جمعہ، 6 ستمبر، 2013

درمیانی راستے کا قانون

بے شمار مقدمات عدالتوں میں لائے جاتے ہیں ۔ وقت لگتا ہے، تاخیر ہوتی ہے، آخرِ کار فیصلہ ہو ہی جاتا ہے ۔ لیکن پاکستان عجیب و غریب ملک ہے؛ یہاں کسی مقدمے کا فیصلہ ہو جائے تو ایک اور مقدمہ شروع ہو جاتا ہے ۔ میرا اشارہ این – آر - او کے مقدمے کی طرف بھی ہے، پر اس کی طرف میں بعد میں آؤں گا ۔ ابھی تو ذرا چھوٹے چھوٹے ادنیٰ حقیر ہم جیسے شہریوں کے بے ضرر کیسوں اور پھر چھوٹی موٹی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی بات ہو رہی ہے ۔ اس میں ہائی کورٹ کو بھی شامل کر لیں ۔

ہم بے چارے عام شہری عدالت جاتے ڈرتے ہیں، بلکہ تھانے کچہری کی طرف منہ کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں ۔ بہت سی ناانصافیاں اور مظالم چپ کرکے سہہ جاتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ تھانے، کچہری، اورعدالت جانے کا نتیجہ کچھ اس صورت میں سامنے آتا ہے کہ ہم جس ناانصافی کا ازالہ اور تلافی چاہتے ہیں، وہ انڈے بچے دینا شروع کر دیتی ہے (یہ اندازِ اظہار ایک دوست سے مستعار ہے) ۔ ایک سادہ ناانصافی، مرکب ناانصافی بن جاتی ہے ۔ انصاف کی پیاز چھلنے لگے تو ناانصافی کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں، اور آخر میں برآمد کچھ نہیں ہوتا ۔ اگر ناانصافی کی شدت زیادہ ہے، یا ہم میں ناانصافی سہنے کا مادہ بہت کم ہے، تو ہم تھانے، کچہری، یا عدالت جا پہنچتے ہیں ۔ اور اگر ہم عدالت کی غلام گردشوں سے زندہ سلامت گزرجاتے ہیں، اور ہمارے مقدمے کا فیصلہ ہو جاتا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا معرکہ مارا ہے، تو کچھ ہی دیرمیں یہ نشہ ہوا ہو جاتا ہے ۔ اب نیا مقدمہ آغاز پاتا ہے ۔ عدالت کے حکم پر عمل درآمد کیسے ہو ۔ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو / میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا!

ہم عام شہری جو ہوئے ۔ کوئی صدر یا وزیرِاعظم تو نہیں ۔ ہم تو صرف ووٹ دیتے ہیں، ہمیں جمہوریت کے تحفظ سے کیا لینا دینا ۔ جبکہ صدر اور وزیرِاعظم، بالخصوص، جمہوریت کے سپاہی ہیں ۔ ایسے اشراف سپاہیوں کو انصاف درکار نہیں ہوتا ۔ ان کے ساتھ کوئی ناانصافی ہو ہی نہیں سکتی ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے مقدمات کا جلد فیصلہ نہیں چاہتے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جتنی تاخیر ہو سکتی ہے، وہ تو ضرور ہو ۔ جب ایسے اشراف، حکمران بن جائیں تو پھر عدالتیں بے چاری بھی محتاط ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ سیاست دان، میڈ یا، جمہوریت کے ٹھیکیدار، اور ہر رنگ کے اشرفیہ نواز یہ ڈھول پیٹنے لگتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے: جیسے کہ صدر یا وزیرِاعظم، یا دوسرے وزیروں، مشیروں، بیورکریٹوں، اور بالعموم سیاست دانوں پر مقدمہ چلایا گیا، یا مقدمہ چلایا گیا اور اس کا فیصلہ بھی کیا گیا توبس جمہوریت دفن ہو جائے گی ۔

این – آر - او کے مقدمے کو بھی ایک ایسا ہی مقدمہ بنا دیا گیا تھا، جس پر جمہوریت کی زندگی اور موت کا انحصار ہو ۔ بہر حال، ہوتے ہوتے فیصلہ بھی ہو گیا ۔ اور فیصلہ ہوتے ہی یہ انکشاف ہوا کہ بھئی یہ فیصلہ تو جمہوریت کے مقدر اور مستقبل دونوں کے لیے زہر کا درجہ رکھتا ہے ۔ لہٰذا، اس فیصلے پر تنقید شروع ہو گئی ۔ فیصلے کی تنقیص اورتردید بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں ۔ قانون اور عدالت کو جو کچھ اچھا برا کہا جاسکتا تھا، کہا گیا ۔ ہوا یہ تھا کہ صدر صاحب اس فیصلے کی زد پر آ گئے تھے ۔ زد کی دھار بہت تیز اور تیکھی تھی ۔ نقصان کوئی ساٹھ ملین امریکی ڈالر کے برابر ہو سکتا تھا، یا اگر اس فیصلے پر من و عن عمل درآمد ہو گیا تو اب بھی ہو سکتا ہے ۔ ایک اور حیرانی کی بات یہ تھی، اور اس پر پیپلز پارٹی کو بحیثیتِ مجموعی قابلِ ستائش ٹھہرانا چاہیے کہ یہ اپنے صدر اور چیئر مین کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی ۔ کوئی اس فیصلے پر عمل درآمد کر کے تو دکھائے ۔

خیر یہ قصہ لڑھکتا چلتا رہا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اس فیصلے پر عمل کرتی ہی نہیں تھی ۔ پھر وہی بات ہوئی کہ فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے عدالتِ عالیہ کو ایک اور بینچ قائم کرنا پڑا ۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ پہلے فیصلہ نہیں ہوتا تھا، اب فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ لیکن یہ تو اشراف کا مقدمہ تھا، جن کے لیے تاخیر خود انصاف ہوتی ہے ۔ سو، اس میں ممکنہ تاخیری حربوں کے بعد جب کچھ باقی نہیں بچا تو ایک وزیرِاعظم (یوسف رضا گیلانی) کو بلی چڑھا دیا گیا ۔ اس قربانی پر بھی پیپلز پارٹی کو شاباش دی جانی چاہیے ۔ میں تو غالب کی طرح، پیپلز پارٹی کی وفاداری بشرطِ استواری کا قائل ہو گیا کہ ساٹھ ملین ڈالروں کے لیے اس نے وزیرِ اعظم کا دان دے دیا ۔ صرف یہی نہیں، پارٹی تو مصر تھی کہ اس کے پاس قربان گاہی وزیرِاعظموں کی کمی نہیں، ایک کیا ہزاروں مل جائیں گے ۔ اس عظیم الشان کارکردگی پر پیپلز پارٹی کو ساٹھ ملین ڈالر کی پارٹی کا نام دینا مناسب ہو گا! جیسے ملین ڈالر کا سوال ہوتا ہے!

جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہوا کہ اس دوران بہت کچھ ہوتا رہا ۔ عدالت کو بے دست وپا کرنے کے لیے ہر سیاسی اور غیر سیاسی ہتھکنڈا استعمال کیا گیا ۔ ہر اخلاقی اور غیر اخلاقی حربہ کام میں لایا گیا ۔ فیصل رضا عابدی کی زباندانی سے لے کر بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی تحصیلات تک، ہر گائے بیل کو اس ہل میں جوت دیا گیا ۔ آئین، قانون، عدلیہ، انھیں ہرانداز سے توڑنے مروڑنے، ان میں تحریف و تخفیف کرنے، انھیں نیچا دکھانے کا کوئی جتن ایسا نہیں تھا، جسے آزمائے بغیر چھوڑا گیا ہو ۔ یہاں تک کہ کچھ انہونیاں بھی ہو کر رہیں ۔ صدر صاحب کے فدائی، بابر اعوان کا اخراج، اور راندۂ درگاہ ، اعتزاز احسن کا اندارج عمل میں آیا ۔ یہ وہی اعتزاز احسن تھے، جنھیں پیپلز پارٹی کی ”آستین کا سانپ“ بتایا جاتا تھا ۔ واقعہ یہ ہے کہ جن دنوں اعتزاز احسن معزول ججوں کی بحالی کے لیے وکلا کے جلوسوں اور ریلیوں کی قیادت، اور اس تاریخ ساز تحریک کی رہمنائی کر رہے تھے، پیپلز پارٹی کے حامی اخبار ”آج کل“ میں ایک کارٹون شائع ہوا تھا، جس میں انھیں پارٹی کی آستین کے سانپ کے طور پر دکھایا گیا تھا ۔

تاہم، اعتزاز احسن کی واپسی، اور ذہانت و فطانت بھی کچھ کام نہ آئی ۔ ان کے ”وزیرِاعظم موکل“ کواپنے عہدۂ جلیلہ سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ گو کہ اس سانحے کے بعد پیپلزپارٹی، اس کے حواری، اورجمہوریت کے ٹھیکیداروں اور نام لیواؤں نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ جمہوریت اب گئی کہ تب گئی ۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ عدالت نے وزیرِاعظم کو برخواست کر دیا ۔ اور کیا اب عدالت یہی کام کرتی رہے گی ۔ کتنے وزیرِاعظم اس طرح عدالت کے ظلم کی بھینٹ چڑھیں گے ۔ یوں تو جمہوریت فنا ہو جائے گی ۔ یہ بہت بڑا دباؤ تھا عدالت پر ۔ تاثر یہ دیا جا رہا تھا کہ جیسے عدالت، جمہوریت دشمن تو ہے ہی، پیپلز پارٹی کی حکومت کی دشمن بھی ہے، اور اب اس عدالت کا کچھ کرنا پڑے گا ۔

اسی افراتفری میں سیاسی دانشوروں اور سیاسی پارٹیوں کے سیاسی کج بحثیوں نے یہ شوشہ چھوڑا اور اس شوشے کو نعرہ بنانے کی بھی پوری سعی کی کہ عدالت کو کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہیے، یا تلاش کرنا پڑے گا ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اتر جائے گی ۔ اصل میں یہ آئین، قانون، اور عدلیہ پر اانتہائی طاقت ور سیاسی وار تھا ۔ ایسے کئی وار اس سے پہلے کیے جا چکے تھے ۔ جیسے کہ جب یہ بحث چھڑوائی گئی تھی کہ صدرِ محترم کو استثنیٰ حاصل ہے؛ یعنی ملک یا ملک سے باہر ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا ۔ یا جیسا کہ جب یہ بے بنیاد بحث چلائی گئی کہ اداروں میں ٹکراؤ ہو رہا ہے، اور یوں کچھ باقی نہیں بچے گا، کہنے سے مراد یہ تھی کہ جمہوریت باقی نہیں بچے گی ۔ یہ سب دلیلیں کھوکھلی اور گمراہ کن تھیں اور ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت میں حکومت کے وکیلوں نے ان دلائل کو کبھی اپنے موکل کے دفاع کا حصہ نہیں بنایا ۔ یہ تمام باتیں صرف لوگوں کو بھٹکانے اور بے وقوف بنانے کے لیے گھڑی گئی تھیں ۔

اب جبکہ دوسرے وزیرِاعظم نے عدالت میں جا کر مطلوبہ مکتوب لکھنے کے ارادے کا اظہار کر دیا ہے، اور عدالت کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ انھوں نے یہ مکتوب لکھنے کا اختیار وزیرِ قانون کو دے دیا ہے، تو پیپلزپارٹی، حکومت کے اتحادی اور حواری، اور سیاسی دانشور اور سیاسی کج بحثیے یہ استدلال کرنے سے باز نہیں آتے کہ عدالت نے قانون میں ایک درمیانی راستہ نکال لیا ہے، اب اداروں کے درمیان ٹکراؤ ختم ہو گیا ہے، اوروزیرِاعظم محفوظ ہو گئے ہیں ۔ جبکہ دیکھا جائے تو خاص طور پر صدرِ مملکت کے حوالے سے جو خط سویز حکام کو لکھا جانا ہے، وہ پہلے لکھے گئے غیر قانونی خط کو کالعدم قرار دیے جانے کے معاملے سے تعلق رکھتا ہے، اور اس میں درمیانی راستہ کیا ہو سکتا تھا ۔ وزیرِاعظم خود یہ خط لکھیں یا وہ کسی اور کو اختیار دے دیں، خط تو لکھا جائے گا ۔ کیا عدالت یہ کہہ سکتی تھی کہ ہاں بھئی آپ ایسا کریں، پچاس برس بعد خط لکھ دیں، یا یہ کہ سویز حکام کی جگہ ناروے کے حکام کو خط لکھ دیں ۔ یا خالی خط بھیج دیں، جس میں کچھ بھی نہ لکھا ہو ۔ یا ایسی ہی کوئی بے تکی بات ۔

دیکھنا یہ ہے کہ اب حکومت خلوصِ دل سے خط لکھتی ہے، یا کوئی اور چال چلتی ہے، اور اپنے پرانے وطیرے پر قائم رہتی ہے ۔ کیونکہ سیاست دانوں اور ایسے سیاست دان حکمرانوں اور ان کی حکومتوں کے پاس ہزار جھوٹ ہوتے ہیں بولنے کے لیے، ہزار بہروپ ہوتے ہیں بدلنے کے لیے ۔ اسی طرح، ان کے پاس ہزاروں درمیانی راستے ہوتے ہیں اپنے موقف سے ہٹنے کے لیے ۔ یہ سیاست دان درمیانی راستوں پر ہی تو چلتے ہیں، بلکہ ان کی کوئی واضح پہچان ہوتی ہی نہیں ۔ یہ ہمیشہ درمیانوں کے درمیان ہی شناخت ہوتے ہیں ۔ کوئی سیاست دان ہے، جس کا کوئی واضح سیاسی فلسفہ ہو، واضح سیاسی حکمتِ عملی ہو، واضح سیاسی ایجینڈا ہو ۔ سب درمیانی راہ چل رہے ہیں، اور درمیانی راستہ چلنے میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ چاہیں تو ”دائیں“ مڑجائیں، اور چاہیں تو ”بائیں“ مڑ جائیں ۔ سو یہ ان بے چاروں کا قصور نہیں ۔ انھیں یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ قانون اور قانونی حکم میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا ۔ درمیانی راستے کا قانون سیاست میں ہو تا ہے ۔ اسی طرح، جمہوریت درمیانی جمہوریت ہو سکتی ہے، بلکہ موجودہ جمہوریت تو ہے ہی ہیجڑا جمہوریت، یہ کچھ ”ڈیلیور“ نہیں کر سکتی! یہ ”بچہ سقہ“ اور خواجہ سراؤں کی جمہوریت ہے!


[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 22 ستمبر کو شائع ہوئی ۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں