جمعہ، 6 ستمبر، 2013

پسماندگی کی کتاب

پاکستان کے ذہنی وفکری منظر کو پسماندگی کی کھلی کتاب کا نام دیا جا سکتا ہے!

اس کالم کی تقریب اسی اخبار میں 10 اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر ہے۔ باچا خان یونیورسیٹی، چارسدہ، میں پاک ایشیا بک کارپوریشن کے تعاون سے تین روزہ کتاب میلہ منعقد کیا گیا۔ خبر کے مطابق میلے میں 50 سے زیادہ مضامین پر پانچ لاکھ سے بھی زیادہ کتابیں نمائش کی گئیں، اور طلبہ اور اساتذہ کا ذوق وشوق، قابلِ دید تھا۔ میلے کا افتتاح کرتے ہوئے یونیورسیٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل رحیم مروت نے جو الفاظ ادا کیے، ایسے موقعوں پر بالعموم جن رسمی الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے، وہ اس خانے میں قطعاً فٹ نہیں بیٹھتے۔

ان کے الفاظ معنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نبض شناس کی تشخیص کا پتہ بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا: کتاب انسان کی بہترین ساتھی ہے، جن قوموں نے کتاب سے رشتہ استوار کیا، وہ آج ترقی کی دوڑ میں صفِ اول میں کھڑی ہیں اور اقوامِ عالم کی لیڈر ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: ہماری پسماندگی کی ایک وجہ کتاب سے دوری ہے۔ باچا خان یونیورسیٹی ایک بالکل نئی یونیورسیٹی ہے، جو چارسدہ جیسے پسماندہ علاقے میں بنائی گئی ہے۔ اس لیے اس کتاب میلے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ انھوں نے طلبہ و طالبات کو اس موقعے سے بھر پورعلمی فائدہ اٹھانے کا مشورہ بھی دیا۔

اگر کبھی ہمیں فرصت ملے اور ہم یہ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کتاب کیا ہوتی ہے، تب ہی ہم کتاب کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ کتاب ایک ایسی ہستی ہوتی ہے، جو ایک عہد، ایک زمانے، ایک ملک، ایک قوم، ایک معاشرے، اورایک شخص کا تعلق، ایک اور عہد، ایک اور زمانے، ایک اور ملک، ایک اور قوم، ایک اور معاشرے، اور ایک اور شخص سے جوڑتی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محض ایک عہد، ایک زمانے، ایک ملک، ایک قوم ، اور ایک شخص سے نہیں، بلکہ کئی عہدوں، کئی زمانوں، کئی ملکوں، کئی قوموں، کئی معاشروں، اور لاتعداد اشخاص سے جوڑتی ہے۔

یہاں اجتماعیت پسند فلسفی، کارل مارکس کی ایک بات سے ایک اور بات نکالی جا سکتی ہے۔ انسان کے بارے میں مارکس کا کہنا تھا کہ انسان بجائے خود ایک دنیائے انسان ہے۔ یعنی انسان خود ایک پوری دنیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں جب کوئی انسان کوئی کتاب لکھتا ہے تو یہ کتاب اس انسان کی دنیا کو تو قلمبند کرتی ہی ہے، یہ ان دنیاؤں کو بھی رقم کرتی ہے، جنھیں اس انسان نے بھگتا، سہا، جانا، سوچا، سمجھا اور خیال کیا ہوتا ہے۔ ان دنیاؤں میں وہ دنیا بھی شامل کرلینی چاہیے، جس طرح کی دنیا کا خواب اس انسان نے دیکھا ہوتا ہے۔ کوئی انسان روئے زمین پر ایسا پیدا نہیں ہوتا، جو موجود دنیا سے کلی طور پر مطمئن ہو یا مطمئن ہو سکے۔ یہی سبب ہے کہ ہر انسان ایک اور دنیا کا خواب بھی دیکھتا ہے۔ ایک ایسی دنیا، جو اس کے ذہن، خوابوں اور خیالوں میں کروٹیں لیتی رہتی ہے۔ ایک ایسی دنیا، جیسی کہ وہ خود سوچتا اور چاہتا ہے کہ دنیا کو ہونا چاہیے۔

یوں ایک کتاب، جسے ایک شخص لکھتا ہے، نہ صرف ایک دنیا بلکہ ہزاروں دنیاؤں کا عکس ہوتی ہے۔ بلکہ اس میں تشکیل پاتی ہوئی اور تشکیل پانے والی دنیاؤں کا عکس جھلکتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اور پھر جو فرد بھی اس کتاب کو پڑھتا ہے، وہ اسے جس انداز میں سمجھتا، جس اندا ز میں اس کی تعبیر کرتا، جس انداز میں اس کے پیغام کو قبول کرتا، اور پھر جس انداز میں اس کے پیغام کو آگے بڑھاتا یا نہیں بڑھاتا ہے، وہ انداز کئی اور نئی دنیاؤں کی تشکیل کے عمل کو مہمیز کرتے ہیں۔ یوں نئی دنیاؤں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ یہاں یقیناً میں ان کتابوں کی بات کررہا ہوں، جو انسان اور اس کی دنیا، اور خود اس حقیقی دنیا کو تبدیل کرنے کا سامان بنتی اور سامان پیدا کرتی ہیں۔

جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہوا، پاکستان کا ذہنی اور فکری منظر، پسماندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے، یہ وہی بات ہے، جس کی طرف ڈاکٹر فضل رحیم مروت نے اشارہ کیا کہ ہمارا رشتہ کتا ب سے ختم ہو گیا ہے، اورہماری پسماندگی کا یہ بھی ایک سبب ہے۔ کتاب سے رشتہ ختم ہونے کا مطلب یہی بنتا ہے کہ لاتعداد دنیاؤں سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا۔ یعنی ان تمام دنیاؤں سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا، جن میں مختلف عہدوں، مختلف زمانوں، مختلف ملکوں، مختلف قوموں، مختلف معاشروں کے لاتعداد انسان زندہ رہے؛ وہ دنیائیں، جنھیں ان لاتعداد انسانوں نے بنایا اوربگاڑا؛ وہ دنیائیں، جنھیں ان لاتعداد انسانوں نے سوچا؛ وہ دنیائیں جن کا خواب انھوں نے دیکھا، اورجن کی تعبیر کے لیے انھوں نے جوکھم اٹھائے۔ ان میں وہ تمام لوگ شامل ہیں، جنھوں نے زندگی اور دنیا کو سجھنے، جاننے اور پھر تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ان کا کتا ب لکھنا، دنیا کو تبدیل کرنے کا ایک انداز تھا۔ اس میں مفکر، فلسفی، مصلح، نیکوکار، مبلغ، ادیب، شاعر، مورخ، سیاح، اور بالکل عام سے ہزاروں لاکھوں انسان شامل ہیں۔

کتاب کی دنیا سے رشتہ ٹوٹنے کا مطلب ہے، گذشتہ انسانوں کی بوقلموں دنیاؤں سے بے تعلق ہو جانا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کسی زنجیر کی ایک کڑی، کل زنجیر ہونے کا دعویٰ کرنے لگے۔ اور ایسی کڑی کتنی بے چاری اور بے بسی کی ماری معلوم ہو گی، اس کی مثالیں ہمارے علمی و فکری حلقوں میں نایاب نہیں، عام ہیں۔ یہی ذہنی و فکری پسماندگی ہے۔ قطرہ، سمندر ہوجائے، یہ کیسے ممکن ہے۔ ہاں، کتاب ایک ایسا ذریعہ ہے، جو ہمیں دوبارہ تاریخ انسانی کی اس زنجیر کی کڑی بنا سکتا ہے، جس سے ہم بھٹک گئے ہیں۔ اور یہی انداز ہے، جسے اپنا کر ہم پسماندگی سے جان چھڑا کر ترقی کے عہد کی طرف بڑھ سکتے، اور دنیا کی قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔

جیسا کہ کہا جاتا ہے علم کسی کی جاگیر نہیں، تو یہ بات بھی درست ثابت ہو گئی ہے کہ علم کا مسکن، یعنی کتاب بھی کسی کی جاگیر نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے اس بات کو حقیقت کر دکھایا ہے۔ ابھی جب کتابیں ہاتھ سے لکھی اور نقل کی جاتی تھیں، تو وہ بہت کم لوگوں کی رسائی میں تھیں۔ پھر جب کتابیں چھپنے لگیں تو رسائی کا یہ دائرہ بہت وسیع ہو گیا۔ اب جو کمی رہ گئی تھی، وہ کتب خانوں اور لائیبریریوں نے پوری کی، اور کتاب کے ایک ایک نسخے سے ہزارہا تشنگان، فیض یاب ہونے لگے۔ آج ٹیکنالوجی نے کتاب کو جو شکل دی ہے، یعنی جسے برقیاتی کتاب، یا ای- کتاب (برقِتاب) کہا جاتا ہے، اس نے ایک کتاب کی لاکھوں بلکہ کروڑوں نقل تیار کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ جیسے کاغذی کتاب کی تعداد، لاگت کے ساتھ جڑی ہے؛ جتنی تعداد میں کوئی کتاب درکار ہے، اس کی لاگت اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ تاہم ، برقِتاب کی صورت میں یہ لاگت قریب قریب صفر ہو کر رہ گئی ہے۔

کاغذ پر چھپنے والی کتاب کے معاملے میں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ پرانی چھپی کتابوں کی حالت خستہ ہوجاتی ہے، اور اگر وہ دوبارہ نہ چھپیں تو قارئین کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان سے فیض اٹھانا ممکن نہیں رہتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لکھوکھا قدیم کتابیں بن چھپے لائیبریریوں میں پڑی ہیں۔ مگر ٹیکنالوجی کی بدولت یہ اب قریب قریب ہر شخص کے گھر یا دفتر، یا اس کے ذاتی کمپیوٹر تک پہنچ گئی ہیں۔ مزید آسانی یہ ہے کہ برقِتابوں کوخواہش اور ضرورت کے مطابق پرنٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہاں میں دوایسی ویب سائیٹس کے بارے میں بتانا چاہوں گا، جہاں لاتعداد مفت برقِتابیں دستیاب ہیں۔ یہ ویب سائیٹس باقاعدہ منضبط پروجیکٹس ہیں، ا وران پر کتابوں کے جملہ حقوق کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں ہر علم اور ہر نوع کی کتابیں متعدد زبانوں میں میسر ہیں، جن میں اردو بھی شامل ہے۔ ایک طریقِ کار کی پیروی کرتے ہوئے، ہر فرد ان پر مزید کتابیں اپ لوڈ کرسکتا ہے۔ پہلی سائیٹ ہے: آرکائیو ڈاٹ آرگ (اے- آر- سی- ایچ- آئی- وی- ای- ڈاٹ- او- آر- جی)۔ اس پر 150 بلین صفحات مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دوسری ویب سائیٹ ہے: گوٹین برگ ڈاٹ آرگ (جی- یو- ٹی- ای- این- بی- ای- آر- جی- ڈاٹ- او- آر- جی) ۔یہاں چالیس ہزار سے زیادہ کتابیں دستیاب ہیں۔ ان ویب سائیٹس کے پیچھے کوئی سازش کارفرما نہیں۔ ان کا مقصد،علم اور کتاب کو ہر فرد کی رسائی میں لانا ہے۔

اب اس بات کا دارومدار ہم پر ہے کہ ہم کتاب سے رشتہ استوار کرنے میں کتنا خلوص اور کتنی سرگرمی دکھاتے ہیں! یا پھر ہم پسماندگی کی کتاب بنے رہنا چاہتے ہیں!

[یہ تحریر 23 اکتوبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں