ہفتہ، 7 ستمبر، 2013

نجی سکو ل اور تعلیم کا تقد س

نوٹ: یہ کالم "نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ" کے سلسلے کا دوسرا کالم ہے۔

جیسا کہ گذشتہ کالم، ”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“ میں ذکر ہوا کہ زر کی آمد کے ساتھ، جب کاروبار میں آسانی پیدا ہوئی تو دوسری اشیا وخدمات کے علاوہ، تعلیمی خدمات کی خرید و فروخت کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اس کالم میں یہ بحث کرنا مقصود ہے کہ اب جب تعلیم کاروبار بن گئی تو کیا یہ مقدس نہ رہی! اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ جب تعلیمی خدمات کا معاوضہ، جنس کی صورت میں دیا جاتا تھا تو کیا تعلیم، کاروبار نہ تھی۔ صاف بات ہے کہ یہ اس وقت بھی کاروبار تھی۔ جو بھی شخص یہ خدمت انجام دیتا تھا، اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے معاوضے کے طور پر اناج، وغیرہ، مہیا کیا جاتا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تعلیمی خدمات کا معاوضہ ”زر“ کی صورت میں دیا جانے لگا، تو تعلیم پہلی دفعہ کاروبار نہیں بنی۔ تعلیم تو پہلے ہی کاروبار تھی، بس اب یہ ہوا کہ اس کا معاوضہ زر کی صورت میں دیا جانے لگا۔ اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اعتراض کچھ اور ہے، جسے اس بات میں چھپایا جا رہا ہے کہ تعلیم کو کاروبار بنا کر اسے اس کے درجے سے گرا دیا گیا۔ یہ اعتراض وہی ہے، جس کا ذکر گذشتہ کالم ( ”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“) میں ہوا کہ زر کے ورود سے ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا، جس کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ یہ پرانے زمینداری، زرعی اور کاشتکاری معاشرے سے کلیتاً مختلف تھا۔ مختلف اس طرح کہ اس نے فرد کو آزاد ی سے ہمکنار کیا۔ اب فرد، اجتماعیت پسند معاشرے کا غلام نہ رہا۔

فرد کو ملنے والی یہی آزادی، پرانے معاشرے کے ساتھ طبعی یا ذہنی و فکری طور پر جڑے ہوئے لوگوں کو ایک آنکھ نہ بھائی، اورنہ اب بھاتی ہے۔ اس کی مثال وہ بڑے زمیندار اور جاگیردار، قبائلی سردار، اور ان کے علاوہ وہ تمام کاروباری لوگ بھی ہیں، جو مزارعوں، کھیت مزدوروں، اور بے مایہ ملازموں، اور محنت کرنے والوں کو نہ صرف اپنا غلام تصور کرتے ہیں، بلکہ عملاً ان سے غلاموں، اور کہیں کہیں غلاموں سے بھی بد تر سلوک کرتے ہیں؛ جبکہ آج کا پاکستان، آئینی طور پرایک جمہوری پارلیمانی ریاست ہے، جو اپنے شہریوں کو آئین میں یقینی بنائے گئے بنیادی حقوق کا تحفظ دینے کی پابند ہے۔

معاشرے کی اس قلبِ ماہیت نے نہ صرف فرد کو، پرانے اجتماعیت پسند نظام سے آزاد کر دیا، بلکہ اسے آگے بڑھنے کے لیے تحریکات اور مواقع بھی مہیا کیے۔ یوں وہ اپنی متعدد خواہشات کی تکمیل بھی کر سکتا تھا، اوراپنی بیشترصلاحیتوں اور امکانات کو بھی آزما سکتا، اور بروئے کاربھی لا سکتا تھا۔ پرانا زمینداری، زرعی اور کاشتکاری معاشرہ، ایک فرد دشمن، اجتماعیت پسند اور آہستہ رو، اور جمود میں کھویا ہوا، اور خوابیدہ معاشرہ تھا۔ نیا زری معاشرہ، آزاد فرد کو اہمیت دینے والا، تیزرو، حرکی، اور جاگتا ہوا معاشرہ ہے۔ یہاں اس فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک ایسی مثال کو پیش کیا جاتا ہے، جواس کالم سے مناسبت رکھتی ہے۔

تعلیم کو ”تین آرز“ پر مشتمل قرار دیا جاتا ہے۔ ایک تو ریڈنگ، یعنی پڑھنا۔ دوسرے رائیٹنگ، یعنی لکھنا۔ اور تیسرے، رِتھ میٹک، یعنی حساب۔ واضح رہے کہ رائیٹنگ اور رِتھ میٹک کے آرز کو سامنے رکھا گیا ہے، وگرنہ تو ایک ، ”ڈبلیو“؛ اور دوسرا، ”اے“ سے شروع ہوتا ہے۔ زرعی معاشرے میں بھی تعلیم بنیادی طور پر انھیں مہارتوں کے سکھانے کا نام تھی۔ ایک اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ زرعی معاشرے میں تعلیم، عام نہ تھی۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، اور اس معاشرے کی حقیقت بھی یہی تھی کہ تعلیم ہر ”ایرے غیرے“ کی رسائی میں نہیں ہونی چاہیے۔ یہ نہیں تھا کہ اس معاشرے کے فرد کے لیے تعلیم ضروری نہ تھی، بلکہ دیکھا جائے تو جو فرد کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیتا تھا، وہ معاشرہ اسے اپنی مرضی سے استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ زمیندار یا ساہوکار کے لیے پڑھے لکھے شخص کا استحصال کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ مگر بالعموم، عام لوگ یہی سمجھتے تھے، جیسا کہ انھیں بتایا بھی جاتا تھا، کہ انھیں تعلیم کی ضرورت نہیں۔

جہاں تک پڑھنے لکھنے کی بات ہے تو یہ معمولی چیزیں نہیں۔ اکثر ان کی اہمیت کا احساس نہیں کیا جاتا، پر یہ ایسی مہارتیں ہیں، جو نہ صرف فرد کو، بلکہ اپنے اندر پوری سوسائیٹی کو تبدیل کرنے کا مادہ رکھتی ہیں۔ جب کوئی فرد پڑھنا سیکھ لیتا ہے، تو اصل میں اسے ایک آزادی مل جاتی ہے کہ وہ جو کچھ پڑھنا چاہے، پڑھے۔ اسی طرح، جب کوئی فرد لکھنا سیکھ لیتا ہے تو اسے یہ آزادی مل جاتی ہے کہ وہ جو چاہے، لکھے۔ اب دیکھیے یہ دونوں باتیں کتنی ”خطرنا ک“ ہیں۔ یوں، تعلیم کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہر فرد جو، پڑھنا لکھنا سیکھ لے، اسے پڑھنے لکھنے کی مکمل آزادی مل گئی۔ وہ جو کچھ پڑھتا پھرے، اور جو کچھ لکھتا پھرے۔

پرانے زرعی معاشرے کو سامنے رکھ کر سوچیں تو اس معاشرے اور اس کے محافظوں کے نزدیک یہ کتنی منفی اور خطرناک بات تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس معاشرے میں تعلیم عام نہ تھی۔ پھر یہ بھی کہ ایسے حالات اور چیزیں موجود نہ تھیں، جو اسے عام کرنے میں آسانی پیدا کر سکتیں۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیم کو مقدس بنا کر پیش کیا گیا، اور اسے کچھ مخصوص طبقات تک محدود رکھا گیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ مقدس چیز، عام نہیں ہوتی۔ یہ چند لوگوں کے پاس ہی ہو سکتی ہے۔ اور اس پرانے معاشرے میں تعلیم، کافی حد تک اشرافی طبقات کے دائرے میں قید تھی۔ اسے عام کرنے کے خلاف، متعدد و مختلف تصورات اور تعصبات موجود تھے۔ جیسے کہ یہی کہ تعلیم، مقدس چیز ہے۔ زری معاشرے اور تعلیمی کاروبار نے، یا یوں کہہ لیجیے کہ نجی سکولوں نے تعلیم کو اس قید سے آزاد کر دیا، اور کر رہے ہیں۔ تعلیم کی آزاد ی دراصل فرد کی آزادی تھی، اور ہے؛ ایک پہلے بنیادی قدم کی حیثیت سے۔

صرف یہی نہیں، خود عام لوگ بھی ایسا ہی سمجھتے تھے کہ تعلیم ایک خطرناک آزادی ہے۔ بالخصوص عورتوں کی تعلیم کے ضمن میں تو شدید مزاحمت موجود تھی۔ حتیٰ کہ سرسید بھی عورتوں کی تعلیم کے حق میں نہ تھے۔ مجھے ایک ایسا واقعہ سننے کو ملا ہے، جو عورتوں کی تعلیم، اور اس سے جڑی مزاحمت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ کوئی 1982 کی بات ہے۔ میں ایک دوست کے گھر جاتا تو ان کی نانی ماں سے خوب گفتگو ہوتی۔ وہ اس وقت 80 کے پیٹے میں ہوں گی۔ ایک مرتبہ انھوں نے بتایا کہ وہ چھوٹی تھیں تو ان کے گھر میں تعلیم کی سخت ممانعت تھی۔ یہاں تک کہ گھر میں کتاب، یا لکھا ہوا لفظ نظر نہیں آ سکتا تھا۔ مگر انھیں پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے ہمسائے میں ایک پڑھی لکھی خاتون رہتی تھیں، اور جب والد گھر پر موجود نہ ہوتے، وہ ان کے پاس جاتیں، اور پڑھنا لکھنا سیکھتیں۔ گھر آ کر، اس کی مشق، زمین پر لکھ کر کرتیں، اور مٹا دیتیں۔ یوں انھوں نے پڑھنا لکھنا سیکھا۔

سو، تعلیم کا یہ تقدس اصل میں زمیندارانہ اشرافی (قبائلی) معاشرے کو تبدیلی سے دور رکھنے کا ایک اہم نسخہ تھا۔ اسی لیے اسے مقدس بنا دیا گیا، اور اس کے تقدس کے ساتھ یہ چیز بھی جوڑ دی گئی کہ تعلیم کو کاروبار بنانے کا مطلب، اسے اس کے مقدس درجے سے گرانا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ کالم (”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“) میں بھی ذکر ہوا کہ خود کاروبار کے خلاف تعصبات اسی زمیندارانہ اشرافی معاشرے نے کھڑے کیے تھے، اور جب زر نے اس معاشرے کی چولیں ہلا ڈالیں تو یہ نعرہ وضع ہوا کہ تعلیم کو کاروبار بنانا، اس کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔ جبکہ اصل نکتہ یہ تھا کہ تعلیم عام ہونے سے لوگوں کو لکھنے پڑھنے کی آزادی، علم حاصل کرنے کی آزادی مل رہی تھی، اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے اور اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی آزادی مل رہی تھی۔

مختصر یہ کہ تعلیم کے اشرافی تقدس سے جڑے تعصب کے پیچھے تعلیم اور کاروبار دونوں کے خلاف ایک مخصوص اشرافی سوچ موجود ہے۔ یہ سوچ تعلیم کے ساتھ ساتھ، کاروبار، یعنی زر پر مبنی کاروبار کو بھی غلط قرار دیتی ہے۔ اور تعلیمی خدمات کی خرید و فروخت کو تعلیم دشمنی گردانتی ہے۔ یہی سوچ، نجی سکول، جو تعلیم کو عام کرنے، یعنی فرد کی آزادی کو کاروباری انداز میں عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ان کی اس کوشش کو سراہنے کے بجائے، انھیں ان تعصبات کا نشانہ بنا رہی ہے۔ آئندہ کالم میں ”تعلیم اورکاروبار“ سے متعلق تعصبات پر بحث جاری رہے گی۔


[یہ کالم یکم جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں