جب سے پاکستان بنا ہے تب سے ہی ایک کشمکش مسلسل موجود ہے ۔ یہاں میں یہ کہنے سے گریز کروں گا کہ یہ کشمکش کن طبقات یا گروہوں کے درمیان ہے، گرچہ یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی یہ کہ خود یہ کشمکش کیا ہے ۔ یہ کشمکش ایک انتہا ئی بنیا دی سوال کے گرد گھوم رہی ہے: یعنی یہ کہ پاکستان کو کسی آئین اور قانون کے تحت چلایا جائے یا کسی بھی طبقے یا گروہ کی مرضی کے مطابق ۔
موجودہ ’بحران‘ (ہفتہ، 13 فروری 2010) جو ججوں کی تقرری سے متعلق ہے، اسی بڑے سوال کا حصہ ہے کہ یہ کام کسی آئینی و قانونی ضابطے کے مطابق ہونا چاہیے یا محض کسی فرد کی خوشی سے ۔
ان تمام باریکیوں میں جائے بغیر جو ججوں کی تقرری سے متعلق پیدا کی جا رہی ہیں، اس بات پر تمام ما ہرینِ آئین و قا نون کا اتفاق ہے کہ خواہ ججوں کا تقرر سینیاریٹی کی بنیاد پر ہی ہو، لیکن جو طریقِ کار اس وقت موجود ہے، اس پر عمل ضروری ہے، بعد میں پارلیمان اسے تبدیل کر نا چاہے تو کر لے ۔ مراد یہ کہ اس وقت ججوں کا تقرر اصلاً، چیف جسٹس کا استحقاق ہے ۔
ججوں کی تقرری سے متعلق جو کچھ پیپلز پارٹی ک حکومت کر رہی ہے، بظا ہر اس کے دو مقصد نظر آتے ہیں ۔ اول تو یہ کہ عدلیہ میں اپنے وفادار لوگ لائے جائیں، اور دوم یہ کہ موجودہ عدلیہ کو کسی نہ کسی طرح کمزور کیا جا ئے ۔ دونوں چیزوں کا مقصود پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے طویل مدتی مفادات کا تحفظ ہے ۔
جیسا کہ عیاں ہے، پہلے کی عدلیہ اصل میں اس ’’اتحاد‘‘ کا حصہ تھی جو پاکستان کے مختلف طبقات اور گروہوں نے اپنی حکمرانی کو جاری رکھنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا ہوا ہے، مگر موجودہ عدلیہ اس کے برعکس آئین اور قانون پر عمل کرنے والی عدلیہ ہے ۔ یہاں اس بات کا ازالہ ضروری ہے کہ وہ لوگ جو آئین اور قانون کی حکمرانی کے حق میں ہیں، وہ بھی اسے ایک عوامی عدلیہ کا نام دے رہے ہیں، یہ سراسر غلط ہے ۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو آئین اور قانون کی حکمرانی چا ہیے ہے، یہی ان کا اصل مفاد ہے ۔
سو اس عدلیہ کو کمزور کرنا پیپلز پارٹی کی حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ نتجہ یہی ہے کہ یہ حکومت آئین اور قانون کی حکمرانی کے حق میں نہیں اور اس عد لیہ کو بہر صورت تباہ کرنا چاہتی ہے، جو آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے عملاً کوشاں ہے ۔
کسی بھی سیاسی رہنما یا جماعت کو جانچنے کا یہ سیدھا سا اصول ہے کہ آیا یہ عملاً آئین اور قانون کی حکمرانی کو قائم کرتی ہے، اسے تقویت دیتی ہے، اسے یقینی بناتی ہے، یا ان سب باتوں کے برعکس کرتی ہے ۔ ہم اس کسوٹی کی مدد سے کھرے کھوٹے کی پہچان کر سکتے ہیں ۔
آپ خود جانچ لیجیے کیا ہو رہا ہے ۔
[یہ تحریر 15 فروری 2010 کو لکھی گئی تھی اور ’’اردو بلاگ - سب کا پاکستان‘‘ پر اسی تاریخ کو شائع ہوئی ۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں