میلہ لگا ہوا ہے حکومت کے نام پر
میں تیرے کام کرتا ہوں، تو میرے کام کر
تجھ کو خودی سے اور طریقے سے کام کیا
سب کچھ تو پیچ ڈال، کھرے اپنے دام کر
بیٹھا ہے تیرے سر پہ ہما، تو ہے بادشاہ
یہ عدلیہ، یہ میڈیا، ان کو غلام کر
صبح کو عہد، شام کو پامال کر اسے
پیدا نیا زمانہ، نئے صبح و شام کر
ہاں تو بھی جھول عظمیٰ وزارت کا جھولنا
جو چیختے ہیں چیخنے دے، اپنا کام کر
دنیا نے ابر و آب سے بجلی کشید کی
بجلی سے زرکشید کا تو انتظام کر
باقی ہے جو اثاثہِ قومی کی ذیل میں
نام و نشان ان کا بخوبی تمام کر
ارضِ وطن ہو، ارضِ جہاں یا ہو سنگِ جاں
تجھ کو پرائی کیا پڑی تو اپنے نام کر
تجھ کو مکاں سے اور مکیں سے شغف ہو کیا
اپنے لیے نیا کہیں پیدا مقام کر
شاہیں ہے تو عوامی بسیرے سے دور بس
پیرس میں چہل قدمی تو لنڈن قیام کر
آئین کیا بلا ہے، یہ قانون چیز کیا
اخلاقیات کو کھلے بندوں نِلام کر
جمہوریت کا جاپ کر اور آمروں سے کام
اپنا بھی کر بھلا تو برائے عوام کر
وہ ابتدا تھا عہدِ عوامی نظام کی
تو انتہائے عہدِ عوامی نظام کر
[یہ نظم 15 نومبر، 2010 کو لکھی گئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں