جمعہ، 6 ستمبر، 2013

جدید ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول

گذشتہ کالم، ”قدیم ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول“ میں یہ بحث کی گئی تھی کہ جدید ریاست کوئی خلا سے نازل نہیں ہوگئی، بلکہ اس کے بنیادی خطوط اسی قدیم ریاست کے دوران تشکیل پانا شروع ہوگئے تھے۔ کاروبارِ مملکت کو موثرانداز میں چلانے کے لیے مطلق العنان حکمرانوں کو بھی قانو ن اور قواعد وضوابط وضع کرنے پڑتے تھے، اور جب یہ قاعدے قانون ایک مرتبہ وضع ہو جاتے تو انھیں ختم کرنا یا تبدیل کرنا، محض بادشاہ کی خواہش اور مرضی پر منحصر نہیں رہتا تھا۔ یہی چیز تھی، جس نے قانون کی بالادستی کی بنیاد رکھی۔ رفتہ رفتہ قانون کی بالادستی، ریاست کا خاصہ بن گئی ۔

اس کی بڑی مثال انگلستان کی ریاست ہے، جہاں اول اول قانون کی بالادستی کے اصول کا اثبات ہوا۔ یہ تیرہویں صدی کے اوائل (1915) کی بات ہے کہ فیوڈل لارڈز نے کِنگ جان اور اس کے بھائی رچرڈ اول کی متعدد پالیسیوں کے خلاف بغاوت کی۔ بعد ازاں، ان کے مابین جو امن معاہدہ طے پایا، وہ ”میگنا کارٹا“ یا ”عظیم چارٹر“ کہلاتا ہے۔ ایسے معاہدے پہلے بھی وضع ہوئے تھے، لیکن اس چارٹر کی خصوصیت اس کی عمومیت تھی۔ اس میں مخصوص تنازعات کے تصفیے کے علاوہ کچھ عمومی اصول بھی فیصل ہوئے۔ میگنا کارٹا کی دفعات اسی اصول کی توثیق کرتی ہیں کہ قانون کو بالادست ہونا چاہیے، بادشاہ (حکمران) کی خواہش اور مرضی کو نہیں۔

اس چارٹر کی کچھ دفعات، شاہی اختیارات کو محدود کرتی ہیں، جیسے کہ ٹیکس عائد کرنے کا اختیار، اور یہ اصول طے کرتی ہیں کہ بادشاہ اپنے اختیارات، مسلمہ قوانین کے تحت استعمال کرنے کا پابند ہوگا۔ اس میں شاہی عمال کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ ادائیگی کیے بغیر وہ کوئی منقولہ اشیا نہیں لے سکیں گے۔ پھر یہ کہ سزا، جرم کے تناسب سے دی جائے گی، اور سزا کے طور پر کسی کے روزی کے ذرائع کو ضبط نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت کے لحاظ سے بھی اور بعد کے زمانوں کے اعتبار سے بھی، اس چارٹر کی دفعات 39 اور 40 نہایت اہم ہیں۔ یہ دفعات کہتی ہیں: کسی آزاد فرد کو گرفتار، یا قید، یا جائیداد سے محروم، یا مفرور، یا جلاوطن نہیں کیا جائے گا، یا کسی بھی انداز میں اس کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی؛ اور اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا، تاآنکہ ملک کا قانون اس کی اجازت نہ دیتا ہو۔ مزید یہ کہ کسی کو اس کے حق اور انصاف سے محروم نہیں کیا جائے گا، نہ ہی اس کا حق اور انصاف، اسے بیچا جائے گا، نہ ہی ان کی دستیابی میں تاخیر کی جائے گی۔ یہ تمام چیزیں وہی ہیں، جنھیں آج ”قانون کے مسلمہ طریقِ کار“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

میگنا کارٹا کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے شاہی اختیار کو محدود کرنے کے لیے یہ اصول قائم کیا کہ اختیار کے لیے ضروری ہے کہ اسے منضبط انداز اور قاعدے قرینے سے مروجہ قوانین کے تحت استعمال کیا جائے۔ یعنی اختیار کو اختیار کا حامل مطلق العنانی سے استعمال کرنے کے لیے آزاد نہیں۔ یہ تاریخِ انسانی میں بہت بڑی پیش رفت تھی۔ اب حکمران بالاتر اور بالادست نہیں رہے، بلکہ قانون بالاتر اور بالا دست ہو گیا۔ اب شاہی مطلق العنانی کا زمانہ لد گیا، اور بادشاہوں کو بھی قانون کا پابند ہونا پڑا۔ اسی چیز، یعنی قانون کی بالادستی کے اصول نے جدید آئینی ریاست کی بنیاد رکھی ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آئینی ریاست کے وجود میں آنے سے قبل جو ریاستیں موجود تھیں، وہ بالادست قانون کی ابتدائی شکلوں سے عاری نہیں تھیں۔ ہاں، ابھی ان مملکتوں میں قانون کو مطلق بالادستی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ تاہم، جب باقاعدہ آئینی ریاست وجود میں آ گئی تو اس ریاست کا آئین بالادست قرار پا گیا۔ آئین کو ریاست کا بنیادی قانون بھی کہا جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ آئین ہی ہوتا ہے، جس سے اس ریاست کے باقی قوانین اخذ ہوتے ہیں، یا اس پر مبنی ہوتے ہیں، یا اس سے مطابقت رکھتے ہیں، اوریہ بھی کہ اس آئین کے خلاف قوانین نہیں بنائے جا سکتے، اور یہ بھی کہ مجموعی طو رپر آئین کا جو منشا ہوتاہے، اس کے متخالف قوانین بھی نہیں بنائے جا سکتے۔ اس کی بڑی مثال این- آر- او ہے۔ اسے سپریم کورٹ نے اسی لیے کالعدم قرار دیا، کیونکہ یہ پاکستان کے آئین کے اصل اصول، یعنی شہریوں کے ”بنیادی حقوق“ سے متصادم تھا۔

اس سے یہ چیز بھی عیاں ہوتی ہے کہ قانون اور قواعد و ضوابط کی بالا دستی، ریاست، سیاست، حکومت، اور معیشت اور معاشرت ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک فرد، جس کی زندگی میں کوئی اصول کارفرما نہ ہو، اس کی زندگی ایک کٹی پتنگ کی طرح ہو گی۔ لیکن جیسے ہی ہماری زندگی ایک سمت میں گامزن ہوتی ہے، اس میں توازن اور نظم وضبط پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، ایک سوسائیٹی، جس میں قانون کی بالادستی نہ ہو، وہاں انتشاراور نراجیت کا دور دورہ ہوگا، اور طاقت ور گروہ اور مافیا، حکمران بن جائیں گے۔ پاکستان، اسی دور سے گزر رہا ہے، اور قانون کی بالادستی میں وہ لوگ مزاحم ہیں، جو انتشاراور افراتفری سے فائد ہ اٹھاتے ہیں، یعنی منظم طاقت ور گروہ اور مافیا۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے جب ہم کوئی اصول اپنا لیتے ہیں تو گو کہ اس وقت ہم آزاد تھے کہ ہم کوئی بھی اصول اپنا لیں، مگر جب ہم ایک اصول اپنا لیتے ہیں، تو نہ صرف ہم اپنی آزادی کو محدود کر لیتے ہیں، بلکہ اب ہماری زندگی میں یہ اصول بالادست ہو جاتا ہے۔ اب یہ اصول اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے، اور کیا نہیں کرنا۔ ہم خود کوئی اصول اپناتے ہیں، مگر ایسا کرنے کے بعد ہم اس اصول کے تابع ہو جاتے ہیں۔ یعنی اب ہماری جگہ یہ اصول بالادست ہوجاتا ہے۔

اب اگر اسی اصول کو ریاست اور حکومت پر منطبق کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کروڑوں افراد پر مشتمل سوسائیٹی یا ملک کے لیے آئین، قانون، اور قواعد و ضوابط کس قدر ناگزیر ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ حکمران جیسے بھی ہوں اورانھوں نے مسندِ اقتدار پر چڑھنے کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کیا ہو، ان کی طبیعت ہمیشہ مطلق العنانی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ کون دیانت دار ہے، اور کون نہیں، اس سے قطع نظر، ہر حکمران، آئین، قانون اور ضابطوں قاعدوں کو مسل کر مطلق العنان بننا چاہتا ہے۔ اسی لیے ایک ایسے ادارے کے وجود کوضروری سمجھا گیا، جو آئین اور قانون (کی بالادستی ) کا محافظ اور نگران ہو، اور جب قانون سے متعلق دو یا دو سے زیادہ فریقوں میں کوئی اختلاف پیدا ہو تو یہ ادارہ، آئین کی رو سے تصفیہ بھی کرے، اور آئین و قانون کی تشریح و تعبیر بھی کرے، اور یہ بھی دیکھے کہ حکمران، جو نئے قوانین بنا رہے ہیں، کیا وہ آئین اور اس کی روح سے متصادم تو نہیں ۔ یہی سبب ہے کہ جب قانون بالادست نہیں تھا، اور عدل کا ادارہ خودمختار نہیں، بلکہ بادشاہ کے حکم کا پابند تھا، تو بادشاہ اور اس کے عمال خود اپنی ذات میں این- آر- او ہوتے تھے۔ وہ جو چاہیں کریں، ان سے کوئی پرسش نہیں کر سکتا تھا۔

تاہم، آئین اور ایک آزاد عدلیہ کی موجودگی نے مطلق العنانی پر مبنی قوانین کے قیام کو ناممکن بنا دیا، جیسا کہ پاکستان کی مثال سے ظاہر ہے۔ مگر یہ مطلق العنانی پھر بھی جان نہیں چھوڑتی۔ حکمران پیپلزپارٹی کے منتخب عہدیدار اور عمال، سب کے سب، اپنے قول اور عمل دونوں کے اعتبارسے، مطلق العنانی کے نمونے ہیں۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات، قمر زمان کائرہ تو ”پارلیمینٹ بالادست ہے“ کا پہاڑہ پڑھے جا رہے ہیں۔ انھوں نے فلسفہ تو پڑھ لیا، کچھ سیاسی فلسفہ بھی پڑھ لیتے تو شاید اس نظریے کا پرچار نہ کرتے، اور آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتے۔ انھیں اتنا تو سوچنا چاہیے کہ کل اگر ان کی حکومت نہ رہی، اور ایک مطلق العنان پارلیمینٹ پاکستان پر سوار ہو گئی تو کیا وہ تب بھی یہی پہاڑہ پڑھیں گے!

[یہ تحریر 13 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں