ہفتہ، 7 ستمبر، 2013

نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ ـ نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت

پاکستان میں ریاست اور حکومتوں کی ناکامی ہمہ گیر ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس ناکامی سے مستثنیٰ نہیں۔ کہنے کو ایک خود رو انداز میں سرکاری سکول اور کالج ویران ہوتے گئے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست اور حکومتوں کی مجرمانہ بے توجہی کا نتیجہ تھا، جس نے سرکاری تعلیم پر شہریوں کے اعتماد کو بتدریج زائل کیا۔ اس میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے تحت نجی تعلیمی اداروں کی نیشنالائزیشن نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

اس خلا کو ایک خود رو انداز میں ہی نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں نے پورا کیا۔

پھر وہی ہوا، جو ہوتا ہے!

ہر تخلیق ایک نجی تخلیق ہوتی ہے، اور اس کے وجود میں آنے کے بعد، ریاست اور حکومتیں اسے ریگولیٹ کرنے اور اس سے ٹیکس نچوڑنے کے لیے آ موجود ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جب نجی سکولوں نے تعلیمی خمدمات مہیا کرنا شروع کر دیں تو یہ شور پڑا کہ انھیں ریگولیٹ کرنا چاہیے۔

نجی سکولوں کو ریگولیٹ کرنے کی بات میں کچھ وزن بھی ہے۔ یقیناً ان سکولوں میں طلبہ، اور اس طرح والدین، اور پھر اساتذہ کا استحصال ہو رہا ہے۔ اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔

تاہم، ریگولیشن کے حوالے سے، خود حکومت میں شامل لوگوں اور ان لوگوں کی سوچ، جو حکومت کے فکری ٹھیکیداروں کا کردار ادا کرتے ہیں، کچھ اور ہے۔ وہ تو ایک طرح سے نجی سکولوں اور کالجوں پر حکومت کا قبضہ قائم کروانا چاہتے ہیں۔ جبکہ ریگولیشن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے۔

خیبر پختونخوا حکومت بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے درپے ہے۔ اس بِل کے خلاف نجی تعلیمی اداروں نے شدید ردِ عمل کا اظہار بھی کیا ہے۔ خود میں بھی اس ایشو میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ لہٰذا، میں نے اس معاملے پر وسیع تر تناظر کو سامنے رکھ کر لکھنا شروع کیا ہے۔ اس سلسلے کے تین کالم چھپ چکے ہیں۔ مزید کالم ابھی لکھے جانے ہیں۔ ارادہ یہ ہے کہ اس معاملے کو سیر حاصل انداز میں پیش کیا جائے۔

جیسا کہ میں پشاور (خیبر پختونخوا) سے شائع ہونے والے اخبار ’’مشرق‘‘ میں باقاعدگی سے کالم لکھتا ہوں، یہ کالم وہیں شائع ہو رہے ہیں۔  

اس سلسلے کا پہلا کالم ذیل میں درج کیا جاتا ہے:    

نجی سکو ل اور خیبر پختونخوا حکومت

دسمبر کے اوائل میں ایک خبر کی چنگاری پورے ملک کے اخبارات میں چمکی۔ اس خبر کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔ تاہم، حیرانی کی بات یہ تھی کہ دہشت گردوں کی قتل و غارت گری کے بجائے، اس کا فوکس، نجی تعلیم اور حکومت کے مابین کشاکش پر تھا، جس کے نتیجے میں صوبے بھر کے بیشتر سے زیادہ نجی تعلیمی ادارے احتجاجاً بند کر دیے گئے تھے۔ اس خبر کے مطابق ”آل پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا“ نے خیبر پختونخوا حکومت کے ”پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھاریٹی بِل“ کو مسترد کر دیا تھا، اور تمام نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے عمل کو روک دیا تھا؛ گو کہ اسے جلد ہی بحال بھی کر دیا گیا۔

خیبر پختونخوا حکومت کا یہ دھاوا، ناگہانی نہیں تھا۔ اس کے پیچھے ایک کہانی موجود ہے، اور اس کہانی کے پیچھے نجی کاروبار اور تعلیم سے متعلق کچھ تعصبات موجود ہیں۔ یہ کہانی کسی آئندہ کالم میں بیان ہو گی۔ اس سے پہلے ان پیوستہ تعصبات کا کچھ ذکر ضروری ہے۔ اور ان تعصبات پر توجہ دینے کے بعد، کچھ ذکر ”پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھاریٹی بِل“ کا بھی ہو گا۔ یہ بِل اس سیاق و سباق کو واضح کرتا ہے، جس میں یہ متذکرہ کہانی، خیبر پختونخوا حکومت کا یہ دھاوا، اور یہ تعصبات اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔

حکومت تو حکومت ہوتی ہے، جو یہ سمجھتی ہے کہ اسے ہر وہ کام کرنے کا حق حاصل ہے، جو حکومت میں موجود کسی بھی شخص کے ذہن میں وارد ہو جائے۔ اور جو لوگ، حکومت میں گھُس بیٹھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے انھیں عقلِ کل عطا کی ہے، اوروہ بے عقل رعیت پر حاکم بنا کر بھیجے گئے ہیں؛ لہٰذا، وہ جو چاہیں کرنے میں آزاد ہیں۔ یہ سوچ کیا گُل کھلاتی ہے، خیبر پختونخواہ حکومت کا یہ”پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھاریٹی بِل“ اس کا بہترین نمونہ ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ کوشش کے باوجود، مجھے اس بِل کا متن دستیاب نہیں ہو سکا، اورا س حوالے سے جو کچھ بحث کی جائے گی، اس کا انحصار اخبارات میں شائع ہونے والی معلومات پر ہو گا۔

سو، فی الحال، حکومت کو علاحدہ رکھتے ہیں، اور یہ دیکھتے ہیں کہ کاروبار اور تعلیم سے متعلق کیا کیا تصورات، یا تعصبات عام ہیں۔ کاروبار سے متعلق بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ غلط چیزہے؛ اس کا دیانت داری سے کوئی ربط نہیں؛ اور یہ کہ تمام کاروبار، بددیانتی پر مبنی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ، یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ نفع ایک ناپسندیدہ چیز ہے۔ نفعے کے حوالے سے ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ کتنا نفع کمانا جائز ہے، اور اس کا تعین کون کرے گا۔ اس ضمن میں یہ خیال عام ہے کہ جائز نفعے کی شرح طے کرنے کا حق کاروبار کرنے والے شخص کو نہیں، بلکہ حکومت کو ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمیشہ حکومت پر یہ زور ڈالا جاتا ہے کہ وہ اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرے۔ اس کے پیچھے یہی جائز منافعے کا ناجائز تصور موجود ہے۔ حکومت کو تو ایسے کام اللہ دے، اور حکومت لے۔

تفصیلات میں جائے بغیر، اس ضمن میں مختصراً ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تصورات، یا تعصبات، زمینداری، زرعی اور کاشتکاری معاشرے سے یادگار ہیں، اور کاروبار کے خلاف زمیندار اور کاشتکار کے تعصبات کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ واضح ہے کہ اس زمینداری زرعی معاشرے میں جو بھی اور جتنی بھی تعلیم دستیاب تھی، اور اس کے لیے جو استاد اور معلم دستیاب تھا، اس کی ضروریات کی تکمیل کے لیے، یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کی خدمات کے معاوضے کے طور پر ادائیگی، جنس کی صورت میں کی جاتی تھی، جس میں گندم اور دوسرے اناج اور اشیا شامل ہوتی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ابھی اس معاشرے میں ”زر“ قریب قریب نایاب یا کمیاب تھا۔ اور صرف استاد ہی نہیں، دوسرے تمام لوگ، جو مختلف خدمات مہیا کرتے تھے، جیسے کہ جولاہا، بڑھئی، موچی، لوہار، وغیرہ، ان سب کو بھی ان کی خدمات کا معاوضہ، جنس کی صورت میں ملتا تھا۔ یوں یہ سب لوگ اس معاشرے (یعنی گاؤں) کے ساتھ ایک محتاجانہ رشتے میں جڑے ہوئے تھے، اور کسی بھی صورت میں، چاہتے ہوئے بھی، اس سے علاحدہ نہیں ہو سکتے تھے۔

زر کی آمد نے ایک انقلاب برپا کر دیا، اور اس معاشرے کے ہر فرد کو آزادی سے ہمکنار کر دیا۔ ہوا یہ کہ جب اس کی خدمات کی ادائیگی، زر کی صورت میں ہونے لگی تو وہ اس معاشرے سے ناقابلِ علاحدہ طور پر جڑا نہ رہا۔ اب وہ اس معاشرے (گاؤں) کو چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتا تھا، اور اس زر کی مدد سے کوئی بھی شے خرید سکتا تھا۔ ایچ- جی- ویلز نے اپنی کتاب ”اے شارٹ ہِسٹری آف دا ورلڈ“ میں ایک جملے میں اس انقلاب کی حقیقت کویوں بیان کیا ہے: ’جب زر کا ورود ہوا، غلامی زوال پذیر ہو گئی۔‘ سو، اب تعلیمی خدمت انجام دینے والا استاد (یا مولوی) بھی آزاد تھا۔ وہ اس زمینداری زرعی معاشرے کا غلام نہ رہا۔ وہ اپنی خدمت کو کہیں بھی جا کر بیچ سکتا تھا۔ اور دیکھا جائے تو یہ زر ہی تھا، جس نے کاروبار کی بڑھوتری اور ترقی کو مہمیز کیا۔ بلکہ زر کو کاروبار کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ زر نے ہر قسم کے لین دین کو آسان ہی نہیں تیزتر بھی بنا دیا ۔

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ”زرعی کاروبار“ کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ”زری کاروبار“ کی لہروں نے ہلچل پیدا کر دی۔ ایک نیا معاشرہ جنم لینے لگا۔ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا (ہے)، جو فرد کی آزادی کو ممکن بناتا تھا، اور اسے ایک محدود اور قلیل آبادی کے بجائے وسیع تر شہر، ملک، اور دنیا سے جوڑتا تھا۔ زری کاروبار نے ہر ایک کے لیے ہر جگہ جا کر ہر قسم کا کاروبار کرنا آسان بنا دیا۔ یہ یہی پس منظر ہے، جس میں کاروبار اور تعلیم کے خلاف عام اور خاص ذہنوں میں پیوستہ تصورات اور تعصبات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ پس منظر ان تصورات اور تعصبات کی توجیہہ بھی کرتا ہے۔

ان تعصبات میں سے ایک تعصب پر توجہ دیتے ہیں۔ عام لوگوں کے علاوہ، اساتذہ کے ذہنوں میں بھی یہ تصور پیوست ہے کہ تعلیم ایک مقدس چیز ہے، اور اسے کاروبار بنا کر اس کے درجے سے گرا دیا گیا ہے، یا گرایا جا رہا ہے۔ جس کالج اور یونیوسیٹی میں، میں تدریس سے وابستہ تھا، وہاں کے اساتذہ بھی اکثر نہایت افسوس کے ساتھ یہ گِریہ کیا کرتے تھے کہ دیکھیں تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ میں ان سے صرف ایک درخواست کرتا تھا کہ وہ تنخواہ لینا چھوڑ دیں، اور تعلیم کو کاروبار نہ بننے دیں۔ اس پر وہ چپ ہو جاتے تھے۔

جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہوا، جو شخص بھی تعلیم دینے کی خدمت انجا م دیتا ہے، وہ بھی گوشت پوست کا زندہ انسان ہے۔ اس کی وہی ضروریات ہیں، جو دوسرے انسانوں کی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اس کی وہ ضروریات کیسے پوری ہوں۔ زمینداری زرعی معاشرے میں، جو ”استاد“ تھا، وہ کوئی جِن یا روبوٹ نہیں تھا۔ اس کی بھی ضروریات تھیں، اور اس کی ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، وہ معاشرہ اسے جنس کی صورت میں ادائیگی کرتا تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب، ”برصغیر کے مسلمانوں کا نظامِ تعلیم وتربیت“ دیکھیے، اس میں بتایا گیا ہے کہ پہلے کے طلبہ کس طرح مساجد اور حجروں میں رہتے تھے، اور وہیں تعلیم حاصل کرتے تھے، اور پھر شام کے وقت کس طرح گھر گھر جاکر اساتذہ کے ساتھ ساتھ اپنے لیے بھی خوراک اکٹھی کر تے تھے۔ اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ لوگ مساجد میں وہاں سکونت پذیر طلبہ اور اساتذہ کے لیے خود کھانا، وغیرہ، بھیجا کر تے تھے۔ یا ایک انتظام یہ بھی رہا ہے کہ امرا، اساتذہ کو وظیفہ دیا کرتے تھے۔ یہ ان اساتذہ (اور طلبہ) کی ضروریات پوری کرنے کا ایک انداز تھا۔

زر کی آمد کے بعد استاد کو یہ ادائیگی زرکی صورت میں ہونے لگی۔ یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسا اینٹرپرائزنگ شخص ضرور ہو گا، جس نے پہلے پہل تدریسی خدمات انجام دینے کا کام باقاعدہ شروع کیا ہو گا، اوراس مقصد کے لیے اساتذہ ملازم رکھے ہوں گے، اور انھیں ان کی خدمات کا عوضانہ، زری معاوضے کی صورت میں دیتا ہوگا، اور اس کاروبار میں سے اپنا منافع وضع کرتا ہوگا۔ اس طرح، تعلیمی خدمات کی خرید و فروخت کے کاروبار کی ابتدا ہوئی ہو گی۔ اور تعلیم کاروبار بن گئی ہوگی!

[یہ کالم 29 دسمبر، 2012 کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں