گذشتہ پینتیس چھتیس سالوں سے ہر ”14“ اگست کو آزادی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسے سالانہ جشنِ آزادی کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ 14 اگست، آزادی، اور جشنِ آزادی کا مفہوم کیا ہے، عام لوگ اور بالخصوص نئی نسل کی اکثریت اس سے بالکل بے بہرہ ہے۔ ان پڑھ تو چلو پروپیگینڈے کا شکار ہیں، لیکن پڑھے لکھے بھی غیر تاریخ کے طوطے بنے ہوئے ہیں۔ آزادی کا تصور ان سب کے لیے ایک مجرد اور رومانوی تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے 14 اگست کو آزادی حاصل کی۔ کس سے حاصل کی، کیوں حاصل کی، اور کیسے حاصل کی؛ ان بنیادی سوالات سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ اس روز ایسے بینر بھی آویزاں کیے جاتے ہیں، جن پر آزادی کے شہیدوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس بے خبری کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ 14 اگست اور آزادی کا تصور محض ایک خالی خولی نعرے میں تبدیل ہو گیا ہے اور ظاہری ٹیپ ٹاپ، دکھاوا، ہلڑ بازی اور لاقانونیت اس دن کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں کے اوائل میں، ہندوستان کے سیاسی میدان میں تین بڑے فریق موجود تھے: ہندو، مسلمان اور انگریز۔ اس سہ فریقی صورتِ حال میں مسلم لیگ نے اپنے لیے جو سیاسی ذمے داری منتخب کی، وہ مسلمان آبادی کے ایک خاص حصے کی نمائندگی اور ان کے حقوق کے تحفظ پر مبنی تھی۔ اس سے قبل مسلمانوں کی قیادت قوم پسند علما اور سیاست دانوں کے ہاتھ میں تھی۔ انھیں مسلمان آبادی کے ایک مخصوص حصے کی حمایت حاصل تھی۔ ان کا مقصد ہندوؤں اور کانگریس سے مختلف نہ تھا۔ یعنی، وہ بھی ہندوستان سے انگریزوں کی رخصتی اور مقامی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ یہ دونوں مقاصد ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ انگریزوں کے جانے کے بعد، مقامی حکومت کس کی ہو گی، اور کیسی ہو گی؛ قوم پسند علما اور سیاست دانوں کے نزدیک یہ ثانوی سوالات تھے، جو وقت آنے پر طے کیے جا سکتے تھے۔
جہاں تک متحدہ ہندوستان کی مسلمان اشرافیہ کا تعلق ہے، وہ ایک ہزار برس تک ہندوستان کی حکمرانی میں حصہ دار رہی تھی۔ اس نے انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھی مراعات یافتہ زندگی گزاری تھی۔ یہ اشرافیہ آنے والے مستقبل سے کچھ زیادہ ہی خوف زدہ تھی۔ اس کے اپنے خدشات، تحفظات، اور تعصبات تھے۔ اس کے لیے ہندو حکمرانی کا تصور قطعی طور پر ناقابلِ قبول تھا۔ وہ ہندوؤں کی محکوم نہیں بننا چاہتی تھی۔ اس اشرافیہ کے طرزِ فکر اور طرزِ حیات کے سائے تلے پلنے بڑھنے اور زندہ رہنے والے عام مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی سوچ کی حامی تھی۔ پھرسیاسی حالات بھی کچھ ایسے بنے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین فاصلہ بڑھتا ہی گیا۔ مسلم لیگ کی سیاست اسی نقطۂ نظر پراستوار ہوئی اور پھلی پھولی۔
ہندوستان کے سیاسی نشیب و فراز کے آئینے میں، جب یہ بات واضح ہو گئی کہ انگریز حکمران ایک طرح کی مقامی حکومت تشکیل دینے کے لیے تیار ہیں تو مقامی حکومت میں حصے داری کا معاملہ، اصل سیاسی معاملہ بن کر سامنے آ گیا۔ یہ ہے وہ سیاق و سباق، جس میں مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ جبکہ قوم پسند علما، انتہا پسند کانگریسیوں کے ہمراہ انگریزوں سے آزادی کی ضد پر اڑے رہے۔ وہ مقامی حکومتوں کے معاملے کو نظرانداز کرتے رہے، اوریوں اپنی سیاسی معنویت کھو بیٹھے۔ آگے چل کر جب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ انگریزوں نے اب ہندوستان سے جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے تو ہندوستان کا سیاسی منظر، افراتفری کا منظر پیش کرنے لگا۔ اس نفسا نفسی میں مسلم لیگ اور کانگریس کے نقطہ ہائے نظر اپنی اپنی انتہا پر پہنچ گئے۔ مسلم لیگ، مسلمانوں کے لیے آئینی تحفظات کی طلب گار تھی۔ جبکہ کانگریس، مقامی حکومت کے معاملات پر توجہ دینے، اور ان کا حل وضع کرنے سے محترز تھی۔ آخرِ کار، مسلمانوں کے لیے آئینی تحفظات، وہ حد ثابت ہوئے، جس پر آ کر، اور جن کی عدم موجودگی میں، مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے علاحدہ خود مختار ریاست کا مطالبہ کر دیا۔ کانگریس اورہندوؤں کے اپنے خدشات، تحفظات، اور تعصبات تھے۔ وہ کسی بھی طرح ایک ہزار سال بعد پورے ہندوستان پر ملنے والے اختیار اور اقتدار میں مسلمان اشرافیہ اور مسلمانوں کو حصہ دار بنانے پر تیار نہ تھے۔
آزاد ہندوستان کے لیے ایک آئین تشکیل دینے کی سیاست میں کانگریس کا موقف ذرا بھی لچک دارثابت نہیں ہوا۔ یہ ہندوستان پر حکمرانی کا مکمل اختیار مانگتی تھی، خواہ یہ منقسم ہندوستا ن ہی کیوں نہ ہو۔ کانگریس مسلمانوں کو ان آئینی تحفظات کی ضمانت دینے سے انکاری تھی، مسلم لیگ جن کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ہندوستان پر ایک ہزار سال کی مسلم حکمرانی نے دونوں فریقین میں جو تاریخی تعصبات پیدا کر د یے تھے، اس وقت وہی تعصبات دونوں فریقوں کی سیاست کا تعین کر رہے تھے۔ یہی وہ نقطہ تھا، جہاں دونوں فریقوں کے لیے ماضی، حال اور مستقبل اکٹھے ہو گئے تھے۔ مسلم لیگ کے سامنے کوئی اور راستہ موجود نہیں تھا۔ ہر فرد کے لیے، خواہ وہ مسلمان ہوں، آئینی حقوق کی دستیابی ناگزیر تھی۔ اس تگ و تاز کے دوران جو بھی نشیب و فراز پیش آئے ہوں، بالآخر، کانگریس نے مسلمانوں کے علاحدہ ریاست کے مطالبے پر صاد کر دیا۔ یوں ان علاقوں پر مشتمل پاکستان وجود میں آ گیا، جہاں تحریکِ پاکستان کی تاریخ کا دھندلا پن نمایاں ہے۔
پاکستان کیسے وجود میں آیا ، اس سے متعلق یہ انتہائی مختصر جائزہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چند باتیں اور پیشِ نظر رکھنا ضروری ہیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ، انگریزوں سے آزادی کی جد و جہد نہیں کر رہی تھیں۔ یہ جنگ کچھ اور جماعتوں اور افراد نے لڑی۔ تاجِ برطانیہ کے خلاف نام نہاد جد و جہدِ آزادی کی تاریخ میں اس جنگ کو کوئی اہم مقام حاصل نہیں۔ انگریزوں سے آزادی کا نعرہ، ہندوستان کی کانگریسی اور لیگی سیاست میں کسی بھی وقت ایک موثر نعرہ نہیں رہا۔ برِ صغیر سے انگریزوں کی رخصتی کے اصل اور اہم اسباب کچھ اور تھے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست، انگریز حکمرانوں سے قربت اورحلقہ بگوشی کی سیاست تھی، جس کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے حقوق اور تحفظات کا حصول تھا۔ مزید یہ کہ انگریزوں کے خلاف ہندستانیوں کی جد و جہد مجموعی طور پر آئینی جد و جہد تھی۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ہندوستانی سیاست کا بحران، اصل میں آئینی بحران تھا۔ اس بحران کا بڑا سبب بنیادی آئینی نکات پر کانگریس اور مسلم لیگ کا عدم اتفاق تھا۔ برِ صغیر میں دو علاحدہ ریاستوں، بھارت اور پاکستا ن کا قیام اسی بحران کا منطقی نتیجہ تھا۔ دریں صورت، یہ کہنا ایک بے معنی بات ہو گی کہ 14 اگست، انگریزوں سے آزادی کا دن ہے۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے ایک علاحدہ مملکت کی صورت میں اصلاً ہندوؤں کی متوقع، بلکہ یقینی حکمرانی سے آزادی ضرور حاصل کی۔
یہ باتیں سطحی قسم کے ’’حقائق‘‘ کے مقابلے میں یقیناً بہت تلخ ہیں۔ انھیں ہضم کرنے کے لیے کسی مجرب ہاضم کی ضرورت ہے، جو ہمارے معاشرے میں نایاب ہے۔ گذشتہ ساٹھ پینسٹھ برس میں ہم نے ایک عجیب و غریب تاریخی اسطوریات لکھی ہے، اور اسے لوگوں کے ذہنوں میں گودا بھی ہے۔ ہم نے تاریخ کو بھی افسانے، داستان، یا عیش کدے کے درجے پر گرا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی بنائے ہوئے گنبدِ بے در میں قید ہیں۔ اس پر مستزاد، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے تاریخ ساز ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم وقت گزرنے کے بعد، اس وقت کو کھوجنے کے بجائے اس پر خوبصورت لبادے لاد رہے ہیں۔ اس میں اپنی مرضی اور پسند کے رنگ بھر رہے ہیں۔ ہماری اس سوچ کے برعکس، تاریخ ان دیکھی منزلیں مارنے اور ساتواں در کھولنے کا نام ہے، جسے نہ کھولنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔ مراد یہ کہ ایک واقعہ جب وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس کے کتنے ہی پہلو اور گوشے ہماری نظروں سے اوجھل، یا غیر واضح ہوتے ہیں،جو بعد میں تحقیق اور کھوج سے بے نقاب ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ، ماضی میں مہم جوئی ہے۔ اس کے لیے بند ذہن اور بند نظریں نہیں، کھلے ذہن اور کھلی نظریں درکار ہیں۔ ہمارے لیے تاریخ کے جنگل میں بلا خوف وخطردریافت اور انکشاف کے سفر پر نکلنا ضروری ہے۔ وگرنہ ہم اپنی افسانوی تاریخ کے کنوئیں میں ٹراتے رہ جائیں گے!
[نوٹ: یہ کالم چھپ نہ سکا!]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں