یہ ایک مشاہدے کی بات ہے کہ سوسائیٹی کا نظامِ اقدار، قانون کی عمل داری سے ناگزیر طور پرجڑا ہوتا ہے۔ جتنا قانون کی عمل داری کمزور ہوگی، اتنا ہی اس سوسائیٹی کا نظامِ اقدار بھی کمزور ہو گا۔ پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہ ربط عیاں ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ایک مشاہدے کی بات ہے کہ قانون کی عملداری اور نظامِ اقدار کی کمزوری یا عدم موجودگی، افراد کو عجیب و غریب عفریت بنا دیتی ہے۔ اس کے ایک سرے پر وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے پاس ریاست کی، یا سیاست کی، یا حکومت کی طاقت ہوتی ہے، یا جو کسی بھی نوع کے اثر و رسوخ کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے دوسرے سرے پر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو بے مایہ اور بے بس و بے کس ہوتے ہیں، اور کسی کے ہاتھوں میں پستول بنے رہتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان ایک عجوبہ مخلوق پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ مخلوق ایسے انسان نما حیوان ہوتے ہیں، جو حیوانوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ شاید جینرل ضیا کے بعد کا ذکر ہے کہ لاہور میں ایک ایسے آدمی کو گرفتار کیا گیا، جس نے بے آسرا بچوں کوپکڑ کر قید کیا ہوا تھا، اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ تفتیش میں اس نے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ان بچوں کو انسان بنا رہا تھا۔
سو، ایک ایسے پاکستان میں، جہاں نہ قانون کی عمل داری ہے، نہ اقدار کی پاسداری، وہاں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے، جو اس سے بھی کہیں زیادہ غیر انسانی ہے۔ اور کراچی میں تو ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے، جو قانون کی عملداری اور اقدار کی پاسداری سے بہت آگے جا چکا ہے۔ ابھی انہی دنوں بی بی سی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس کے مطابق تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ کراچی میں 90 افراد کے قتل میں جو پستول استعمال ہوئے، ان کی تعداد صرف تین ہے۔ اعلیٰ سطح کے چند پولیس افسران یہ رائے رکھتے ہیں کہ 90 افراد کے قتل میں نائن ایم ایم کے تین پستول استعمال ہوئے۔ یعنی یہ صرف تین لوگ ہیں، جنھوں نے 90 افراد کو قتل کیا۔ ان افسران کے مطابق نشانہ باز جس اسلحے سے مشق کرتے ہیں، ترجیحاً اسے ہی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ سو یہ بالکل ممکن ہے کہ 90 ہلاکتوں میں تین پستول اور تین افراد ملوث ہوں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گولی کے خول کے پیچھے پستول کے ہیمر یعنی ہتھوڑے کا نشان ہوتا ہے، اور ہر پستول کا یہ نشان، فنگر پرنٹ کی طرح منفرد اور جدا ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ سب کچھ جاننا بہت آسان ہے۔
سندھ کے محکمۂ داخلہ کے معاونِ خصوصی شرف الدین میمن نے یہ بھی بتایا کہ کراچی میں ٹارگیٹ کِلنگ کے کئی واقعات میں نہ صرف یکساں اسلحے کے استعمال کے ثبوت ملے ہیں، بلکہ ہدف طے کرکے قتل کرنے کی حکمتِ عملی بھی یکساں پائی گئی ہے۔ اس ضمن میں تحقیقات سے جو حیرت انگیز بات سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ ان تین پستولوں سے ایم- کی- ایم کے رکن سندھ اسیمبلی منظر امام، سعودی سفارت خانے کے اہلکار، موٹر سائیکل پر سوار شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک آدمی اور اس کی پانچ سالہ بچی کے ساتھ ساتھ شیعہ، سنی افراد، ایم- کیو-ایم، عوامی نیشنل پارٹی، اور دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 2012 میں 2300 افراد قتل ہوئے، جبکہ 2011 میں یہ تعداد 1800 تھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فارینزِک تحقیقات کی مدد سے اتنا کچھ پتہ لگ سکتا ہے تو پولیس کی تفتیش کبھی کسی نتیجے پر کیوں نہیں پہنچتی۔ بالخصوص کراچی میں۔ یہ کیوں پتہ نہیں لگتا کہ ان تین پستولوں کے پیچھے کس کے ہاتھ ہیں۔ کیا وہ 90 افراد، جو ان تین پستولوں سے قتل ہوئے، انسان نہیں تھے۔ لیکن پھر وہی بات کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے، جہاں منتخب عہدیدار اور ذمے دار اہلکار بڑے فخر اور طرے سے یہ اطلاعات دیتے پائے جاتے ہیں، جیسے کہ ابھی کچھ ہفتے پہلے وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے میڈیا کو بتایا تھا کہ کراچی میں حالات خراب ہونے والے ہیں۔ یہاں صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِ اعلیٰ سے لے کر درمیانے درجے کے سرکاری افسران بھی بس اطلاعات دینے تک محدود ہیں۔ وہ بس یہ بتاتے رہتے ہیں کہ یہ ہونے والا ہے، وہ ہونے والا ہے۔ کوئی اس بات کی ذمے داری نہیں لیتا کہ وہ ایسا نہیں ہونے دے گا۔ ہر کوئی یہی کہتا پایا جاتا ہے کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے، یہ کیا جائے، وہ کیا جائے۔ سندھ کے معاونِ خصوصی اور مختلف پولیس افسران کی متذکرہ اطلاعات پرمبنی بی بی سی کی یہ رپورٹ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ تین پستول کون ہیں۔ اور نہ اس بات کا پتہ کہ پستول ہاتھ آ گئے، تو پستول چلانے والے کہاں گئے۔
یہ نومبر 1993 کی بات ہے کہ پاکستانی پارلیمان کی چھ منزلہ عمارت میں آگ لگ گئی۔ رپورٹس کے مطابق یہ آگ چھ گھنٹے سے زیادہ تک بھڑکتی رہی۔ اس آگ نے قومی اسیمبلی کے چیمبر، گیلریوں، اور متعدد دفاتر کو نقصان پہنچایا۔ اتفاق سے، یا ”خوش قسمتی یا بد قسمتی“ سے یہ چھٹی کا دن تھا، اور آگ لگنے کے وقت عمارت خالی تھی، سو جانی نقصان نہیں ہوا۔ ریاستی ٹیلی وژن، یعنی پی- ٹی- وی کی اطلاعات کے مطابق یہ آگ، برقی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔ اخبارات نے بتایا کہ اصل میں پارلیمان کی عمارت میں لگی ہوئی ٹیوب لائیٹس سات سال سے مسلسل جل رہی تھیں؛ اور عملے سمیت کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا، نہ ہی کسی نے انھیں بند کر نا گوارا کیا۔ (”مال مفت، دل بے رحم“، ایسے ہی موقعے پر بولا جاتا ہے!) یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس وقت بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی تھی، اور یہ سوچا جا سکتا ہے کہ اگر لوڈ شیڈنگ ہوتی تو شاید آگ نہ لگتی۔ (سو، لوڈ شیڈنگ کا فائدہ بھی ہے!) (اس خبر پر ایک دوست کا تبصرہ یہ تھا کہ یہ تو ٹیوب لائیٹس کے دیرپا ہونے کا اشتہار ہے !) ہمیشہ کی طرح اس واقعے میں بھی ذمے داری کا تعین نہیں ہوا تھا۔
1975 میں ایک پنجابی فلم بنی تھی، ”شیدا پستول“۔ اس کے ہیرو منور ظریف تھے۔ یہ ظرافت اور مزاح سے عبارت تھی۔ ”شیدا پستول“ بہت مقبول ہوئی اور خوب چلی۔ غالباً اسی نام کا ایک ڈرامہ تھا، جوپی- ٹی- وی پر نشر ہوا تھا۔ مزاحیہ، اور طعن و طنز سے بھر پور۔ اس ڈرامے کا نشانہ افراد نہیں، بلکہ امن و امان قائم رکھنے کے ذمے دار افسران اور ادارے تھے، خاص طور پولیس۔ مگر پاکستان میں ایسی فلمیں نہ بننے اور نہ ہونے کے برابر ہیں، جن میں ان پستولوں کے پیچھے چھپے سیاسی ہاتھوں کی نشاہدہی کی گئی ہو۔ انڈیا اس کام میں بہت آگے ہے۔ وہاں فلمیں ”شیدے پستولوں“ کے پیچھے کارفرما سیاسی ہاتھوں کو خوب ننگا کرتی ہیں۔ یہاں پاکستان میں ابھی تک بس کہانیاں ”بن“ رہی ہیں۔ جیسی کہ یہ 90 افراد اور تین پستولوں کی کہانی ہے۔ کیا معلوم، یہ کہانی کبھی لکھنے میں بھی آئے گی یا نہیں۔ کیا خبر کبھی یہ پتہ چل پائے گا کہ یہ تین پستول کون تھے، اور کس کے تھے۔ تاہم، یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان تین پستولوں کے پیچھے تین چیزیں موجود ہیں: پاکستان کی ریاست، پاکستان کی سیاست، اور پاکستان کی حکومت۔ اس پر یہ اعتراض کیا جائے گا: وہ کیسے۔ جواب یہ ہے کہ اگر تین پستول پاکستان کے 90 شہریوں کے قاتل بن گئے، تو کیا پاکستان کی ریاست، سیاست اور حکومت، اس کی ذمے دارنہیں!
[یہ کالم 23 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں