جمعہ، 6 ستمبر، 2013

شاہ خرچیاں اور مینڈیٹ کا مطلب

پنجاب میں لیپ ٹاپ کا لنگر بنٹنا ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کی ریس میں، سندھ اور خیبر پختون خواہ کی حکومتیں بھی دیگیں چڑھانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ مگر پنجاب تو پنجاب ہے۔ یہ پھر سبقت لے گیا۔ یہاں اب ایک اور بھنڈارے کی تقسیم کا آغاز ہو گیا ہے۔ جمعرات، 29نومبر کو ”حاکمِ پنجاب،“ میاں شہباز شریف نے ایک نئی مہم، ”ہیلمیٹ فار آل“ کا افتتاح کیا۔ اس دان کے لیے جمعرات کا دن ویسے بھی سعد ہے۔ لاہور میں مال روڈ پر اس مہم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت پورے صوبے میں مستحق نوجوانوں میں ہیلمیٹ کی مفت تقسیم کا پروگرام شروع کررہی ہے۔ اس مہم کے پہلے مرحلے میں 20,000 مفت ہیلمیٹ، میرٹ کی بنیا د پر فراہم کیے جائیں گے۔

اسی پر بس نہیں، اگلے لنگر کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہیلمیٹ کے علاوہ، ”اجالا پروگرام“ کے تحت پنجاب حکومت، سکولوں کے طلبہ وطالبات میں مفت شمسی لیمپ بھی تقسیم کرے گی۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ اس سلسلے میں ایک چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ کمپنی شمسی لیمپ مہیا کرے گی؛ ساتھ ہی ساتھ پنجاب حکومت کو 10,000 شمسی لیمپ، مفت عنایت کرے گی، جن کی لاگت 120 ملین روپے (یعنی 12 کروڑ روپے) بنتی ہے۔ (یہ تفصیلات انگریزی اخبار ”دا نیوز“سے لی گئی ہیں)۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس چینی کمپنی کی کوئی لاٹری نکل آئی ہے، یا قبلائی خان کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یا پھر چین نے امریکہ پر قبضہ کر لیا ہے، اور اس کمپنی نے بھی مالِ غنیمت پر ہاتھ صاف کیا ہے، اور اب اسے لٹانے کے موڈ میں ہے۔

قطع نظر اس سے کہ یہ لنگر اور بھنڈارے آنے والی ” انتخابی قیامت“ کی تیاری ہیں، یا پھر مسلم لیگ (ن) کے شاہانہ طرزِ حکمرانی کا شاخسانہ ( جیسا کہ ایک گذشتہ کالم: ”مسلم لیگ (ن) کا طرزِ حکمرانی،“ میں تفصیل سے بات ہو چکی ہے)؛ اس کالم میں ایک نہایت اہم معاملے سے بحث کرنا مقصود ہے۔ یہ لنگروں اور بھنڈاروں کا ذکر اس کی تمہید سمجھ لیجیے۔ میرا خیال ہے کہ ایک طرف تو اس نوع کے منصوبے” شاہ خرچی“ کے زمرے میں آتے ہیں،ا ور دوسری طرف کسی بھی سیاسی پارٹی کو انتخابات میں شہری، جو مینڈیٹ عطا کرتے ہیں، اس کا مطلب اس قسم کی ”شاہ خرچیاں“ بالکل نہیں ہوتا۔

شہریوں کے مینڈیٹ کا مطلب آئین میں درج ہے۔ اس کا اولین اور صریح مطلب یہ ہے کہ حکومت شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ دوسرے ان کے بنیادی حقوق، جو آئین میں مسلمہ قرار دیے گئے ہیں، ان کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، انصاف کی فراہمی، حکومت کا ایک ناگزیر فریضہ ہے۔ جبکہ فلاحی منصوبے اس فہرست کے کہیں آخر میں جگہ پاتے ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے، پاکستان کی ساری کی ساری حکومتیں، مجموعی طور پر مینڈیٹ کا، جومطلب اخذ کرتی ہیں، وہ شہریوں سے زیادہ ان سیاسی پارٹیوں کے مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔ تاہم، اس کالم میں جو چیز پیشِ نظر ہے، وہ ان فلاحی منصوبوں کی نوعیت ہے۔ مراد یہ کہ ان فلاحی منصوبوں کی نوعیت ایسی ہوتی ہے، جن کا فائدہ صرف اور صرف اس سیاسی پارٹی کو ہوتا ہے، جو مینڈیٹ لے کر حکمران پارٹی بنتی ہے۔

اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی حکومت میں آ کر جو کچھ کرتی ہے، جو پالیسیاں اور منصوبے بناتی اور عمل میں لاتی ہے، ان کا فائدہ یا نقصان اسی کو ہونا چاہیے۔ درست! مگر کوئی بھی پارٹی اقتدارمیں آ کر، جو پالیسیاں یا منصوبے بناتی ہے، یہ دیکھنا بھی ضرور ی ہے کہ ان کی نوعیت کیا ہے۔ اس ضمن میں دو اصول نہایت کارآمد ہیں۔ یہ ایک ایسا پیمانہ مہیا کرتے ہیں، جس کی مدد سے کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی کو، یا اس کی پالیسیوں اور منصوبوں کی کارکردگی کو آسانی سے جانچا جا سکتا ہے۔ اس طریقِ کار میں کوئی سیاسی تعصب جھلکتا محسوس نہیں ہوتا۔

پہلا اصول تو یہ ہے کہ جس پالیسی یا منصوبے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، دیکھا جائے کہ اس کا فائدہ اکثریت کو ہو رہا ہے، یا اقلیت کو۔ اس اصول کے پیچھے یہ فہم کارفرما ہے کہ شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کو اقلیت کے لیے استعمال کرنا، اس پیسے کا غلط استعمال ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تمام شہری ٹیکس دیتے ہیں، اور ان کا پیسہ حکومت کے پاس ایک امانت ہوتا ہے، اور جہاں اور جب بھی اس پیسے کو کام میں لایا جائے، ضروری ہے کہ اس کا ہدف تھوڑے سے لوگ نہیں، بلکہ اکثریت ہو۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے مجموعی طور پر جتنے منصوبوں پر عمل درآمد کیا، ان میں سے زیادہ کی تعداد ایسی ہے، جن کا ہدف، ہمیشہ ایک اقلیت تھی، اور ہے۔

اس وقت پنجاب کی آبادی نو کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہوگی۔ سستی روٹی ان میں کتنے لوگوں تک پہنچی۔ یا دانش سکولوں کا فائدہ کتنے بچوں کو ہوا، یا ہوگا۔ اسی طرح، لیپ ٹاپ کتنے طلبہ وطالبات تک پہنچ جائیں گے۔ ہیلمیٹ، کتنے نوجوانوں کے سرڈھانپیں گے۔ پھر، شمسی لیمپ، کتنے طلبہ وطالبات کو روشنی مہیا کریں گے۔ چند ہزار، یا چلیں چند لاکھ ۔ اس سے زیادہ تعداد تو کسی صورت میں بھی فیضیاب نہیں ہو سکتی۔ یہاں بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کی مثال دی جا سکتی ہے کہ اس کا دائرہ تو بہت وسیع ہے۔ شاید لاکھوں سے بھی زیادہ، شاید کروڑوں میں۔ مگر یہ خلطِ مبحث ہو گا۔ تعداد کو بڑھا کر سو فی صد تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ وفاقی حکومت تمام شہریوں کو انکم سپورٹ، اورپنجاب حکومت کل آبادی کو ان سکیموں کے فوائد پہنچانے لگے۔ مگر ایسا کبھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ شہریوں کی جیبوں میں سے نہ اتنا ٹیکس کشید کیا جا سکتا ہے، نہ حکومتی مشینری اتنی ہمہ گیر ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ اگر حکومت نے تمام شہریوں سے لے کر تمام شہریوں کو دینا ہے تو شہری اپنے پیسے کا استعمال خود کیوں نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اصول اکثریت کی بات کرتا ہے۔

مزید یہ کہ اس اصول میں اکثریت کو فائدہ پہنچانے کی بات کی گئی ہے، اکثریت کو مختلف اشیا تقسیم کرنے کی نہیں۔ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ جیسے مسلم لیگ (ن) کے دور میں موٹر وے کی تعمیر و تشکیل ہوئی۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا اور ہے، جس کا فائدہ اکثریت کو پہنچ رہا ہے۔ اس کا ہدف کسی بھی طرح اقلیت نہیں کہی جا سکتی۔ پھر یہ بھی کہ شہری اس کا فائدہ طویل عرصے تک اٹھا سکتے ہیں۔ یوں یہ منصوبہ شہریوں کی زندگی کی کوالیٹی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح، مسلم لیگ (ق) کے دور میں پنجاب میں ”ریسکیو 1122“ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ بھی ایک ایسا منصوبہ ہے، جس سے ہر شہری کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، اور یہ منصوبہ بہت عرصے تک فائدہ بخش رہ سکتا ہے۔ یوں کہ ہر فرد کو کوئی نہ کوئی ہنگامی صورت پیش آ سکتی ہے، اور وہ اس منصوبے سے متمتع ہو سکتا ہے۔ اس منصوبے کو بھی شہریوں کی زندگی میں بہتری لانے کے حوالے سے نہایت موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسرا اصول خود پہلے اصول سے جڑا ہوا ہے۔ مراد یہ کہ فائدہ اکثریت کو ہو، اور پھر طویل عرصے تک کے لیے ہو۔ جیسے انکم سپورٹ سکیم کا معاملہ ہے: ہزار دوہزار روپے وقتی ضروریات تو پوری کر دیں گے، ان سے کبھی کسی گھرانے کی زندگی میں طویل عرصے کے لیے بہتری نہیں آ سکتی۔ اصلاً، دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی پالیسی یا منصوبے کے نتائج کو طویل عرصے کے سیاق وسباق میں جانچا جانا چاہیے۔ معاشی پالیسیوں کے اثرات دوچار برس میں سامنے نہیں آتے، اس میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ اس کی مثال وہی موٹر وے اور ریسکیو 1122 ہیں۔ جبکہ سیاسی پارٹیوں کی ناسمجھ حکومتیں، فوری نتائج دکھا کر اپنے اقتدار کو یقینی بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ ایسے تمام منصوبے، خواہ یہ سستی روٹی ہو، یا دانش سکول؛ یا لیپ ٹاپ، یا ہیلمیٹ، یا شمسی لیمپ کی تقسیم؛ یا بے نظیر انکم سپورٹ، یا ایسی ہی کوئی اور سکیم، سب کے سب شاہ خرچیوں میں ذیل میں آتے ہیں۔ یہ شہریوں کے ٹیکس کے پیسے سے شہریوں کے ووٹ خریدنا ہے۔ اور شہریوں کے مینڈیٹ کا یہ مطلب قطعاً نہیں!


[یہ کالم 4 دسمبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں