کراچی، بلدیہ ٹاؤن کی گارمینٹس فیکٹری میں گذشتہ ستمبر میں لگنے والی آگ کو، جس میں ڈھائی سو سے زیادہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، نجی اور سرکاری کوتاہی کے ساتھ ساتھ مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس دل دہلا دینے والے سانحے پر میرا ایک کالم ”حکومتیں آگ میں کب جلیں گی“ پہلے ہی شائع ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں متاثرہ خاندانوں کے نقصان کی تلافی کے ساتھ ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرنا، ناگزیر ہے۔ یوں، ان لوگوں کی کچھ نہ کچھ تسلی و تشفی ہو سکتی ہے، جن کے کھوئے ہوئے سہارے اور دلوں کے پیارے بے وقت اپنی زندگیاں ہار گئے۔ بلکہ انصاف کی فراہمی کے عمل کے ساتھ یہ توقع بھی جوڑی جا سکتی ہے کہ نجی کاروبار اور سرکاری ادارے آئندہ ہوشیار رہیں گے اور ایسی مجرمانہ کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوںگے۔ یہ کہنے سے مرا د یہ ہے کہ ایک ایسی سوسائیٹی میں، جہاں قانون اور قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے موجود ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ کارگر اور موثر ہیں یا نہیں، وہاں شہری یہ توقعات ضرور پال لیتے ہیں کہ ان کا نقصان، خواہ وہ جان کا ہو یا مال کا، اس کی تلافی ہو نہ ہو، انہیں رائج الوقت قانون کے تحت انصاف ضرور ملنا چا ہے؛ یہ ان کا حق ہے۔
ایسا ہونا اور ایسا کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو وہ ملوث کہے جائے گی۔ پھر یہ بھی کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مختلف قسم کے شکاری، جو ہر سوسائیٹی کی طرح پاکستان میں بھی گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، اس طرح کے سانحات اور حادثات کو اپنے تعصبات کو پھیلانے اور تقویت دینے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بات بھی صاف ہے کہ اگر قانون اپنا کام نہ کر رہا ہو تو ہر طرح کے مفادات اور تعصبا ت کو سر اٹھانے اور اپنا الو سیدھا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بلدیہ فیکٹری کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایک طرف متاثرین کے خاندا ن ہیں، ان کی ہمدرد بائیں بازو کی جماعتیں اور گروہ ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ متعدد این- جی- اوز کو بھی ایک مصروفیت ہاتھ آگئی ہے، اور وہ بھی اس مشن کی علمبردار بن بیٹھی ہیں۔ پہلے تو ان سب کا مطالبہ یہ رہا کہ بلدیہ فیکٹری کے مالکوں پر فیکٹری کے کارکنوں کو منصوبہ بند انداز میں قتل کرنے کا مقدمہ درج کیا اور چلایا جائے۔ پھر اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑ ھ کر، اب انہوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ متذکرہ فیکٹری کو متاثرہ خاندانوں کے لیے بحالی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے۔ کیا کوئی قانون اس چیز کی اجازت دیتا ہے، یا یہ مطالبہ محض انتقامانہ تعصب کا شاہکار ہے!
ایک اخبار(’داایکسپریس ٹریبیون‘) کی رپورٹ کے مطابق کئی این- جی- اوز نے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کی مبینہ دخل اندازی کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ انہوں نے عدالت سے اس فیکٹری کو آگ سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لیے ایک مرکزِ بحالی میں تبدیل کرنے کے لیے حکم جاری کرنے کی درخواست بھی کی۔ یہ پھر وہی بات ہے کہ اگراشرافی طبقوں کو مداخلتِ بے جا کا موقع ملا تو اس کے مقابلے میں مختلف دکانیں سجائے، ہمدردی کے ٹھیکیداروں کو بھی اپنا اپنا سودا بیچنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ملک کے منتظمِ اعلیٰ، یعنی وزیرِ اعظم کو ایسا یا کسی بھی قسم کا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے تھا، جس سے قانون اور انصاف کے کام کے ضمن میں ان کی مداخلت کا شک پڑتا ہو۔ بلکہ انہیں تو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ قانون اور انصاف آزادانہ اپنا کام کر سکیں۔ مگر پاکستان میں یہی کچھ تو ہے جو ہوتا نہیں۔ نتیجتاً، بھانت بھانت کے شکاری اپنے اپنے شکار کی تلاش میں نکل آتے ہیں۔
دوسری طرف بلدیہ فیکٹری کے مالک، صنعت کار، کاروباری اور ان کی تنظیمیں، اور ان کے اتحادی ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک اور خبر (’دا نیوز‘) کے مطابق کراچی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ فیکٹری کے مالکوں کے خلاف فیکٹری کے کارکنوں کے منصوبہ بند قتل کا جو الزام عائد کیا گیا ہے، اسے واپس لیا جائے۔ چیمبر کا کہنا ہے کہ وہ ابتدا ہی سے ایک صنعتی حادثے کے ضمن میں پاکستان پینل کوڈ 302 (سوچا سمجھا قتل) کے نفاذ کے خلاف رہا ہے؛ کیونکہ چیمبر یہ سمجھتا ہے کہ کوئی صنعت کار یا کاروباری خود اپنی فیکٹری کو تباہ، اور اپنے کارکنوں کو قتل نہیں کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ پھر اس معاملے میں کیا ہونا چاہیے۔ آیا دونوں گروہوں، یعنی بلدیہ فیکٹر ی کے متاثرین اور ان کے حامیوں، اور بلدیہ فیکٹری کے مالکوں اور ان کے حامیوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ دونوں اپنا اپنا اثر و رسوخ، طاقت اور دباؤ استعمال کریں، اور جو بھی جیسے بھی ہتھکنڈے وہ چاہیں، ان سے کام لیں، اور بالآخر جو بلوان ہو، اپنے مطالبے منوالے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جو طاقت ور ہو گا، وہ جیت جائے گا۔ تو کیا یہ ایک رسہ کشی ہے، جس میں جس سرے پر زیادہ طاقت والے موجود ہیں، وہ رسہ کھینچ لے جائیں۔ تو پھر قانون کا کیا منشا ہے۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ کیونکہ قانون اپنا کام نہیں کرتا، اس لیے رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے۔ مگر، یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ ہر سانحے یا معاملے پر رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے، اس لیے قانون اپنا کام نہیں کر پاتا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اگر آئین اور قانون موجود ہے؛ قانون کی حکمرانی کا تصور موجود ہے؛ قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے موجود ہیں، جیسے کہ پولیس، وغیرہ؛ اورعدالتیں موجود ہیں، جو ملک کے قانون کی رو سے انصاف مہیا کرنے کی پابند ہیں؛ تو کیا ایسے میں انتقام اور تعصب کو، یا پھر اشرافی رسوخ کو غالب آنے دیا جائے، یا اس معاملے کو قانون کے مطابق دیکھا، پرکھا، حل ہونے دیا جائے، اور انصاف مہیا ہونے دیا جائے۔ یہاں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ چونکہ پاکستان میں قانون اور انصاف اپنا کام نہیں کرتے، اسی وجہ سے مختلف پریشر گروپس، با اثر شخصیات، اور اشرافی رسوخ -- اپنا اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تمام اثرات اور دخل اندازیاں قانون کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ مختلف تنظیموں، این- جی- اوز، اور ایسے ہی دوسرے سماجی فریقوں کو اپنے تعصب اور نظریات، یا نظریاتی تعصب کو طاق میں رکھ کر، اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ قانون آزادانہ اپنا کام کر رہا ہے، اور اس کی راہ میں کسی بھی جانب سے روڑے نہیں اٹکائے جا رہے۔ حکومت اور قانون کا نفاذ کرنے والے اور انصاف مہیا کرنے والے ادارے کسی اثر و رسوخ سے متاثر نہیں ہو رہے، اور متاثرین کو انصاف مہیا ہو رہا ہے۔ انہیں اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے چوکس اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ خود قانون اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ ایک غیر جانبدارنہ تفتیش عمل میں آئے، جو ہر معاملے کے ہر پہلو کو آنکے، پرکھے اور جانچے، اور یوں انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور پھر انصاف ہو، اور ہوتا نظر بھی آئے۔ بلدیہ فیکٹری کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس معاملے کے ضمن میں انتقام، تعصب، اشرافی اثر و رسوخ کا شائبہ بھی نہیں پڑنا چاہیے۔ مراد یہ کہ انتقام اور نظریاتی تعصب کے بجائے قانون اورانصاف کو غالب آنا چاہیے!
[یہ کالم 5 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں