یہ بس اتفاق ہے کہ آج میں اپنی ایک پرانی تحریر تلاش کر رہا تھا، اور درج ذیل تبصرہ سامنے آ گیا۔ یہ میری یادداشت سے بالکل محو ہو گیا تھا۔ سابقہ انگریزی پوسٹ، جو ”پاکستان میں سازشی نظریا ت کی آفاقیت“ سے تعلق رکھتی ہے، اس میں بھی مختصراً اسی نظریے پر بات کی گئی ہے۔ اس پوسٹ میں زاہد چوہدری اور حسن جعفر زیدی کی کتاب، ”پاکستان کیسے بنا“ سے متعلق ایک تقریب اور اس میں ہونے والی گفتگو کا ذکر اور پھر مجموعی طور پر اس اندازِ فکر کے بارے میں میری رائے بھی موجود ہے۔ جیسا کہ مذکورہ پوسٹ میں بھی ذکر آیا کہ یہ کتاب کل بارہ جلدوں پر پھیلی ہوئی ہے، تو اس وقت دسمبر 2000 میں گیارہویں جلد شائع ہوئی تھی، اور یہ تبصرہ 10 دسمبر (2000) کو لاہور میں اسی جلد سے متعلق منعقد ہونے والی تقریب کے لیے لکھا گیا تھا، لیکن منتظمین کی بد انتظامی اور وقت کی کمی کے باعث پڑھا نہ جا سکا۔
پاکستان کل اور آج
پاکستان کی سیاسی تاریخ: جلد 11 - ترقی اور جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے اسلامی نظام کے نعرے، ملائیت اور فرقہ واریت کا آغاز
مصنف: زاہد چوہدری
تکمیل و ترتیب: حسن جعفر زیدی
ادارۂ مطالعۂ تاریخ، میاں چیمبرز، ٹیمپل روڈ، لاہور، 1997
فلسفۂ تاریخ کا ایک نہایت اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا تاریخ میں کوئی پلاٹ، کوئی ڈیزائین، کوئی منصوبہ کارفرما ہے یا نہیں۔ یا یہ بے معنی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ، معنویت کی حامل ہے، وہ یہ نظریہ بھی رکھتے ہیں کہ تاریخ میں ایک خاص پلاٹ، ایک خاص ڈیزائین، ایک خاص منصوبہ موجود ہے، اور تاریخ اس کے مطابق ارتقا کر رہی ہے۔ رجعت پسند اور ترقی پسند، دونوں اس نظریے سے رجوع لاتے ہیں۔ رجعت پسند کہتے ہیں کہ یہ خدا کا منصوبہ ہے، جو تاریخ میں کام کررہا ہے، جبکہ ترقی پسند تاریخ کی منصوبہ سازی کی ذمے داری خدا کے بجائے کسی اور چیز پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ ’فطرت‘ بھی ہو سکتی ہے اور’ قوانینِ فطرت‘ بھی۔ اور تاریخ کی طاقتیں، قوتیں، رجحانات، ڈیزائین، اور منصوبے بھی۔ تاریخی قوانین اور تاریخی مادیت بھی۔ مارکس ازم نے تاریخ میں کسی منصوبے یا ڈیزائین کے نظریے کو ٹھوس معاشرتی رنگ دیا اور استحصالی طبقوں کو تاریخ کا منصوبہ ساز ٹھہرایا۔ یہ استحصالی طبقے تاریخ کو اپنے مخصوص مفادات کے مطابق بناتے، بگاڑتے یا ڈائریکٹ کرتے ہیں۔
تاریخ کے اس نظریے کو نظریۂ سازش کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس کی رو سے جو بھی واقعات برپا ہوتے ہیں، ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش کارفرما ہوتی ہے۔ مختلف نظریات کے حامل گروہ اور افراد سازش کرنے والی قوت کا انتخاب اپنی پسند، یا ناپسند کے مطابق کرتے ہیں۔ رجعت پسند اور ترقی پسند دونوں گروہ یکساں انداز میں تمام واقعات کو کسی نہ کسی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح ہر واقعے کی آسان اور مکمل توجہیہ ممکن ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ابتدا سے ہی یہ نظریۂ سازش اپنا لیا گیا تھا اور اندرونی و بیرونی تمام واقعات کی توجیہہ ایک طرف پاکستان اور اسلام کے خلاف سازش اور دوسری طرف ترقی، جمہوریت اور سیکولرازم کے خلاف سازش کے حوالے سے کی جانے لگی تھی۔ یہ روش آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔
ہماری تاریخ نگاری میں بھی یہی نظریہ کارفرما ہے۔ پاکستان انگریزوں نے بنایا، ہندوؤں نے بنایا، وغیرہ، وغیرہ۔ موجودہ کتاب بھی اسی نظریے کے تحت لکھی گئی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ ترقی اور جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے کس طرح ایک سازش کے تحت اسلامی نظام کے نعرے، ملائیت اور فرقہ واریت کا آغاز کیا گیا۔ یہ سازش اسلام پسندوں نے استحصالی طبقات کے تعاون سے تیار کی۔ اس میں اسلام پسند پاکستانی عوام کا کوئی کردار نہیں۔
کیا حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ اس کا جواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اگر ”راولپنڈی سازش“ کامیاب ہو جاتی تو ”راولپنڈی سازش کیس“ یقینا نہ بنتا۔ مراد یہ ہے کہ سازشیں ناکام بھی ہو جاتی ہیں۔ وسیع معاشرتی سطح پر ایک منصوبہ بند سازش کی کامیابی قریب قریب ناممکن ہے۔ اگر ایسی کوئی سازش کامیاب ہو بھی جائے (مثلاً 1917 کا روسی انقلاب) تو اس کے متعینہ مقاصد اور مطلوبہ نتائج کا حصول ناممکن رہتا ہے۔ جیسا کہ ترقی اور جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے اسلام پسندوں اور استحصالی طبقات کی سازش کے ”کامیاب“ ہونے کے باوجود آج تک ”اسلامی نظام“ نافذ نہیں ہوسکا، یا پاکستان اسلامی فلاحی مملکت نہیں بن سکا!
وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں افراد کے علاوہ بہت سی قوتیں، طبقات، نظریات، رجحانات، تصورات، عوامل، وغیرہ، برسرِ عمل اور برسرِ پیکار ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں بھی کی جاتی ہیں۔ سازشوں پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ سازش کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ سازشیں تاریخ کا حصہ ہیں، تاریخ کے اس عمل کو کسی سازش کا نتیجہ قراردینا تاریخ کو سمجھنے اوربیان کرنے کا نہایت آسان اور زودفہم نسخہ ہے۔ تاریخ کو اس اندازمیں سمجھنے اور بیان کرنے والا خود کو تاریخ کے عمل سے تفریق کرلیتا ہے، اور مظلوم بن کر پیش ہوتا ہے۔ سیکولر، ترقی پسند اور کمیونسٹ گروہوں کو اس کتاب میں اسی انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ جیسے انھیں کسی سازش کے تحت پسپا کردیا گیا اور یوں ترقی اورجہوریت کا راستہ روک دیا گیا۔ جبکہ ترقی اورجمہوریت کی پسپائی کو ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کی کمزوری سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔
ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ تاریخ بے معنی ہے۔ اس میں کوئی پلاٹ، ڈیزائین یا سازش کارفرما نہیں۔ یہ خود انسان ہیں، جو اسے کوئی معنی دیتے ہیں۔ یہ انسانوں کی باہمی کشمکش اور ایک اجنبی کائنات میں ان کی بقا کی جنگ سے عبارت ہے۔ اس مفہوم میں تاریخ کا کوئی وحدت پسندانہ نقطۂ نظر ممکن نہیں۔ اور یوں کوئی آفاقی اور انسانی تاریخ، یا مکمل اورفیصلہ کن تاریخ بھی ممکن نہیں۔ انسانی زندگی کی لاتعداد جہات ہیں، اور اس طرح لاتعداد تاریخیں بھی۔ مراد یہ کہ تاریخ کے بارے میں کثرتیتی نقطۂ نظر کو ایک معقول نقطۂ نظر کہا جا سکتا ہے۔
’پاکستان کی سیاسی تاریخ : جلد 11‘ میں تاریخ کے ماخذات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ سات عدد انگریزی کتب استعمال کی گئی ہیں، جن میں سے صرف ایک کتاب بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ ہے، لیاقت علی خان کی تقاریر اور بیانات کا مجموعہ۔ دس عدد اردو کتب سے کام لیا گیا ہے، جن میں سے نو عدد مولانا مودودی کی تصنیف ہیں۔ انگریزی دستاویزات و سرکاری مطبوعات کی تعداد چار ہے اور یہ بنیادی ماخذ قرار پاتی ہیں۔ ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کے علاوہ چارعدد انگریزی اور پانچ عدد اردو اخبارات و جرائد کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مجموعی جائزہ لیا جائے تو کل 489 حوالہ جات میں سے 407 حوالے اخبارات پر مبنی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض اخبارات میں شائع ہونے والے بیانات، مدیر کے نام مراسلات اور چند دوسرے متفرق مضامین کی مدد سے تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے! بہرحال یہ کام کردیا گیا ہے اور اس طرح جو تاریخ سامنے آتی ہے، اسے ”پاکستان کی سیاسی تاریخ، اخبارات کے آئینے میں“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔
مصنف کے اندازِ تحریر کے بارے میں بھی کچھ کہنا ضروری ہے۔ یہ منطقی ربط سے عاری، منتشر اور صحافیانہ ہے ۔ بسا اوقات یوں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے نفرت اور تعصب کے جوش میں شائستگی اور تہذیب کا دامن بھی چھوڑ دیا ہے اور دشنام طرازی و گالم گلوچ کا کوڑا تھا م لیا ہے۔ مثلاً منافقت اور مکاری پر مبنی اداریہ؛ بددیانت؛ موقع پرست؛ منافق؛ دروغ گ؛ شقی القلب؛ رشوت خور؛ خویش پرورآدمی؛ کم علم، کم نظر، کم سواد مُلّا؛ دقیانوسی مُلا۔ خود ”مُلا“ کی اصطلاح کا انتخاب واستعمال، منفی تلازمات کی بنا پر مصنف کے دل کے معاملے کو کھول دیتا ہے ۔ قائدِ اعظم کو بخش کر تمام شخصیات کا ذکر ”وہ یہ کہتا تھا، اس نے یہ کیا“ کے اندازمیں کیا گیا ہے۔ یہ کتاب کی نمایاں کمزوریاں ہیں اور اس تاریخ کو ایک ”جوابی الزامی دشنامی تاریخ“ بنا دیتی ہیں۔
کتاب میں پاکستان کو اسلامی یا سیکولر مملکت بنائے جانے کے ضمن میں قائدِ اعظم کی 11 اگست، 1947 کی تقریر پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس تقریر سے پہلے اور اس تقریر کے بعد کی گئی قائدِ اعظم کی تقاریر اوربیانات میں دونوں قسم کے اشارے وافر موجود ہیں۔ سویہ معاملہ ہمیشہ متنازعہ بنا رہے گا کہ قائدِ اعظم، پاکستان کو کیسی مملکت بنانا چاہتے تھے۔ کیا اس تنازعے سے دامن بچا کر آزادانہ اور ٹھوس انداز میں یہ معاملہ نہیں اٹھایا جا سکتا کہ پاکستان کو کیسی ریاست ہونا چاہیے!
مصنف نے 473 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتا ب میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے اسلام پسندوں نے استحصالی طبقات کے ساتھ مل کر ترقی اور جمہوریت کا راستہ کس طرح روکا۔ یہ بات کتاب کے عنوان سے بھی عیاں ہے۔ بین السطور بھی کتاب کا نتیجہ، سبق اور پیغام یہ ہے کہ ترقی اور جمہوریت کی راہ میں اصل رکاوٹ پاکستان کے (نام نہاد) اسلام پسند ہیں؛ لہٰذا، ان کے خلاف جدو جہد کرنی چاہیے۔ 1947 سے 1951 تک کے عرصے کے لیے یہ بات شاید صحیح ہو (یہ کتاب اسی مدت کا احاطہ کرتی ہے) کیونکہ اس دوران ابھی پاکستان کی ایک منظم اور مسلح قوت سرِ عام سرگرم نہیں ہوئی تھی؛ گرچہ ”راولپنڈی سازش“ کا واقعہ پیش آ گیا تھا۔ لیکن تب سے آج تک پاکستان میں ترقی اور جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی قوت ہے۔ گو کہ رجعت پسندوں نے پاکستانی معاشرے کو ایک انارکسٹ معاشرہ بنانے میں بلاشبہ بہت اہم رول اد ا کیا ہے، لیکن یہ تنہا مجر م نہیں!
[یہ جائزہ 10-9 دسمبر، 2000 کو تحریر ہوا، اور یہاں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں