پاکستان کی ریاست ایک ایسا جوہڑ ہے، جس میں سڑتے پانی کو حکومتوں کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ کہنے کو یہ حکومتیں دوچار پانچ سال بعد تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن درحقیقت کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ حکمرانوں کے چہرے بد لتے ہیں، شہریوں کے حالات نہیں بد لتے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا جوہڑ، ہر باراسی سڑے پُر تعفن پانی سے بھر دیا جاتا ہے ۔ اس سڑے پانی میں پلنے والی جونکیں، حکمران سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار اور حکومتی اہلکار ہوتے ہیں ۔ یہ جونکیں شہریوں کا خون چوس کر زندہ رہتی ہیں ۔ ان کی زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا ۔ وہ جوہڑ میں آتے ہی اس لیے ہیں ۔
حکومتی جونکوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے اصل جونکوں کے بارے میں کچھ اہم حقائق کو سامنے رکھنا ضرور ی ہے ۔ جونکوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ طفیلی کیڑے ہوتے ہیں، جو جہاں پانی ہو، وہاں پائے جاتے ہیں ۔ یہ اپنے دونوں سروں سے خون چوستے ہیں ۔ ان کی اصل خوراک جانوروں کا خون اور ٹشوز ہوتے ہیں ۔ ان کا خون چوسنا تکلیف نہیں دیتا، کیونکہ جہاں سے خون چوسنا ہو، یہ اس جگہ کو سُن کر دیتی ہیں ۔ یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زیادہ خون چوس سکتی ہیں ۔ جونکوں کا نروس سسٹم، انسانوں کے نروس سسٹم سے بہت مشابہت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انھیں تحقیق کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے ۔ انسان ایک دماغ رکھتا ہے، اورجونک 32 دماغ رکھتی ہیں ۔ ان کے بار ے میں حیران کن بات یہ ہے کہ یہ دریائی گھوڑے کی سخت اور موٹی جلد میں سے بھی خون چوس لیتی ہیں ۔ اور یہ توآپ جانتے ہی ہوں گے کہ انھیں مختلف امراض کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا (کہیں کہیں آج بھی کیا جاتا ہے)، اس طرح کہ یہ مریض کا گندا، فاسد خون چوس لیتی ہیں، اور یوں مریض صحت یاب ہو جاتا ہے ۔
ہم میں سے بہت کم لوگوں کو جونکوں کو دیکھنے یا ان سے خون چُسوانے کا تجربہ ہوا ہو گا ۔ تاہم، ہم میں سے ایسا خوش قسمت کوئی نہیں ہوگا، جس کا خون سرکاری جونکوں نے نہ چوسا ہو ۔ ان سے خون چسوانا ہر پاکستانی کا مقدر ہے؛ اشرافیہ اور خواص، اور ان کے حواریوں اور اشرافیہ نواز کو چھوڑ کر ۔ جیسا کہ اوپر جونکوں کی خصوصیات کا ذکر ہوا، اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سرکاری جونکوں کے خصائص، طفیلی جونکوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتے ۔ جیسے جونکیں پانی میں پائی جاتی ہیں، سرکاری جونکیں ہر قسم کی سرکاری، نیم سرکاری عمارتوں میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ عمارتیں، صدارتی محل، وزیرِ اعظم ہاؤس ، گورنر ہاؤس، وزیرِ اعلیٰ ہاؤس سے لے کر دوتین کمروں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے سرکاری دفتر بھی ہو سکتے ہیں ۔ وفاقی سیکریٹریٹ اور صوبائی سیکریٹریٹ، سرکاری جونکوں کے مستند گڑھ مانے جاتے ہیں ۔
سرکاری جونکیں، گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 22 تک بلا تخصیص پائی جاتی ہیں ۔ تاہم، سرکاری جونکیں خون چوسنے کے لیے گریڈوں کی قطعاً محتاج نہیں ۔ یہ لاتعداد لبادے پہن کر خون چوس سکتی ہیں ۔ جیسے کسی کمیشن، کسی کمیٹی کے سربراہ اور ارکان ۔آج کل ”ٹاسک فورس“ کا دور دورہ ہے ۔ سرکاری جونکیں، منتخب بھی ہوتی ہیں، اور نامزد بھی ۔ یہ ملک کے اعلیٰ ترین سربراہوں سے لے کر سرکاری درجہ بندی کے نچلے سرے پر موجود ایک نائب قاصد یا کسی”صاحب“ کے نجی ڈرائیور کے روپ میں پائی جاسکتی ہیں ۔ مگر جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہاں صرف سرکاری محکموں میں پائی جانے والی جونکوں کا ذکر مطلوب ہے؛ یعنی سرکاری جونکیں ۔
گوکہ یہ کہنا منتخب جونکوں کے ساتھ شدید ناانصافی ہو گی کہ سرکاری جونکیں زیادہ خطر ناک ہیں، کیونکہ یہ زیادہ خون چوستی ہیں، تاہم، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ منتخب حکومتیں، یا منتخب جونکیں، چاہیں تو خود بھی شہریوں کا خون چوسنا بند کر سکتی ہیں، اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والی سرکاری جونکوں کی طفیلی زندگی کا خاتمہ بھی کر سکتی ہیں ۔ لیکن حالات یہی بتاتے ہیں کہ وہ شعوری طور پر ایسا نہیں کرتیں ۔ غالباً بے نظیر کی وزارتِ عظمیٰ کا دوسرا دور تھا، جب مجھے لاہور میں ایک دوست کے ساتھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ وہاں کے ایک ذمے دار افسر کا کہنا تھا کہ وہ کیا کریں، ایک صوبائی وزیر جب بھی کہیں آتے جاتے ہیں، ان کے تمام اخراجات کا بندوبست انھیں کرنا پڑتا ہے ۔
یقینا، آپ کو بھی کسی نہ کسی سرکاری محکمے سے واسطہ ضرور پڑا ہو گا ۔ یہ کوئی ترقی یافتہ ملک تو نہیں، جہاں شہری باعزت زندگی گزارتے ہیں، اور ان کے ساتھ سرکاری محکموں اور دفاتر میں باعزت طریقے سے پیش آیا جاتا ہے ۔ یہ تو جمہوری پاکستان ہے، جہاں شہری، حکومتی عہدیداروں اور سرکاری اہلکاروں کے غلام ہوتے ہیں ۔ یہ سرکاری اہلکار خود کو فرشتہ سمجھتے ہیں، اور ان کی نظر میں باقی شہری نہ صرف بد دیانت، جھوٹے، بلکہ شودروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں تاریخ کو دوبارہ وقوع میں نہیں لایا جاسکتا، لیکن پاکستان کے سرکاری محکموں کے سربراہوں اور اہلکاروں نے یہ کرامات کر دکھائی ہے ۔ برہمن اور دوسری اعلیٰ ذاتیں، شودروں کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتی ہوں گی، جس طرح کا سلوک سرکاری محکموں میں خود پاکستان کے شہریوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ کسی بے چارے کو ان سے کام پڑجائے، اس کے ساتھ وہ ظلم روا رکھا جائے گا، جو کسی غلام پر بھی نہ کیا جاتا ہو گا ۔ اگر آپ کو کام نہیں پڑا تو یہ اہلکار آپ کو خود سرکاری دفتر گھسیٹ لائیں گے ۔ مثال یہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں خود رہائش پذیر ہیں، اور ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کی طرف سے آ پ کو نوٹس آ جائے گا کہ آپ نے اپنا مکان کرائے پر دیا ہوا ہے، اور اتنا ٹیکس ادا کریں ۔ سمجھیں آپ کی زندگی خراب ہو گئی ۔
کتنے سرکاری دفتر ہیں، جہاں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ اگر سرکاری دفترنہ ہوتے تو انسان کی زندگی کتنی آسان ہوتی ۔ لیکن یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ سرکاری محکمے شہریوں کو سہولیات بہم پہنچانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں، لیکن یہ سب جونکوں سے آباد ہو جاتے ہیں ۔ اور یہ بھی سوچیں کہ چلیں جونکیں تو اپنی فطرت کے مطابق زندہ رہتی ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی اور انداز اپنانے کی اہل نہیں؛ مگر یہ انسان، جو عقل و شعوررکھتا ہے، جب یہ خود جونکوں کا کردار اپنا لے تو کتنا خطر ناک ہو جائے گا ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں پائی جانے والی تمام جونکیں، کسی امتیا ز کے بغیر، اصل جونکوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہیں ۔ جونکیں، جونکوں کا خون نہیں چوستیں، مگر یہ انسانی سرکاری جونکیں، خود اپنے ہم شہریوں کا خون چوستی ہیں؛ اچھا گندا سب خون چوس لیتی ہیں، اور پھلتی پھولتی، بلکہ پھیلتی جاتی ہیں ۔ جونکیں تو اپنے وزن سے پانچ گنا زیادہ خون چوس سکتی ہیں، مگر ان انسانی جونکوں کی خون چوسنے کی ہوس کی کوئی حد نہیں ۔
کسی سرکاری دفتر میں جا کر دیکھیں کیا ہو رہا ہوتا ہے ۔ مجھ پر جب بھی ایسی کوئی مصیبت آتی ہے، اورکسی سرکاری دفتر جانا پڑ جاتا ہے تو وہاں سے واپسی کے بعد کئی دن تک ڈیپریشن دور نہیں ہوتا ۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کس طرح کے انسا ن ہیں ۔ کیا کر رہے ہیں ۔ ان کا کیا ذہن ہے ۔ ان کی کیا سوچ ہے ۔ ان کی کیا زندگی ہے ۔ ان کی کیا منزل ہے ۔ ہاں، ان کا بینک بیلنس بہت ہو گا ۔ کئی پلاٹوں کے مالک ہوںگے ۔ کئی گھروں کے مالک ہوں گے ۔ نئی سے نئی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوں گے ۔ پوچھیں ان کا گریڈ کیا ہے، اور ان کی تنخواہ کیا ہے، تو پتہ چلے گا، اس محکمے کا سربراہ، اور اس محکمے کا وزیر، اور پھر وزیرِ اعظم، اور پھر ملک کا صدر، سب کے سب جنم جنم کے اندھے ہیں ۔ انھیں کسی کو نظر نہیں آتا کہ ان ملازموں کے گریڈ اور ان کی تنخواہ اور ان کے معیارِ زندگی اور طرزِ زندگی میں کتنی بڑی خلیج حائل ہے؛ اتنی بڑی خلیج جتنی انسانوں اور جونکوں کے درمیان ہو سکتی ہے ۔ یہیں سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت کو قریب قریب پانچ برس ہونے کو آ گئے ہیں، اور ابھی تک کرپشن کے خلاف، یعنی احتساب کا کوئی قانون وضع نہیں ہو سکا ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دانستہ طور پر ایسا قانون نہیں بنایا جاتا ۔ سیدھی سی بات ہے کہ جونکوں کے خلاف احتسابی قانون جونکیں خود تو نہیں بنائیں گی!
اب ذرا یہ بھی سوچیں کتنے اور کس کس طرح کے سرکاری محکمے موجود ہیں؛ اور سب کے سب جونکوں سے بھرے ۔ پولیس؛ پاسپورٹ؛ شناختی کارڈ؛ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن؛ مختلف و متعدد ٹیکس کے محکمے، جیسے انکم ٹیکس؛ پٹواری؛ کچہری؛ صحت؛ تعلیم؛ اور پھر بجلی کا محکمہ ۔ درجنوں بلکہ شاید سینکڑوں قسم کے محکمے وجود رکھتے ہیں ۔ سب کے سب شہریوں کا خون چوس رہے ہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر، بغیر کسی روک ٹوک کے ۔ ذرا درجہ بندی تو کیجیے کون زیادہ خون چوستا ہے۔ کبھی کبھی اخبارات میں ایسے تخمینے چھپتے ہیں کہ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے ۔ عام طور پر یہ تخمینے کونسا محکمہ بناتا ہے: محکمۂ انسدادِ بدعنوانی ۔ یہ محکمہ خون چوسنے والوں کی شکایت کرنے والوں کا خون چوستا ہے ۔
ان جونکوں کی موجودگی اور ان کا مسلسل شہریوں کا خون چوسنا ایک ایسی بڑی حقیقت ہے، جس سے ہر عام شہری واقف بھی ہے اور اس کا زخم خوردہ بھی، سوائے اشراف اور خاص شہریوں کے، جنھیں ان جونکوں سے براہِ راست کبھی سابقہ نہیں پڑتا ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ عمریں گزر گئی ہیں بائیں بازو کو اور دائیں بازو کو سرمایہ داروں، جاگیر داروں، امریکی سامراج کی مخالفت کرتے ہوئے، کیا انھیں یہاں اپنی ناک کی نیچے ہوتا سرکاری جونکوں کا یہ ظلم نظر نہیں آتا ۔ یہ میرا بہت سوچا سمجھا خیا ل ہے کہ پاکستان اور پاکستان جیسے ملکوں میں حکومتیں اور ان کی مشینری سے بڑا استحصال کرنے والا کوئی نہیں، بے چارے سرمایہ دار اور جاگیر دار بھی نہیں!
[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 29 ستمبر کو شائع ہوئی ۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں