ہفتہ، 7 ستمبر، 2013

اردو ہو گئی اور بھی آسان!

کیا پاکستان میں اردو زبان کے اور بھی آسان ہو جانے کی بات عجیب نہیں لگتی۔ کیا پاکستان میں اردو بولنے، پڑھنے، لکھنے اور چھاپنے والے ناپید ہو گئے ہیں۔ یا یہاں کسی اور ملک کے لوگ آ کر آباد ہو گئے ہیں، جو اردو سے ناواقف ہیں۔ یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں اردو بولنے والے بھی موجود ہیں، اردو پڑھنے والے بھی، اردو لکھنے والے بھی، اور اردو چھاپنے والے بھی۔ بلکہ غالباً پاکستان میں اردو زبان ’لِنگوا فرانکا‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔

سو، جب ایسے میں اردو زبان کے اور بھی آسان (ایزی) ہو جانے کی  بات کی جائے تو اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ خود پاکستان میں رہنے والوں کا ایک طبقہ ایسا ہے، جو اردو سے اتنا واقف نہیں، جتنا ہونا چاہیے۔ یہ طبقہ غالباً انگریزی زبان بولتا، انگریزی زبان پڑھتا اور انگریزی زبان لکھتا ہے۔ اس کے لیے اردو زبان اجنبی رہتی ہے۔ یا اسے اردو زبان پر خاصا یا کافی یا ضروری عبور نہیں ہوتا۔

یہ طقبہ وہی طبقہ ہے، جسے پاکستان میں اشرافیہ یا خواص کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ اردو یا کسی علاقائی زبان سے کوئی زیادہ تعلقِ خاطر نہیں رکھتا۔ انگریزی اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس طبقے کو پاکستان میں ’’لسانی اجنبی‘‘ کہنا بجا ہو گا!

یہی سبب ہے کہ ’’اوکسفرڈ پاکستان‘‘ کو اس طبقے کے لیے ایک ’’اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت‘‘ تیار کرنی اور چھاپنی پڑی تاکہ یہ اردو کو انگریزی میں سمجھ سکے۔


[یہ اشتہار کئی اخبارات میں چھپا ہے۔ یہ نقل اردو اخبار ایکسپریس سے لی گئ ہے۔] 

مجھے اس پر بس اتنا اعتراض ہے کہ جب کوئی شخص اپنی زبان کو اس لیے ترک کرتا ہے کہ وہ اسے بولنے میں خود کو کمتر، ادنیٰ، حقیر اور عام فرد محسوس کرتا ہے، اور بہ ایں سبب کوئی دوسری زبان، جیسے کہ انگریزی، کو قبول کر لیتا ہے، تاکہ وہ خود کو برتر، اعلیٰ، اور خاص ثابت کر سکے، تو معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی زبان کمتر، ادنیٰ اور حقیر نہیں ہوتی۔ نہ ہی کوئی زبان کسی فرد یا طبقے کو کمتر، ادنیٰ اور حقیر بناتی ہے۔ یہ خود طبقات کی سوچ اور ذہنیت ہے، جو انھیں کمتر، ادنیٰ اور حقیر، یا برتر، اعلیٰ اور خاص بناتی ہے۔

اور میں تو ویسے ہی شخصی آزادی کا قائل ہوں۔ زبان کے معاملے میں بھی میری رائے یہ ہے کہ ہر فرد کو کسی زبان کو قبول کرنے اور کسی زبان کو اختیار کرنےکی آزادی ہونی چاہیے۔

خصوصی نوٹ: اس پوسٹ کا مقصد ’’اوکسفرڈ پاکستان‘‘ پر حرف گیری نہیں۔ ان کے اشتہار کے استعمال پر ان کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں، اور کسی بھی ممکنہ اور متوقع اعتراض پر پیشگی معذرت بھی۔ بلاگر]  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں