اس روشندان کو ۔ اور یہ روشندان باہر سے بھی بند نہیں ہوا ۔ بلکہ اسے اندر سے بند کیا گیا ہے ۔ اوراندر سے کسی دوسرے نے بند نہیں کیا ۔ بلکہ خود اندر والے نے اس روشندان کو اندر سے بند کر لیا ہے ۔ جیسے کنوئیں کا مینڈک خودکو کنوئیں کے اندر بند کرنے کے ساتھ ساتھ کنوئیں کوبھی اندر سے بند کر لے ۔
اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہوا، تازہ ہوا، اور دھوپ، اورچاندنی ،اور بارش، اورایسی ہی لاتعداد نعمتیں جو ہمیں باہر کی دنیا سے ملتی ہیں، یا کارل پاپر کے مطابق، جنھیں ہم باہر کی دنیا سے کشید کرتے ہیں، یہ سب چیزیں، اور جو کچھ ان کے علاوہ بھی موجود ہے باہر کی دنیا میں، سب کچھ ہمارے اندر پہلے ہی موجود ہے ۔ وافر موجود ہے ۔ اور ہمیں کسی چیز کی کچھ ضرورت نہیں ۔ ہم کامل اور اکمل اندازمیں خود کفیل ہیں ۔
سو، ہم ایک گنبد ِ بے در میں قید ہیں ۔ اورالمیہ یہ ہے کہ یہ گنبد ِ بے در کوئی طبعی ، ٹھوس عمارت نہیں ۔ خود ہمارے تصورات نے اسے تعمیر کیا ہے ۔ اس کی اینٹ گارا خود ہمارے تصورات ہیں ۔ تو اب خواہ قید ِ تنہائی ہو، یا یہ گنبد ِ بے در، جب ہم نے تصورات کا ایک قید خانہ بنا کر خود کواس میں قید کرلیا ہے، تو پھر ہم تخیّل میں بھی آزاد نہیں، اور ہمارا تخیّل بھی آزاد نہیں ۔ ہمارا تخیّل منجمد ہو گیا ہے ۔ جم گیا ہے ۔ برف بن گیا ہے ۔ ہم نے یہ تصور کر لیا ہے، ہمیں تخیّل کی کوئی ضرورت نہیں ۔
اور یہ سب کچھ ہم نے خود کیا ہے، کسی اور نے نہیں ۔ بلکہ کوئی اور تو یہ کام کر ہی نہیں سکتا ۔ کوئی اور جسم و جاں کو توقید کر سکتا ہے، لیکن تخیّل کو نہیں ۔ یا ہمارے تصورات یہ کام کر سکتے ہیں ۔ اور انھوں نے یہ کام کر دکھایا ہے ۔
نظم : شہروں شہروں لوگوں کی بہتی ہوئی بھیڑ / سب کے سروں پر تاریکی کے گٹھڑ اور / ہاتھوں میں بارود کے پتھر / ایسے میں جگنو کی موت یقینی ہے! (خ ۔ا)
تو تخیّل کی موت کا ذمے دار کوئی اور نہیں، ہم خود ہیں ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ہم اس جمے ہوئے، جامد، برف تخیّل کو پگھلانا بھی نہیں چاہتے ۔ گو کہ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، تخیّل کی تجدید، یا اس کے احیا کے لیے اولین شرط فرد کی آزادی ہے، لیکن جب فرد ہی آزاد نہ ہونا چاہے تو کوئی حکیم، ڈاکٹر کچھ نہیں کر سکتا ۔
ہاں، لیکن کم ازکم یہ تو ہو کہ جو تخیّل کو ترک نہیں کرنا چاہتے، انھیں تو آزادی ملے کہ وہ تخیّل سے معمور زندگی جی سکیں ۔ یعنی خارجی شرط تو پوری کی جائے، تا کہ پھر جو چاہے، وہ تخیّل کو ترک کرے، جو چاہے، نہ کرے ۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ تخیّل کو ترک کرنے کی بندش، جو پاکستان میںزندگی کا چلن، زندگی کا قانون بنا دی گئی ہے، وہ ختم ہو ۔
سو اصل میں تخیّل کو کسی نے قتل نہیں کیا ۔ اسے کسی نے موت کی نیند نہیں سلایا ۔ خود فرد نے تخیّل کو ترک کر دیا ہے، اور یہی تخیّل کی اصل موت ہے!
مگر کیا ہم اپنے تخیّل کو اپنے تصورات کی قید سے آزاد کرنے کے لیے تیار ہیں! اس سوال کا مثبت جواب ہی تخیّل کو دوبارہ زندگی دے سکتا ہے ۔
[یہ تحریر 9، اپریل 2012 کو مکمل ہوئی ۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں