پاکستانی فوج کو بالآخر ہزاروں شہریوں کی قیمتی جانوں، اور شہریوں کے ٹیکس کے اربوں کھربوں روپوں کے نقصان کے بعد یہ سمجھ آنے لگا ہے کہ پاکستان کے اصل اور بڑے دشمن پاکستان کے اندر ہی موجود ہیں۔ اب یہ ایک جدا حقیقت ہے کہ اس نقصان اور اس مہم جوئی کی آئینی ذمے داری سیاست دانوں کے سر آتی ہے، جنھوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے یہ سب کچھ ہونے دیا۔ لیکن قائمیہ یعنی ایسٹیبلِشمینٹ سمیت، یہ مجرم سیاست دان، اور پاکستانی سیاست کے رنگ رنگ کے مہم جو اور ان کے حواری اور حمایتی، سب کے سب ابھی تک یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ کسی بھی ملک کے لیے، جہاں انسان بستے ہوں، آئینی استحکام ضروری ہی نہیں، ناگزیر ہے۔
یہاں کوئی بھی اس چیز کی اہمیت کو جاننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ آئینی استحکام ہی ہے، جو سیاسی، معاشی، سماجی، تعلیمی، اورثقافتی استحکام پیدا کرتا ہے۔ شہریوں کی روزمرہ زندگی میں سکون اور ٹھہراؤ لاتا ہے۔ ان میں اطمینانِ قلب پیدا کرتا ہے۔ انھیں زندگی کے عام معمولات سے اوپر اٹھ کر زندگی کی اعلیٰ قدروں اور ارفع جذبوں تک پہنچنے کی فرصت اور حوصلہ مہیا کرتا ہے۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں، پاکستان میں جن پر کسی کی نظر نہیں۔ یہاں مہم جوئی اور مطلب پرستی کی سیاست نے شہریوں کی زندگی کو ہمہ گیر انداز میں ہیجان خیزی کا شکار کیا ہوا ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، وہ آنے والے کل کے بارے میں ہزاروں سوالوں کو جنم دے رہا ہو تا ہے؛ جبکہ جواب موجود نہیں ہوتے۔
جیسے تیسے، ایک اچھی بری آئینی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کو آ رہے ہیں۔ سب کو پتہ تھا کہ انتخابات ہوں گے، اور جن پارٹیوں کو مینڈیٹ ملے گا، وہ حکومت بنا لیں گی۔ مگر ان پانچ سالوں کے دوران کیا کچھ نہیں ہوا۔ ہر نئے دن حکومت کے جانے اور حکومت کو الٹانے کی خبریں اور خدشات پھیلائے جاتے رہے۔ اب جبکہ لبِ بام دو چار ہاتھ رہ گیا ہے تو بساط الٹانے کے خطرے کو تقویت دینے کا پورا پورا سامان کیا جا رہا ہے۔ درست بات ہے کہ حکومت ہوتی ہی تنقید کے لیے ہے، کیونکہ اسی کو کچھ نہ کچھ کرنے کا مینڈیٹ ملتا ہے، اور اسے اپنا دل اور ذہن فراخ رکھنا چاہیے، اور ہر طرح کی تنقید کو سننا اور برداشت کرنا چاہیے۔ چلیں تنقید تو اپنی جگہ رہی، مگر اکثر سیاسی پارٹیاں اور دوسرے مہم جو عناصر پورے پانچ سال حکومت ختم کرنے کے خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان عناصر میں حکومت کے اتحادی بھی شریک تھے۔ ہاں، مسلم لیگ (ن) ان صفوں سے باہر تھی۔ بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کا سہرا مسلم لیگ (ن) کے سر بندھتا ہے۔
ابھی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے میں چند ماہ باقی تھے کہ پاکستان کے سیاسی نظام کے ایک ایسے”سٹیک ہولڈر“ (طاہرالقادری) پاکستان میں آ وارد ہوئے، جن کے پاس ووٹرز کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ انھوں نے آتے ہی آئین اور قانون اور اسی طرح کے دوسرے معاملات میں ٹانگ اڑانا شروع کر دی۔ لانگ مارچ ہوا، دھرنا دیا گیا۔ جھوٹی سچی دھمکیاں دی گئیں، اور غیر آئینی مطالبات کو منوانے کا ڈھونگ رچایا گیا۔ ان کا اصل زور ایلیکشن کمیشن کو ناکام بنانے پر تھا۔ گو کہ اس کمیشن کو بنے مہینوں گزر گئے تھے، پر انھیں اور کچھ دوسروں کو اب اس کمیشن میں خامیاں نظر آنے لگی تھیں۔ جب یہ حربہ زائل ہوتا معلوم ہوا، تو وہی حربہ اختیار کیا گیا، جو پاکستان کی اکثر سیاسی پارٹیاں اختیار کرتی ہیں۔ یعنی سپریم کورٹ کے سہارے اپنی سیاست چمکانا۔ ایلیکشن کمیشن کوتحلیل کرنے اور نیا کمیشن بنانے کے ان کے مطالبے کو صنم خانے سے کچھ اور پاسباں بھی مل گئے ہیں، جن میں مسلم لیگ (ق)، جو خود حکومت کا حصہ رہی ہے، اور تحریکِ انصاف شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ طاہر القادری کے اس مطالبے کو کچھ دوسری پارٹیوں اور عناصر کی درپردہ حمایت بھی حاصل ہے۔
سپریم کورٹ میں رِٹ بھی دائر کر دی گئی ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایلیکشن کمیشن کے ارکان اور سربراہ کی تقرر ی میں آئینی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اصل اعتراض یہی تھا تو طاہر القادری کینیڈا سے آتے ہی یہ کام کر سکتے تھے۔ جلسے، جلوس، لانگ مارچ، دھرنے، تقریریں، اور دھمکیوں کی کیا ضرورت تھی۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوا، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کا مقصد کچھ اور ہے۔ خیراب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے، اور اب اس معاملے پر ایلیکشن کمیشن کے خلاف جس سیاست کا ڈول ڈالا گیا ہے، اسے تھم جانا چاہیے۔
ایلیکشن کمیشن کے سربراہ اور ارکان کی تقرری پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں، وہ آئینی نوعیت کے ہیں، اور آئین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے متعدد نامی وکلا کی رائے ہے کہ یہ اعتراضات درست ہیں۔ اگر یہ اعتراضات درست ہیں، تو آئین اور قانون کی بالادستی کا تقاضا ہے کہ ان کی تصحیح کی جائے۔ مراد یہ کہ اس صورت میں سپریم کورٹ ایلیکشن کمیشن کے سربراہ اور ارکان کی دوبارہ تقرری کا حکم جاری کر سکتا ہے۔ اور اگر حکومت کی نیت خراب نہیں، تو یہ حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر چند ہی دنوں میں یہ اعتراضات دور کر کے ان تقرریوں کی دوبارہ توثیق کر سکتی ہے۔ یعنی اس میں حکومت کی نیت کا امتحان بھی مقصود ہے۔
تاہم، یہ چیز اہم ہے کہ ہر فریق، خلوصِ دل سے یہ کوشش کرے کہ انتخابات میں زیادہ تاخیر نہ ہو، اور جتنی جلد ممکن ہو، یہی تقرریاں دوبارہ کر دی جائیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ آئین اور قانون کی بالا دستی اور آئینی تقاضوں کی تکمیل کے لیے انتخابات میں چند ہفتوں کی تاخیر کوئی غیر مناسب بات نہیں۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ، پارلیمان اور بالخصوص، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو معاملہ فہمی کا ثبوت دینا ہوگا۔ مراد یہ کہ کسی بھی قسم کے نظریۂ ضروت کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکالی جانی چاہیے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ کہا جائے کہ چونکہ یہ اعتراض یا یہ رِٹ تاخیر سے کی گئی ہے، لہٰذا، یہ جواز سے عاری ہے۔ یا یہ کہ یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایلیکشن کمیشن کے سربراہ اور ارکان کی تقرری میں کچھ آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو اس چیز کو غیرآئینی ہی سمجھا جائے، اور اس کی تصحیح کروائی جائے۔
آخر میں اس معاملے کے ایک نہایت اہم پہلو پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اوپر آئین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے جن وکلا کا ذکر آیا، ان میں ایسے ماہرین بھی شامل ہیں، جن کا فرض تھا کہ وہ ایلیکشن کمیشن کے سربراہ اور ارکان کی تقرری کے ضمن میں ضروری آئینی تقاضوں کی تکمیل کی رہنمائی کر تے۔ سوال یہ ہے کہ انھوں نے اور دوسرے متعلقہ ذمے داروں نے ایسے اہم کام میں بے پروا ئی کا مظاہرہ کیوں کیا۔ کیا اس سارے عمل کو آئین کے مطابق مکمل کروانا وزارتِ قانون کی ذمے داری نہیں تھی۔ اور اگر اس عمل کی تکمیل میں کہیں اس وزارت، یا کچھ دوسروں نے کوتاہی کی ہے تو اس کا نوٹس بھی لیا جا نا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کو تفصیل سے ان تمام معاملات کا جائزہ لینا چاہیے؛ اور آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے ساتھ وزارتِ قانون اور دوسرے ذمے داروں کی کوتاہی کی نوعیت کا جائزہ بھی لینا چاہیے، جس کے سبب عین اس وقت، جبکہ انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں، مہم جوؤں کو انتخابات ملتوی کرانے کا بہانہ ہاتھ آ گیا ہے!
[یہ کالم 12 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں