بچوں کا مقدر والدین، اور شہریوں کا مقدر ریاست ہوتی ہے!
وضاحت اور تفصیل اس قضیے کی یہ ہے کہ بچے جس طرح کے والدین کے گھر پیدا ہوں گے، اسی طرح کا ان کا مقدر ہوگا۔ کسی بچے کے والدین، جس طرح کے تصورات، خیالات، اصول و اقدار، طور اطوار، رہن سہن، عادات وخصائل، اور زبان وبیان کے حامل ہوں گے، وہی کچھ وہ بچہ سیکھے گا۔ یا یہ کہ وہی کچھ وہ بچے کو سکھائیں گے۔ یہی اس کا مقدر بن جائے گا۔ گو کہ یہاں یہ بات خود مشکوک ہے کہ کتنے والدین شعوری طور پر بچے کی تربیت کرتے ہیں، کیونکہ اگر وہ خود شعوری تربیت کے دور سے نہیں گزرے ہیں، تو وہ اپنے بچوں کی شعوری تربیت کیونکر کر پائیں گے۔
بیشتر یہ ہوتا ہے کہ بچے پیدا ہو گئے ہیں تو کچھ نہ کچھ سیکھ لیں گے، یا گھریلو، یا گھر سے باہر کی زندگی کے معمولات خود بخود انھیں کچھ نہ کچھ سکھا دیں گے۔ یہ شعوری تربیت نہیں، جس میں بچے کو ڈسپلن کے ساتھ آزادی اور ذمے داری کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ یہا ں یہ کہنا سچائی کے خلاف نہیں ہو گا کہ پاکستان میں شہری اور غیرشہری دونوں طرح کے علاقوں میں، ایسے باشندوں کی تعداد اکثریت سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جن کی نسلیں مجموعی طور پر شعوری تربیت کے مراحل سے کبھی نہیں گزریں۔ مراد یہ کہ اولاد کی غیرشعوری تربیت کا دائرہ اپنے محور کے گرد کئی مرتبہ گھوم چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ خود اپنی شعوری تربیت کرنا بہت کم بچوں کا مقدر رہا ہے۔
تاہم، یہ بالکل ممکن ہے کہ بچہ بڑا ہو کر، جب وہ خود باشعور ہو جائے، اور اچھے برے کی پہچان کے قابل ہو جائے، اور جیسے سقراط کا کہنا تھا، ایک سوچی سمجھی زندگی گزارنے کا جتن کرنے لگے تو وہ خود اپنی کوشش اور سعی سے نہ صرف جو کچھ اس نے پہلے سیکھا ہے اوراب اسے غلط سمجھنے لگا ہے، تو وہ اسے ترک کر سکتا ہے؛ بلکہ جو کچھ وہ صحیح اور معقول سمجھنے لگا ہے، اسے سیکھنا شروع کر دے، یا وہ کچھ سیکھ لے۔ ہر بچہ کسی نہ کسی حد تک اس مرحلے سے گزرتا ہے، لیکن بہت کم بچے ہیں، جو پرانے کو ترک اور نئے کو سیکھنے کی شعوری سعی کرتے ہیں، اور پھر ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیشترصورتوں میں غیر شعوری تربیت کے مجموعی اثرات باقی اور موثر رہتے ہیں۔ پاکستان کی صورت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستانی سوسائیٹی میں مثبت تبدیلی مرتب ہوتی ضرور نظر آتی ۔ گھریلو زندگی کو علیٰحدہ رہنے دیں، سماجی اور مجلسی زندگی کو دیکھ لیں، صاف شہادت مل جائے گی کہ سوسائیٹی میں کس نوعیت کی تبدیلی آئی ہے۔ ہر چیز زوال سے گہنائی ہوئی ہے۔ ہر چیز میں گراوٹ اور بدمزگی ہے۔
سو، جس طرح بچوں کا مقدر، والدین سے اخذ ہوتا ہے، اسی طرح، شہریوں کا مقدر ریاست سے ترکیب پاتا ہے۔ یہاں ریاست سے مراد حکمران ہیں، جن میں سیاست دان اور ریاست کے ملازمین ہیں، جیسے کہ بیوروکریسی، وغیرہ۔ جیسی ریاست ہوگی، مجموعی طور پر شہری بھی ویسے ہی ہوتے جائیں گے۔ جیسی پاکستان کی ریاست، غیرذمے دار ریاست ہے، اسی طرح اس کے شہری ہیں، انتہائی غیر ذمے دار۔ جیسی پاکستان کی ریاست ہے، انتہائی بد عنوان، اسی طرح اس کے شہری ہیں، بد عنوانی کے مجسمے۔ جیسی پاکستانی ریاست ہے، آئین اور قانون کو اپنی جوتی کی نوک پر لکھنے والی، اسی طرح، اس کے شہری ہیں، آئین اور قانون کو حقارت سے دیکھنے والے اور حقارت سے ٹھکرانے والے۔ مراد یہ کہ جو کچھ اب تک پاکستان کی ریاست کرتی رہی ہے، وہی کچھ اس کے شہریوں نے سیکھا ہے۔ یہ بالکل وہی والدین والا معاملہ ہے؛ شعوری تربیت تو انھوں نے کی نہیں، جو کچھ وہ خود کرتے تھے، بچوں نے وہی کچھ سیکھ لیا۔ یونہی، ریاست اگر شعوری طور پر آئین اور قانون کی پاسداری کرتی، تو شہری بھی آئین اور قانون کا احترام سیکھ لیتے۔
اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ اگر ریاست، شہریوں سے آئین اور قانون کی پابندی کروانے کی کچھ نہ کچھ کوشش کرتی تو شہری کچھ نہ کچھ آئین اورقانون کے پابند ضرور بن جاتے۔ لیکن پھر وہی معاملہ ہے کہ والدین جو کچھ بچوں کو سکھا رہے ہیں، اگروہ خود اس پر عمل نہیں کررہے تو بچوں کے لیے اس چیز کا سیکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یونہی اگر ریاست چاہتی ہے کہ شہریوں سے قانون کی پاسداری کروائے، اور وہ خود قانون کا مضحکہ اڑاتی ہو، قانون کو گھر کی لونڈی سمجھتی ہو تو شہری ایسے قانون کا احترام اور اس کی پاسداری کبھی نہیں کریں گے۔ پاکستانی ریاست نے عملاً یہی کچھ کیا ہے، اور یہی کچھ کر رہی ہے۔ اور شہریوں نے بھی یہی کچھ سیکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک آئین دشمن اور قانون دشمن ریاست پاکستان کی شہریوں کا مقدر بنی رہی، اور بنی ہوئی ہے۔ تو جس طرح کچھ بچے بڑے ہو کر، بالغ نظر ہو کر، اپنی شعوری تربیت خود کرلیتے ہیں، یونہی پاکستان کے متعدد شہریوں نے اپنی تربیت خود کی ہے۔ مگر یہ لوگ اقلیت میں رہے ہیں، اور آج بھی اقلیت میں ہیں۔ انھوں نے ریاست کے غلط اور غیر معقول تصورات، خیالات، اصول و اقدار، طور اطوار، رہن سہن، عادات وخصائل، اور زبان و بیان کو ترک کیا، اور ان کے مقابلے میں صحیح اور معقول چیزوں کو اپنایا۔ یہی نہیں، بلکہ انھیں فروغ اور تقویت دینے کے لیے تحریکیں چلائیں۔ اس کی حالیہ مثال وکلا کی تحریک ہے، جس کا مقصد غیر آئینی اور آمرانہ انداز میں معزول کیے گئے ججوں کی بحالی اور آئین اور قانون کی حکمرانی کا قیام تھا۔ یہ وہی سبق تھا، جسے پاکستانی ریاست، اور پاکستانی سیاست دونوں بھول چکی تھیں۔
یہاں ایک مثال یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ ایک ایسی عدلیہ میں، جو بالعموم ریاست اور حکومتوں کی دم چھلا بنی رہی تھی، اور آئین اور قانون کی تشریح ان کی پسند، مطالبوں اور تقاضوں کے مطابق کرتی رہی تھی، اس میں افتخار محمد چوہدری جیسے جج کیسے پیدا ہو گئے۔ (سوال تو یہ بھی ہے کہ تحریکی اعتزاز احسن میں سے سیاسی اعتزاز احسن کیسے پیدا ہو گئے!) یہ وہی بات ہے کہ ایک بچہ، والدین سے، جو کچھ سیکھتا ہے، اپنی عقل وشعور کو کام میں لاکر اس سے دامن چھڑا سکتا ہے۔ اسی طرح، ایک شہری، ریاست، یا ریاستی اداروں، اور ریاست پر سوار حکمرانوں، سیاست دانوں، اور بیوروکریسی سے جو کچھ سیکھتا ہے، اپنی کوشش اور سعی سے ان گمراہ کن اسباق کو بھلا سکتا ہے، اور تبدیلی کا پہلا قطرہ بن سکتا ہے۔ تبدیلی، اور دیرپا تبدیلی کا یہی راستہ ہے ۔ اور پھر یہ تبدیلی اسی طرح توسیع بھی پا سکتی ہے۔
اس بحث سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ریاست اصلاً ایک منافق ریاست ہے۔ یعنی ریاست کو چلانے والے، اس ریاست کے کرتا دھرتا؛ یعنی حکمران سیاست دان، اور ریاست کے ملازمین، یعنی مختلف طرح کی بیوروکریسی، وغیرہ، سب کے سب منافق ہیں، اور ان سب نے مل کر ریاستی منافقت کو فروغ دیا ہے۔ پاکستانی ریاست کو ایک جھوٹی ریاست بنا دیا ہے۔ پاکستانی ریاست کو ایک منافق ریاست بنا دیا ہے۔ کہنا چاہیں توریاست کی جگہ حکومت کہہ لیں، اس کے سربراہ سے لے کر، اس کی تہوں کی نچلی سطح تک منافقت رچ بس گئی ہے۔ خواہ یہ حکومتی شخصیات ہوں، یا حکمران یا سیاست دان، یا ریاست کے ملازمین، سب کے سب جو کچھ کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں، وہ قبول نہیں کرتے۔ یہ لوگ اخبارات میں جوکچھ چھپواتے ہیں، ذرا اس پر نظر ڈال کر تو دیکھیں!
ویسے توریاستی منافقت کی مثالیں ڈھونڈنے جیسا بیکارکام کوئی نہیں، کیونکہ ساٹھ پینسٹھ سا ل ہوگئے ہیں اخبارات اور ٹی وی چینلز نے ان کا ایک ناختم ہونے والا ذخیرہ مہیا کردیا ہے، اور مسلسل مہیا کر تے جا رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ یہ منافقت رکنے کا نام ہی نہیں لیتی، تو جب اس کی کوئی مثال نظر سے گزرتی ہے تو حساس شہری کے کرب کو دوچند کر جاتی ہے۔ اور اس سے بھی بڑی سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب جرائم پیشہ لوگ ریاست، حکومت اور سیاست پر قابض ہو جائیں، جیسا کہ اس قسم کے لوگ پاکستان کا مقدر بن گئے ہیں، تو یوں کوئی ریاست اپنے شہریوں کو کیا پیغام دے رہی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بدعنوان والدین عملاً اپنے بچوں کو کیا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے والدین اور اس طرح کی ریاست، اپنے شہریوں کو منافقانہ زندگی گزارنے کا پیغام دے رہی ہو تی ہے۔ یعنی بچوں کو گھر سے اور شہریوں کو ریاست سے منافقت کا سبق ملتا ہے۔ یہی منافقت پاکستانی قوم کا کرداربن چکی ہے!
[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 2 اکتوبر کو شائع ہوئی۔ ]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں