مراد یہ کہ اگر بجلی کی پیدائش، ترسیل (ٹرانسمِشن) اور تقسیم ایک نجی کاروبار ہوتی تو یہ کاروبار کب کا ٹھپ ہو چکا ہوتا۔ چونکہ بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم پر بڑی حد تک، یا فیصلہ کن حد تک پاکستان کی ریاست کی اجارہ داری ہے، لہٰذا، یہ کاروبار دیوالیہ ہونے کا نام نہیں لیتا۔ گو کہ پاکستان کے عام شہری جل کر راکھ ہو جائیں، پاکستان کے باقی تمام کاروبار تباہ و برباد ہو جائیں، کیونکہ یہ ریاست کا کاروبار ہے، یہ ہمیشہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
ہر کاروبار کی بنیاد منافعے پر ہوتی ہے۔ یعنی ہر انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کاروبار (یا ملازمت) کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی کچھ ضرورتیں پوری کرتا ہے، اور یوں اسے جو آمدنی ہوتی ہے، اس میں سے منافع وضع کر کے اپنی ضرورتیں پورا کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ کاروبار کا مطلب ہے باہم ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنا۔ علمِ معاشیات کی بھی یہی تعریف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کاروبار، یا کاروبار کا جو مالک دوسروں کی ضرورتیں بہتر انداز میں پوری کرتا ہے، اسے زیادہ آمدنی بھی ہوتی ہے اور یوں زیادہ منافع بھی۔ اس کے برعکس جو کاروبار دوسروں کی ضروریات بہتر انداز میں پوری نہیں کر پاتے، وہ ناکام ہو کر ٹھپ ہو جاتے ہیں، یا دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ کاروبار چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی کوئی تفریق نہیں۔ یہ اصول ہر کاروبار پر صادق آتا ہے۔ لیکن ریاستی کاروبار کو استثنیٰ حاصل ہے!
چند برس پہلے، واپڈا کی طرف سے ایک اشتہار ٹی وی چینلز پر چلا اور اخبارات میں چھپا کرتا تھا، آپ کو بھی یاد ہو گا: ’بجلی بچائیں، اپنے لیے قوم کے لیے۔‘ کیا آپ نے کسی کاروبار یا کمپنی کی طرف سے ایسا اشتہار کبھی دیکھا ہے، جس میں کہا جائے کہ اس کمپنی کی شے کم سے کم استعمال کریں۔ یا کبھی آپ نے کوئی شے خریدی ہو اور آپ کو یہ سبق پڑھایا گیا ہو کہ خریدی گئی شے کو کم سے کم استعمال کریں، اوراسے بچا کر رکھیں، اپنے لیے اور قو م کے لیے۔ ہر کاروبار کی بڑھوتری یا ترقی کا انحصار زیادہ سے زیادہ اشیا بنانے اور بیچنے پر ہے، کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے،جس کے ذریعے وہ کاروبار اپنی لاگت کم، اور آمدنی اور منافع بڑھا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہر کاروبار کو منڈی یا مارکیٹ میں دوسرے کاروباروں سے مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے، سو وہ صارف کو یہ سبق کیونکر پڑھا سکتا ہے کہ وہ اس کی بنائی اشیا کم سے کم استعمال کریں، اور اس شے کو بچا کر رکھیں اپنے لیے اور قو م کے لیے۔
پاکستان میں بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم کا معاملہ ابتدا سے ریاست کی اجارہ داری میں رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جس شے اورخدمت کی پیداوار ریاست کی ملکیت ہو، اسے ایک کاروبار کی طرح نہیں چلایا جاتا۔ مراد یہ کہ ریاستی کاروبار اگر منافع نہ کما رہا ہو تو یہ ناکام یا ٹھپ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں مزید اور مزید پیسہ لگایا جاتا ہے۔ کیونکہ ریاست کو یہ پیسہ دستیاب ہوتا ہے، شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کی صورت میں۔ وگرنہ نجی کاروبار ناکام ہو جائے تو کوئی فرد یا کوئی بینک بھی اس میں پیسہ لگانا پسند نہیں کرتا۔ ریاستی کاروبار کی ناکامی کی بڑی بڑی بڑی مثالیں پاکستان ریلوے، پاکستان سٹیل، پی آئی اے، اور بجلی پیدا کرنے والے وہ تمام پلانٹس ہیں، جو ریاست کی ملکیت ہیں۔ یہ سب ریاستی کاروبار منافع کمانا تو کجا، ریاست اور شہریوں پر بوجھ ہیں، لیکن ان کی نجکاری نہیں کی جاتی۔ کیونکہ یہ کاروبار اصل میں قبضہ گروہوں کی دسترس میں ہیں۔
آئیں صرف بجلی کے ریاستی کاروبار پر توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ بجلی بنیادی اور ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ اور یہی ایک ایسی شے ہے، جس نے گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانیوں کی کاروباری کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی زندگی کو ناکامی اور عدم کارکردگی سے دوچار کیا ہوا ہے۔ لہٰذا، اس معاملے میں ریاست کی ناکامی اور نااہلی کو نمایاں کرنا زیادہ اہم ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے کچھ حقائق کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ملک بھر میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم پر ریاست کی مکمل اجارہ داری ہے۔ ہاں، گذشتہ دہائیوں میں نجی کاروباری اداروں کو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی گئی، مگر یہ مشروط ہے اس بات سے کہ وہ اس بجلی کو اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں، بیچ نہیں سکتے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ بڑے بڑے غیرملکی کاروباروں سے معاہدے کیے گئے، جو بجلی پیدا کر کے ریاست کو فروخت کرتے ہیں، اور پھر ریاست اس کی ترسیل اور تقسیم کرتی ہے۔ بجلی کا بحران، جو پچھلی کچھ دہائیوں سے جاری ہے، اس کے پیچھے ریاستی اداروں، ریاستی ذمے داروں، ریاستی اہلکاروں، اور حکمران سیاست دانوں کی نااہلی، بد نیتی، بد عنوانی، اور عدم کارکردگی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ فرض کریں اگر یہ ذمے دار اور اہلکار بجلی پیدا کرنے والی کسی نجی کمپنی کے ملازم ہوتے تو کیا اب تک ان کی ملازمت باقی رہتی۔ بلکہ کیا بجلی پیدا کرنے والی یہ کمپنی بند نہ ہو چکی ہوتی!
نجی کاروبار کا ایک اور اہم خاصہ یہ ہے کہ اس کی ترقی خا صی حد تک ڈیمانڈ یعنی طلب پر منحصر ہوتی ہے۔ طلب کم ہو جائے تو کاروبار کی آمدنی کم ہو سکتی ہے اور منافع بھی۔ طلب بڑھے تو آمدنی کے ساتھ ساتھ منافع بھی بڑھ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بجلی کوئی ایسی شے ہے، جس کی طلب میں کمی ہو گئی ہے، یا ہو جائے گی۔ قطعاً نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روز بروز بجلی کی طلب میں دن دوگنا اور رات چو گنا اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ پاکستانی ریاست بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کا تخمینہ لگانے اور بروقت بجلی کی مزید پیدائش کے لیے انتظامات کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ریاست نے ابتدا سے بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم کو نجی شعبے کے لیے کھولا ہوتا، یا بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم میں نجی شعبے کو شامل کیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ مراد یہ کہ ایک ایسی شے بنانے اور بیچنے کا کاروبار کبھی ناکام نہیں ہو سکتا، جس کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہو۔
اوپر جو بحث ہوئی، اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کاروبار کرنا ریاست کا کام نہیں۔ وہ جب بھی کاروبار کرتی ہے، نہ صرف کاروبار ناکام ہوتا ہے، بلکہ ریاست شہریوں کے ساتھ ساتھ پوری سوسائیٹی کو بھی ناکام کرتی ہے۔ ایک بات یہاں اور غورطلب ہے کہ ریاست جب کاروبار کرتی ہے، وہ اس کاروبار پر اپنا اجارہ قائم کر لیتی ہے، اور اسے دوسرے نجی کاروباریوں سے کوئی مقابلہ درپیش نہیں ہوتا۔ یوں وہ مارکیٹ میں کھیلنے والی اکیلی کھلاڑی ہوتی ہے۔ یہ کیسا کھیل ہوا، جس میں مدِ مقابل ہی کوئی نہیں۔ سو ریاست اور ریاستی اہلکار کھُل کھیلتے ہیں۔ نندی پور، پنجاب، میں لگنے والے پاور پلانٹ کے مقدمے کے ضمن میں حال ہی میں سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ کیا ہے: ’لوگ لوڈ شیڈنگ سے مر رہے ہیں، سیکریڑی خزانہ اور سیکریڑی پانی و بجلی میٹنگ تک کرنا گوارا نہیں کرتے، آپ جیسے لوگوں کو تو جیل جانا چاہیے۔ نندی پور پاور پلانٹ کی لاگت 23 ارب سے بڑھ کر 57 ارب تک پہنچ گئی ہے، جو غفلت اور عدم دلچسپی کی بدترین مثال ہے۔ چار سال سے فائل کو دبا کر رکھا گیا، لیکن جس کام میں مفاد ہو، اس کی فائل فوری طور پر حرکت میں آ جاتی ہے۔‘
آخر میں ریاستی کاروبار کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ حال ہی میں ایک 80 سالہ بزرگ کو نیب کی درخواست پر انٹر پول نے بوسنیا کی سرحد پر گرفتار کیا۔ یہ سابق لیفٹینینٹ جینرل زاہد علی اکبر(ریٹائرڈ) ہیں۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین بھی رہے ہیں، اور واپڈا (واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمینٹ اتھاریٹی) جیسے اہم ادارے کے چیئر مین بھی۔ ان پر مبینہ طورپر 267.61 ملین روپے کی بدعنوانی اور ریاستی فنڈز میں خرد برد کا الزام ہے۔ بدعنوانی اور خرد برد، نجی کاروبار میں بھی ہو سکتی ہے، تاہم، اتنی بڑی بد عنوانی کی صورت میں عام کاروبار بیٹھ جاتا ہے۔ مگر بجلی کا کاروبار (واپڈا اور پیپ کو) ریاستی کاروبار ہے، یہ کیونکر بیٹھ سکتا ہے۔ شہریوں کو لوٹو اور ریاستی کاروبار چلاتے جاؤ۔ اصل میں ریاستی کاروبار دہکتی ہوئی ایک بھٹی ہے، جس میں شہریوں کا ٹیکس کا پیسہ جھونکتے جاؤ، جھونکتے جاؤ، جھونکتے جاؤ۔ حاصل کیا ہو گا: کرپشن، کرپشن، کرپشن!
[یہ کالم 2 جون کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں