جمعہ، 6 ستمبر، 2013

پاکستان کے مجرم

’پاکستان کے اصل مجرم سیاست دان ہیں۔‘

یہ میں نے کیا لکھ دیا۔ ہر کوئی سیاست دانوں کو ہی قصوروار گردانتا ہے۔ انھیں ہی لعن طعن کرتا رہتا ہے۔ یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ اب دیکھیں نہ ایک رپورٹ، ”نمائندگی بِنا ٹیکس دہندگی“ چھپ گئی ہے کہ سیاست دان ٹیکس نہیں دیتے۔ اور سیاست دان ہی نہیں، وہ سیاست دان بھی، جو شہریوں کے ووٹ سے منتخب ہو کر پارلیمینٹ میں جاتے ہیں، اور پھر وہاں بیٹھ کر ان شہریوں پر نت نئے ٹیکس لاگو کرتے ہیں، خود ٹیکس دینا تو کجا، ٹیکس نمبر تک لینا گوارا نہیں کرتے۔ اس کی بڑی مثال سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی ہیں، جنھیں وزیرِاعظم بننے پر مجبوراً ٹیکس نمبر لینا پڑا، کیونکہ پاکستان میں وزیرِاعظم کو تنخواہ بھی دی جاتی ہے، اور سرکاری تنخواہ لینے کے لیے سرکاری ملازم کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر کا ہونا ضروری ہے۔ ویسے انھیں کیا، پاکستان میں کسی وزیرِاعظم کو تنخواہ کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ اس تنخواہ کے علاوہ بھی تو کئی ”تنخواہیں“ ہوتی ہیں، ان کا پیٹ بھرنے کے لیے۔

اسی پر بس نہیں، بات اس سے بھی آگے چلی گئی۔ حکومت کے اپنے مقررہ، چیئر مین نیب، ایڈمرل فصیح بخاری نے پہلے تو یہ انکشاف کر کے کہ روزانہ چھ سے سات ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، حکومت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اور جب اس پر پارلیمینٹ میں بیٹھے قومی نمائندے اور بالخصوص حاکم نمائندے آگ بگولہ ہوئے تو انھوں نے یہ کہہ کر کہ یہ تو محتاط اندازہ تھا، اصل میں روزانہ کرپشن کا حجم چھ سات ارب نہیں، بلکہ دس بارہ ارب ہے، اس ٹوٹے ہوئے بھانڈے کے مزید ٹکڑے کر دیے۔ یک نہ شد دو شد۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انھوں نے تو حکومت کی لٹیا ہی ڈبو دی۔

کوئی رسوائی سے رسوائی ہے! مگر پاکستان میں یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ انسان کو ڈھیٹ ہونا چاہیے۔ تو ان سیاست دانوں جیسا ڈھیٹ کوئی ڈھونڈ کر دکھائے۔ بجائے اس کے کہ اس انکشاف پر شرمندگی کا اظہار کریں، اس کی روک تھام کے لیے کچھ سوچیں کچھ کریں، چور نے الٹا کوتوال کو ڈانٹنا شروع کر دیا ہے۔ اور عمر چیمہ سمیت، جنھوں نے یہ رپورٹ مرتب کی ہے، تمام کے تمام صحافیوں اور میڈیا کے مالکوں کو رگید رہے ہیں کہ وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ بھئی اول تو آپ اپنا حساب دیں، اورجہاں تک صحافیوں اور میڈیا کے مالکوں کے ٹیکس دینے کی بات ہے تو یہ ذمے داری بھی تو حکومت ہی کی ہے، اور اگر صحافی اور میڈیا کے مالک ٹیکس نہیں دیتے تو یہ بھی حکومت کا قصور ہے۔ یہی سب سیاست دان اور حکومت والے، میڈیا والوں کے رشتے دار بنتے ہیں، ان کے لیے کالونیاں بناتے ہیں، ان کو ایک نہیں دو، دو پلاٹ الاٹ کرتے ہیں، اور ان کے پریس کلبوں کے لیے شہریوں کے ٹیکس کے پیسے میں سے گرانٹس بانٹتے پھرتے ہیں؛ تو یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ ٹیکس دیتے ہیں یا نہیں۔

گذشتہ برس ایک ٹاک شو میں جب یہی سیاست دانوں کو لتاڑنے کا کام شروع ہوا تو سابق وزیرِاطلاعات، اور معروف دانشور جاوید جبار بھی وہاں موجود تھے، انھوں نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور کہا کہ بھئی یہ تو پاکستان کی ”فیورٹ سپورٹس“ بن گئی ہے، اور ٹاک شو میں بیٹھے کچھ اور حضرات نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ تو کیا ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ سیاست دانوں کی تعریف و تحسین کا کام سنبھال لینا چاہیے۔ واہ بھئی واہ ،کیا بات ہے! کیا حکومت کی ہے! کیا کار ہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں! نہیں، بالکل نہیں۔ وہ جنھیں سیاست دانوں کو ہدفِ تنقید بنانے پر اعتراض ہے، وہ یہ بھی نہیں چاہتے۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ سیاستدانوں کی ستائش کی جائے۔

غالباً وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو جو کچھ بنا دیا گیا ہے، اس کے لیے صرف سیاست دانوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا نا چاہیے۔ اور کچھ لوگ بھی مجرم ہیں۔ وہ بیوروکریسی، عدلیہ اور فوج کا نام لیتے ہیں۔ مُلا- ملیٹری اتحاد کی بات کی جاتی ہے۔ ان میں جاگیرداروں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس بحث سے قطع نظر، ایک طعنہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ بھئی سیاست دانوں کو کوسنا اور کوچنا بہت آسان ہے، اس میں کوئی نقصان نہیں۔ ذرا فوج کی طرف بھی تو دیکھیں، انھوں نے کیا کیا ہے، کوئی ان کا نام نہیں لیتا۔ ذرا بیوروکریسی کو بھی بیچ میں لائیں نا۔

اگر ان لوگوں کے موقف کو درست انداز میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مکتبِ فکر سیاست دانوں کو تنہا مجرم نہیں سمجھتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب صرف سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ اس بات کا بُرا مناتے ہیں۔ ان کے نقطۂ نظر کے مطابق یہ بات سولہ آنے درست ہے۔ کٹہرے میں سارے مجرموں کو کیوں نہ لایا جائے؟ بس ایک مجرم کو ہر وقت ہر جگہ کٹہرے میں لا کھڑا کیے رکھنا، کہاں کا انصاف ہے۔ باقیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیوں نہ کیا جائے۔

یہاں تک تو مجھے ان سے اتفاق ہے کہ اگر کئی مجرم ہیں تو سب کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ تاہم، مجھے ان کی اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں کہ ایک نہیں بلکہ کئی مجرم ہیں۔ اسی لیے میں نے ابتدا میں ہی یہ بات صاف کر دی تھی کہ پاکستان کے اصل مجرم سیاست دان ہیں۔ اور یہ کہنے سے مقصود یہ ہے کہ پاکستان کے شہریوں کے اصل مجرم سیاست دان ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے میں یہ بات مختلف فورموں پر، اپنے مضامین، بلاگ، اور گفتگو کے ذریعے کہتا آ رہا ہوں۔ تاہم، کہیں بھی اس بات کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اور اس نقطۂ نظر کو اکثر اوقات یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ حقیقت میں یہ انداز اصل مجرم، یعنی فوج کو، جوملک میں مارشل لا مسلط کرتی رہی ہے، پاکستان کے شہریوں کے مینڈیٹ کا مذاق اڑاتی رہی ہے، پاکستان کے آئین میں غیر ضروری اور آئین کی روح کے خلاف، ترامیم کرتی رہی ہے، اور ان تمام اعمال کے ذریعے پاکستان میں قانون کے بجائے طاقت کو فاتح کا درجہ دیتی رہی ہے، ہر جرم سے بری الذمہ قرار دینے کے مترادف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خلطِ مبحث ہے۔ بات کو بلا وجہ الجھانا ہے، اور پاکستان کے شہریوں کو اصل ایشو سے بھٹکانا اور گمراہ کرنا ہے۔

میں پوری ذمہ داری سے اور سوچ سمجھ کے ساتھ یہ رائے رکھتا ہوں کہ پاکستان کے شہریوں کے اصل مجرم سیاست دان ہیں۔ جب تک اس معاملے کو درست اندازمیں سمجھ نہیں لیا جاتا، اور پاکستان آج جس حالت کو پہنچ گیا ہے، سیاست دانوں کو اس کے لیے ذمہ دار نہیں گردانا جاتا، اس وقت تک بہتری کا کوئی عمل شروع نہیں ہو سکتا۔ جب عدالت میں کوئی مقدمہ پیش ہوتا ہے تو وہاں پہلا کام ایشو طے کرنے کا ہوتا ہے؛ یعنی معاملہ کیا ہے۔ اور پھر ذمے داری کا تعین کیا جاتا ہے کہ جو دیوانی یا فوجداری جرم ہوا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے، اور پھر آخر میں سزا دینے کا مرحلہ آتا ہے۔

اس معاملے کو بھی کچھ اسی انداز میں دیکھنا ہو گا۔ معاملہ پاکستانی شہریوں کی بے مائیگی اور بے حالی ہے۔ نہ تو انھیں جان کا تحفظ حاصل ہے، نہ مال کا۔ نہ انھیں انصاف میسر ہے، نہ کوئی سماجی خدمات، جو حکومت انھیں مہیا کرنے کے دعوے کرتی ہے۔ نہ انھیں آئین میں درج بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔ ایک انتہا، کراچی ہے، جہاں مافیا راج کر رہا ہے، اور دوسری انتہا، وہ گروہ ہیں، جو آئین قانون کسی چیز کو نہیں مانتے، اور اپنا راج مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو اس حالت تک پہنچانے کا ذمے دار کون ہے۔ یہ طے ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں میری رائے بالکل صاف ہے: پاکستان کے اصل مجرم سیاست دان ہیں۔ ان معاملات پر، آئندہ کالموں میں، تفصیل سے اور دو زاویوں سے بحث کی جائے گی۔ ایک تو سیاسی اور سماجی زاویے سے؛ اور دوسرے قانونی اور آئینی زاویے سے۔

[یہ کالم 18 دسمبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں