انگریزی کے عظیم شاعر چاؤسر کی ایک سطر ہے: حکم نہ لگاؤ، کہیں تم پر حکم نہ لگ جائے۔ مراد یہ کہ جب کوئی شخص کسی معاملے پر رائے دیتا ہے تو وہ خود اپنے بارے میں بھی رائے دے رہا ہوتا ہے۔ آئین کی دفعات 62 اور 63 کے موجودہ اطلاق پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ اگر ایک طرف ایک حلقے سے جینرل مشرف (ر) کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو جاتے ہیں تو دوسرے حلقے سے مسترد۔ دوسری طرف، اداکارہ مسرت شاہین اور میرا کے کاغذات کی منظوری ان دفعات اور ان کے اطلاق سے متعلق کئی دلچسپ سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا ان دفعات کا منشا صرف یہ ہے کہ کوئی بھی شخص متعلقہ معلومات ازبر کر لے۔ اداکاروں کو تو ویسے ہی مکالمے یاد کرنے اور یاد رکھنے میں ملکہ حاصل ہوتا ہے، سو یہ دونوں کامیاب ٹھہریں۔ ہوا یہ کہ جب ریٹرننگ افسروں نے خواہش مند امید واروں پران دفعات کا اطلاق شروع کیا تو ایک واویلا مچ گیا۔ اس پر میرا ردِ عمل یہ تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست دانوں نے جو کچھ کیا، وہ خود انھیں پر نافذ ہو گیا۔ کیا سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں نے ان دفعات میں مذہب اور نظریۂ پاکستان سے متعلق شقوں کے اضافے کے وقت یہ سوچا تھا کہ ان کا اطلاق خود ان پر ہو جائے گا۔ بالکل نہیں۔ کیونکہ پاکستانی سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ گو کہ وہ قانون بناتے ہیں، لیکن یہ قانون ان کے لیے نہیں؛ صرف عام شہریوں کے لیے ہے۔ جیسے جعل سازی کا قانون، سیاست دان اور قانون ساز سمجھتے تھے کہ ان کے لیے نہیں؛ بے چارے عام جعل سازوں کے لیے ہے۔ لیکن یہ قانون بالآخر خاص جعل سازوں پر بھی اُلٹا پڑ گیا۔
اس کالم کا مقصد یہ ہے کہ دفعات 62 اور 63، جس صورت میں یہ آج کے آئین میں موجود ہیں، ان کی تاریخ اور ارتقا کو قارئین کے سامنے رکھا جائے۔ موجودہ کالم میں گورنمینٹ آف انڈیا ایکٹ 1935، اور بعد ازاں دوسرے کالموں میں 1956، اور 1962، اور پھر 1973 کے اصل آئین میں ان کی صورت اور نوعیت کا جائزہ لیا جائے گا۔ صاف بات ہے کہ 1935 کے ایکٹ میں نااہلیت کی ایسی کوئی دفعات موجود نہیں، جن کی رو سے ارکان کو مذہب یا نظریۂ تاجِ برطانیہ کی بنیاد پر جانچا جا سکتا ہو۔ حتیٰ کہ جب اس ایکٹ کو ترمیم شدہ صورت میں پاکستان کے ابتدائی آئین کی حیثیت سے اختیار کیا گیا، اس وقت بھی ایسی کوئی دفعات اس کا حصہ نہیں تھیں۔ ہاں، وہ تمام دفعات موجود تھیں، جو اخلاقیت اور جُرمیت، یعنی اخلاق اور جرم پر مبنی تھیں۔
جب پاکستان بنا، یہاں اس وقت بھی مسلمان ہی رہتے تھے۔ یہ نہیں ہوا کہ پاکستان میں مسلمان اس وقت وارد ہوئے، جب ان کے مذہب کو ریاستی آئین کا حصہ بنا لیا گیا۔ یعنی یہ نہیں ہوا کہ جب ریاست نے مسلمانوں کو مسلمان بنانے کا فریضہ سنبھالا، پاکستان میں تب مسلمان بننے شروع ہوئے۔ یا اس کے بعد مسلمان زیادہ مسلمان ہو گئے۔ ترمیم شدہ گورنمینٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں نااہلی کی دفعات موجود تھیں۔ اس ایکٹ کے تحت وفاقی مجلسِ قانون ساز اور دو صوبوں، یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے دو صوبائی مجالسِ قانون ساز بنائی گئی تھیں۔ دفعہ 26، اخلاقیت اور جرمیت کی بنیاد پر وفاقی مجلس کی رکنیت سے نااہلی کی شرائط وضع کرتی ہے۔ جبکہ دفعہ 27 میں اس سزا کا ذکر ہے، جس کا کوئی شخص اس وقت مستوجب ہو گا، جبکہ وہ رکنیت کا اہل نہ ہو یا اسے نااہل قرار دے دیا گیا ہو، وہ پھر بھی مجلس میں بیٹھتا اور ووٹ دیتا ہے۔ دفعہ 69 میں صوبائی مجالسِ قانون ساز کی رکنیت سے نااہلیت کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔ یہ بھی اخلاقیت اور جرمیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ دفعہ 70 اس صورت میں صوبائی مجلس میں بیٹھنے اور ووٹ دینے کی سزا سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ کوئی رکن نااہل ہو یا اسے نااہل قرار دے دیا گیا ہو۔
سزا کی دفعہ کے مطابق اگر کوئی شخص مجلس میں رکن کی حیثیت سے بیٹھتا اور ووٹ دیتا ہے، جبکہ وہ اہل نہ ہو، یا اسے نااہل قرار دے دیا گیا ہو، یا اسے دفعہ 26 کی شق 3 کی رو سے ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہو، تو اس سے ہر دن کے لیے، جب وہ مجلس میں بیٹھتا ہے یا ووٹ دیتا ہے، 500 روپے روزانہ کے حساب سے وفاق کو واجب الادا قرض کے طور پر وصول کیے جائیں گے۔ صوبائی مجلس کے ضمن میں، دفعہ 70 کہتی ہے کہ اگر کوئی شخص صوبائی قانون ساز اسیمبلی یا مجلسِ قانون ساز میں رکن کی حیثیت سے بیٹھتا ہے یا ووٹ دیتا ہے، جبکہ وہ نااہل ہو یا اسے نااہل قرار دے دیا گیا ہو، یا دفعہ 69 کی شق 3 کی رو سے اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہو، تواس سے ہر دن کے لیے، جب وہ مجلس میں بیٹھتا ہے، یا ووٹ دیتا ہے، 100 روپے روزانہ کے حساب سے وفاق کو واجب الادا قرض کے طور پر وصول کیے جائیں گے۔
اس ایکٹ میں وفاقی اور صوبائی مجالس کے ارکان کے لیے مراعات، وغیرہ، سے متعلق دفعات شامل ہیں۔ وفاقی مجلس کے ضمن میں دفعہ 28، اور صوبائی کے لیے دفعہ 71۔ موجودہ آئین میں بھی ایسی اک دفعہ (66) شامل ہے، جو ارکان کی مراعات، وغیرہ، سے تعلق رکھتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سزا سے متعلق دفعات 27، اور 0 7 کے متوازی کوئی دفعہ موجود ہ آئین کا حصہ نہیں۔ یعنی مراعات کو تو سمیٹ لیا گیا، اور نااہلی کی شرائط بھی بیان کر دی گئیں، لیکن نااہلی کے ضمن میں سزا کو آئین کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ چونکہ ایسے کسی شخص کے لیے موجودہ آئین میں کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے، جو قومی اور صوبائی اسیمبلیوں یا سینیٹ کا رکن بن جائے، ان کے اجلاس میں شریک ہوتا، اور ووٹ بھی دیتا رہے، جبکہ وہ ان میں سے کسی کا بھی رکن بننے کا اہل نہ ہو، یا اسے نااہل قرار دے دیا گیا ہو، یا اسے نااہلی کی دفعات کی رو سے قومی، یا صوبائی اسیمبلی، یا سینیٹ میں بیٹھنے سے روک دیا گیا ہو۔
یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ قومی اسیمبلی اور صوبائی اسیمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے کہ کتنے ہی ارکان جعلی ڈگریوں کے حامل تھے۔ پھر ایک معقول تعداد ایسے ارکان کی بھی تھی، جو دوہری قومیت رکھتے تھے۔ یہ تمام ارکان آئین میں شامل رکنیت سے متعلق نااہلی کی دفعات کی رو سے نااہل تھے، لیکن خود اسیمبلیوں نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ حکومت نے بھی ان سے چشم پوشی کی۔ بلکہ انھیں تحفظ مہیا کیا۔ رہ گئی سول سوسائیٹی، میڈیا اور پھر اعلیٰ عدالتیں، تو پاکستان میں آئین اور قانون کا درد بس انھیں کے دل میں ہے۔ قومی اسیمبلی، صوبائی اسیمبلیاں، اور سینیٹ، یہ تو آئین اور قانون سے روگردانی کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ مراد یہ کہ پارلیمان اور صوبائی اسیمبلیوں کے وہ تمام ارکان جو نااہل تھے، ان کے لیے آئین میں کوئی سزا مذکور نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان سے عام ملکی قوانین کے مطابق پیش آیا جائے گا۔ اس مرحلے کا آغاز بھی مشکل سے ہوا ہے، اور دیکھیں کہاں اور کب تک چلتا ہے۔
اس ضمن میں کئی اہم سوال حکومت، اعلیٰ عدالتوں، اور آئین و قانون کے ماہرین کی توجہ کے مستحق ہیں۔ ایک تو یہ کہ قومی اور صوبائی اسیمبلیوں میں، خاصی تعداد ایسے ارکان پر مشتمل تھی، جو ان کے رکن بننے کے نااہل تھے، یا بعد ازاں انھیں نااہل قرار دے دیا گیا، تو اس صورت میں ان اسیمبلیوں کی آئینی حیثیت پر کوئی حرف آتا ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان اسیمبلیوں نے جو قانون سازی کی، اس کی آئینی حیثیت کیا ہے۔ تیسرے یہ کہ کیا اس ایلیکشن کمیشن سے باز پرس کی جائے گی، جس نے ماضی میں نااہلی کی دفعات کو نظرانداز کیا، اور امیدواروں کو آئینی معیار پر نہیں پرکھا۔ چوتھے یہ کہ ایسے ارکان جو آئین اور قانون کی روسے نااہل تھے، یا بعد میں انھیں نااہل قرار دے دیا گیا، انھوں نے جو تنخواہیں، الاؤنسز، اور مالی اور غیر مالی مراعات حاصل کیں، کیا ان کی واپسی ممکن بنائی جائے گی۔ آئین میں نااہلوں کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی، تو کیا عام ملکی قوانین کے مطابق انھیں بلا امتیاز کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ سوالات اخلاقیت اور جرمیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھیں بھی درخورِ اعتنا سمجھا جانا چاہیے!
[یہ کالم 14 اپریل کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں