جمعہ، 6 ستمبر، 2013

پاکستان کے مجرم - سیاسی زاویہ

اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نظمِ حکومت کے حوالے سے ذمے داری سیاست دانوں پر آتی ہے۔ خود سیاست دان یہی دعویٰ کرتے ہیں۔ اور یہی چیز سیاست ہے۔ یعنی نظمِ حکومت کو بہتر انداز میں کیسے منظم کیا اور چلایا جائے۔ جب پاکستان بن گیا تو اس کے لیے برطانیہ سے ملنے والے نظمِ حکومت، یعنی گورمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 سے ہٹ کر، کیا سیاست دان کوئی اور نظمِ حکومت بنا سکے۔ کتنے برس تو آئین ہی نہیں بن سکا۔ جب بنا تو اس کی کیا درگت بنی۔ پھر بنا، پھر مذاق بنا، پھر ٹوٹا۔ اور جب بیس پچیس برس بعد مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا تو بچے کچھے پاکستان کے پاس کوئی آئین نہیں تھا۔ یا جو کچھ تھا، اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کی بڑی وجہ یہی اس وقت کے آئینی بندوبست پر عمل درآمد سے انحراف ہے۔

آخرِ کار، ہوتے ہوتے 1973 میں پھر ایک آئین بنا۔ اس ملک کے شہریوں کی خوش قسمتی ہے، سیاستدانوں کی نہیں، کہ یہ آئین ابھی تک موجود ہے۔ اور نافذالعمل بھی ہے۔ تو 1973 سے پہلے اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا، ہوتا رہا اور ہو رہا ہے، اس سب کی ذمے داری تنہا سیاست دانوں پر آتی ہے۔ کوئی بھی ان کا شریکِ جرم نہیں۔ یہ اکیلے ہی قصوروار ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اکیلے ہی کافی ہیں۔ مراد یہ کہ اس طرح کے کام، یعنی قانون اور آئین کے خلاف جرائم کرنے کے لیے یہ اکیلے ہی بہت ہیں۔ بلکہ یہ جب کسی کے شریکِ جرم بنتے ہیں تو اس وقت بھی اصل مجرم یہی ہوتے ہیں۔

اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی علاقے کا ایس- ایچ- او خود جرائم پیشہ افراد کا شریک بن جائے تو کیا وہ محض شریکِ جرم گردانا جائے گا۔ کیا وہ اصل اور بڑا مجرم نہیں بن جائے گا۔ وہ شخص جسے قانون کا محافظ اور شہریوں کی جان و مال، ان کے حقوق اور ان کی عزت و آبرو کا رکھوالا بنایا گیا ہے، اگر خود وہ ہی مجرموں کا ساتھی بن جائے تو کیا اسے ایک عام مجرم کہا اور سمجھا جائے گا۔ قطعاً نہیں۔ وہ تو اصل اور بڑے مجرم سے بھی کہیں بڑا مجرم ہے۔ سیاست دان بھی اسی طرح کے مجرم ہیں۔

آپ کہیں گے جو سیاست دان یا سیاسی جماعتیں حکومت سے باہر ہوتی ہیں، ان کا کیا جرم ہے۔ انھوں نے تو کچھ نہیں کیا۔ اگرچہ اس کا جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ قریب قریب سب جماعتوں کو حکمران جماعت یا پھر اتحادی جماعت کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا ہے، یا وہ حزبِ اختلاف کے طور پر پارلیمان کا حصہ رہی ہیں۔ تاہم میں خود اس جواب سے مطمئن نہیں۔ کئی نئی پرانی جماعتیں ایسی ہیں یا ہو سکتی ہیں جو حکمران یا اتحادی جماعت یا حزبِ اختلاف کی حیثیت سے حکومت سے وابستہ نہیں رہیں۔ بالعموم یہ کہا جا سکتا ہے کہ آیا کوئی سیاسی جماعت، حکومت سے باہر رہی ہو، یا حکومت سے وابستہ، دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس نے قانون اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا یا نہیں۔ یا جب آئین نہیں تھا تو کیا انھوں نے آئین کو بنانے کے لیے کوئی کام کیا یا نہیں۔ یا بس ڈنڈے بجاتی رہیں۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ ہم ایک طرف سیاسی اور سماجی، اور دوسری طرف قانونی اور آئینی زاویے سے بات کریں گے۔ جو جماعتیں یا جب کوئی بھی سیاسی جماعت، حکومت سے باہر ہوتی ہے، اور اس سے مراد وہ جماعتیں ہیں، جو صوبائی اور قومی اسیمبلیوں اور سینیٹ سے بھی باہر ہوتی ہیں تو وہ ذمے داری سے چھوٹ نہیں جاتیں۔ حزبِ اختلاف تو حکومت کا حصہ ہوتی ہے، کیونکہ وہ مختلف طرح کے حکومتی اداروں، یعنی قائمہ کمیٹیوں، وغیرہ میں شامل ہوتی ہے۔ اور یقیناً اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بعض اوقات کچھ جماعتیں نہ اتحادی جماعت ہوتی ہیں، نہ حزبِ اختلاف میں ہوتی ہیں، بلکہ یا تو انھوں نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا ہوتا، یا اگر حصہ لیا ہوتا ہے تو ہاری پِٹی جماعت ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی وہ حکومت سے باہر حکومت کے اتحادی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسی جماعتوں کو بھی اسی پیمانے سے جانچاجانا چاہیے۔

سو، جو جماعتیں حکومت میں ہوتی ہیں، اور جو جماعتیں حکمران جماعت کی اتحادی جماعتیں ہوتی ہیں، وہ قانونی اور آئینی طور پر جواب دہ ہوتی ہیں۔ ان کی جواب دہی صرف یہ نہیں کہ پانچ برس بعد انتخابات میں ان کی آزمائش ہو گی۔ جواب دہی سے متعلق آئینی ادارے، جیسے کہ عدلیہ اور اتحادی جماعتیں اور حزبِ اختلاف میں موجود جماعتیں، یہ سب کی سب ان کی جواب دہی سے تعلق رکھتی ہیں، اور یہ ان کا قانونی اور آئینی فریضہ بھی ہے۔ وہ جماعتیں، جو کوئی انتخابی مینڈیٹ نہیں رکھتیں، اور قانونی اور آئینی اداروں سے باہر حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں، وہ بھی جواب دہی کا کام کرتی اور کر سکتی ہیں۔ بہر حال ان پر اس طرح قانونی اور آئینی ذمے داری عائد نہیں ہوتی، جس طرح یہ اتحادی جماعت، پارلیمان میں بیٹھی حزبِ اختلاف اور عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شاید ہی کوئی معروف سیاسی جماعت ایسی ہو، جو اوپر بیان کیے گئے مفہوم میں حکومت سے وابستہ نہ رہی ہو۔ نئی جماعتوں، جیسے کہ تحریکِ انصاف پر سیاسی اور سماجی زاویے سے بات کی جا سکتی ہے کہ اس نے قانون اور آئین کی بالا دستی اور حکمرانی کے لیے کام کیا یا نہیں۔ باقی تمام سیاسی جماعتوں پر قانونی اور آئینی ذمے داری کے زاویے سے بھی بات کی جا سکتی ہے کہ آیا انھوں نے ان ذمے داریوں کو نبھایا، یا نہیں۔

اب ذرا دوسرے ’مجرموں‘ پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ میں انھیں مجرم نہیں کہہ رہا۔ میں یہاں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ، بیوروکریسی، فوج، اور جاگیرداروں کو بھی مجرموں کی اس فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ مجھے یہاں بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے ’جرم‘ سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر ملک میں قانون اور آئین کی حکومت موجود ہو تو بیوروکریسی بے چاری اپنے کام سے کام رکھے گی۔ اگر ملک میں جواب دہی کا ایک کارگر نظام کام کر رہا ہے تو بیوروکریسی میں جو بھی مجرم ہوں گے، یہ نظام ان سے خود نبٹتا رہے گا۔ اور اصل میں تو یہ خود سیاست دان ہیں، جو انھیں اپنا شریکِ جرم بناتے ہیں۔ بلکہ یہ یہی سیاست دان ہیں، جنھوں نے بیوروکریسی کو خراب اور تباہ کیا ہے۔ آج سیاست دانوں کی حکومت، جو کچھ کر رہی ہے، وہ ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے۔

جاگیرداروں کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ یہ خود سیاست دان ہیں، یا پھر خود سیاست دان ان سے ملے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بے چارے بھی اپنا زہر، یعنی اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھیں گے، اگر ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی موجود ہو گی۔ اور کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہ قانون اور آئین کی حکمرانی بھی تو ان سیاسی جماعتوں نے ہی قائم کرنی ہے، جو حکومت میں اورحکومت کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان میں حکمران جماعت، اتحادی جماعتیں، اور پارلیمان میں موجود حزبِ اختلاف سبھی شامل ہیں۔ تو اگر کہیں کوئی جاگیردار، کوئی غیرقانونی اور غیرآئینی کام کر رہے ہیں تو اس کی ذمے داری بھی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں پر آتی ہے۔

کوئی بھی زاویہ منتخب کر لیجیے، ہر زاویے سے سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں، پاکستان کے شہریوں کی مجرم ٹھہرتی ہیں۔ آئندہ کالم میں سیاسی اور آئینی زاویے سے یہی بحث جار ی رہے گی۔


[یہ کالم 25 دسمبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں