پنجاب میں جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنتی ہے، یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ نت نئے تجرے کیےجاتے ہیں، اور ہر مرتبہ نئے تجربے کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ مزید کمیاب اور مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس کے ساتھ جڑے مسائل اور تکالیف کبھی حل نہیں ہو پاتیں۔ ذیل میں اسی طرح کے ایک تجربے کا جائزہ لیا گیا ہے، جو مسلم لیگ (ن) کے طرزِ حکمرانی کا شاہکار تھا۔ یہ تجربہ کب کا لِپٹ چکا۔ کھیل ختم، پیسہ ہضم!
آج کل ’’لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی‘‘ (ایل ٹی سی) کے نام سے ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ابھی جاری ہے، اور اس کے کوئی بہتر نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس تجربے کے سے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل ہونے کی کوئی امید نہیں باندھی جا سکتی۔ اس کا ایک تصویری نمونہ دیکھیے۔ یہ تصویر ’’دا نیوز‘‘ کو 13 جنوری 2013 کو شائع ہوئی۔ ہاں، جیسا کہ اس تصویر سے ظاہر ہے، یہ تجربے ہر اعتبار سے شہریوں پر بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔
تو پھر ان تجربوں سے کیا حاصل ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ، جیسا کہ پنجابی میں کہتے ہیں: میریاں آنیاں جانیاں ویکھو! یعنی دوڑ دھوپ بڑی نظر آتی ہے، لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ ہاں، کسی بڑے ٹرانسپورٹر کا بھلا ضرور ہو جاتا ہے، یا پھر تجربے سے جڑے افراد اور گروہوں کا۔
پبلک ٹرانسپورٹ: اجارہ داری کی حکومتی پشت پناہی
ہما را خاصہ ہے کہ لوگوں کو سہولت بھی اس طرح مہیا کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اذیت بن جائے۔ اس کی تازہ ترین مثال لاہور میں چلائی جانے والی نئی بس سروس ہے۔
بڑے عرصے سے یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ویگنیں نہ صرف یہ کہ ٹریفک کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ مسافروں کے لیے بھی ناکافی ہیں اور ان میں سفر بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ پچھلی حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کی۔ ”لاہور ٹرانسپورٹ سسٹم“ کے تحت بڑی بسیں چلانے کا آغاز ہوا، لیکن یہ بسیں 56 اور 19 صرف دو روٹوں پر چل سکیں۔ پھر یہ کہ قاعدے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی بنا پر یہ بسیں بھی مروجہ مسافر دشمن روش پر آ کر جم گئیں۔
نواز شریف حکومت نے اور بالخصوص معزول وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس مسئلے کو حل کرنے میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بڑی بسیں چلانے کے لیے ایک نئی سکیم کا آغاز ہوا۔ لیکن اس سکیم کی تمام منصوبہ بندی بیورو کریٹک انداز میں کی گئی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے ضمن میں پبلک کی ضروریات اور خواہشات کو قطعاً پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ بیورو کریسی نے شاہانہ انداز میں اوپر سے سہولیات نازل کیں اور سمجھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ لیکن اصل میں ہوا کیا! پبلک ٹرانسپورٹ لوگوں کے لیے اور زیادہ اذیت ناک اور مہنگی ہوگئی۔
نئی ٹرانسپورٹ سکیم کے تحت اولاً ایک نجی کمپنی نے لاہور میں ایک نمبر روٹ کا آغاز کیا۔ اس کمپنی کو پنجاب حکومت کا مالی اور عملی تعاون حاصل ہے۔ حکومت کے ساتھ اس کمپنی کے معاہدے میں مختلف شرائط شامل کی گئیں۔ مثلاً یہ کہ ایک نمبر روٹ پر آر- اے بازار تا ساندہ 30 بسیں ہر تین منٹ بعد صبح پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک چلیں گی۔ اوور لوڈ نگ نہیں ہوگی۔ ابتدا میں لوگوں کی سہولت کے پیشِ نظر تعارفی کرایہ رکھا گیا۔ یہ تعارفی کرایہ زیادہ سے زیادہ دس روپے تھا۔ جی ہاں، دس روپے۔ معاہدے کی شرائط کے مطابق اس روٹ پر چلنے والی ویگن نمبر 24 کو بند کر دیا گیا۔ ویگن کا زیادہ سے زیادہ کرایہ 6 روپے تھا۔ یوں لوگوں پر بس کی سہولت کے ساتھ ساتھ یک دم 4 روپے کی مہنگائی بھی لاد دی گئی۔ کرائے کے معاملے پر اول روز سے ہی شدید احتجاج ہوا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس روٹ کے کرایوں پر نظر ثانی کی گئی او ر زیادہ سے زیادہ کرایہ 8 روپے ہو گیا۔ دوسرے سٹاپوں کے کرایوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ آر اے بازار سے بیٹھیں، خواہ انار کلی اتریں خواہ ساندہ ، کرایہ 8 روپے ہو گا۔ کرایوں پر یہ نظر ثانی یقینا محکمہ ٹرانسپورٹ کے ”باہمی تعاون“ سے ہوئی ہو گی۔
ویگن نمبر 24 کے مالکان نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ حکومت نے اس روٹ پر ایک نجی کمپنی کی اجارہ داری قائم کر دی۔ بلکہ اس اجارہ داری کو مزید منافع بخش بنانے کے لیے لاہور ٹرانسپورٹ سسٹم کی بس نمبر 19 کو بھی بند کر دیا گیا، جو مال روڈ پر نئی بس نمبر 1 کی راہ میں حائل ہوتی تھی۔
اس نجی کمپنی نے متذکرہ شرائط کے تحت ریلوے سٹیشن تا ساندہ روٹ پر بس نمبر 3 چلائی۔ بس نمبر 3 کی اجارہ داری کے لیے اسی روٹ پر چلنے والی ویگن نمبر 25 کو بند کر دیا گیا۔ اسی طرح بس نمبر 2 کے روٹ پر ویگن نمبر 13 کو بند کیا گیا۔ یوں مسافروں کو تین روٹوں پر متبادل پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم کر کے ایک کمپنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور یہ سب کچھ پچھلی اور موجودہ حکومت کی سر پرستی میں ہوا۔
ان تین روٹوں پر مسافروں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ انہیں نہ صرف لوٹا جا رہا ہے، بلکہ لٹنے کے لیے ایک کمپنی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ان سے متبادلات کے انتخاب کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ وہ نہ صرف ان بسوں میں بیٹھنے پر بلکہ از حد زائد کرایہ ادا کرنے پر بھی مجبور ہیں؛ کیونکہ کوئی اور متبادل ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں۔ جو متبادل ٹرانسپورٹ دستیاب تھی، اسے حکومت نے اجارہ داری کی پشت پناہی کرتے ہوئے خود بند کر دیا ہے۔
بلاشبہ ویگن سروس میں بہت خرابیاں تھیں۔ لوگ اس سے بہت تنگ تھے، لیکن جب سے یہ نئی بس سروس متعارف ہوئی ہے، لوگ ویگن سروس کے حق میں ہو گئے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت روٹ نمبر 12 کی ویگن سروس اور 4 نمبر کی نئی سروس کے درمیان ہونے والا حقیقی موازنہ ہے۔ جس دن ایک نمبر بس سڑک پر آئی، اسی دن اس روٹ پر چلنے والی ویگن نمبر 24 کو بند کر دیا گیا۔ اب مسافر بس میں بیٹھنے پر مجبور تھے۔ ویگن نمبر25 اور نمبر 13 کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ 3 نمبر اور 2 نمبر بس چلتے ہی انہیں بند کر دیا گیا۔ حکومت کی سرپرستی میں ایک نجی کمپنی کو کھلا میدان مہیا کیا گیا، جہاں اسے کسی دوسرے فریق سے کوئی مقابلہ در پیش نہیں تھا۔ لیکن ویگن نمبر 12 کے روٹ پر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی بندش سے قبل ہی ویگن والوں نے ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ لہٰذا، جس تاریخ کو اس روٹ پر بس سروس کا آغاز ہوا، اس دن ویگن سروس بند نہ کی جا سکی۔ یوں بس سروس اور ویگن سروس میں کھلا مقابلہ ممکن ہو گیا۔ یہی وجہ تھی کہ بس نمبر 4 کے کرائے، جو ویگن کی نسبت زیادہ تھے، بعد ازاں، ویگن کے کرایوں کے برابر کر دیے گئے۔ (اور یقینا اس روڈ پر ویگن سروس کی مکمل بندش کے ساتھ ہی ان کرایوں کو باقی روٹوں کی طرح بڑھا دیا جائے گا!) لیکن اس کے باوجود لوگوں نے بس سروس کو نظر انداز کر دیا۔ ویگن سروس کامیابی سے چلتی رہی اور بسیں خالی ڈبوں کی طرح کھڑکھڑاتی رہیں۔ پہلوان منتظر رہا کہ حکومت آ کر اس کے حریف کو میدان سے بھگائے اور وہ اپنی کامیابی کا جشن منائے۔
اس کھلے مقابلے میں بہت سی باتیں سامنے آئیں، لیکن اربابِ اختیار کی آنکھیں بند کی بند رہیں۔ مئی کے آغاز میں ویگن کے کرائے بڑھا دیے گئے، جبکہ بس سر وس کے کرایوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود مسافروں نے بس سروس کو گھاس نہ ڈالی۔ وہ زیادہ کرایہ دے کر بھی ویگن میں سفر کر کے خوش تھے۔ کیا حکومتی ذمے داران نے اس بارے میں سوچنے کی زحمت گوارہ کی؟ قطعاً نہیں! اس روٹ کے ضمن میں جیسے ہی حکمِ امتناعی ختم ہوا، حکومت اپنا لاﺅ لشکر لے کر میدان میں آ گئی اور ویگنوں کو نکال باہر کیا تا کہ اس کا بغل بچہ اپنی کامیابی کا ڈگا بجا سکے۔
نئی ٹرانسپورٹ سکیم کی ساری منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے انداز کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بس سروس کس کے لیے چلائی گئی ہے۔ کیا کسی نجی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے، یا لوگوں کو سفر کی سہولت مہیا کرنے کے لیے! بظاہر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سے چند بڑے ٹرانسپورٹرز کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے، کیونکہ اس سکیم کی منصوبہ بندی میں لوگوں کی ضرورت، سہولت اور معیشت کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ روٹوں، مسافروں کی تعداد، رش کے اوقات، وغیرہ، کے لیے کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ ویگن سروس کی خامیوں کو بس سروس میں دور کرنے کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔ بس اس ایک نکتے کو پکڑ کر ”عوام“ کے سروں پر یہ سہولت نازل / مسلط کر دی گئی کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا حل ویگن سروس کی بندش اور بس سروس کا اجرا ہے۔
ویگن سروس اور نئی بس سروس کا موازنہ، ڈائیوو کی ائیر کنڈیشنڈ بس سروس سے بھی کیا جانا چاہیے۔ اس سروس کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ بسیں انسانوں نے انسانوں کے لیے بنائی ہیں۔ ابتدا میں اس بس سروس کا تعارفی کرایہ 6 روپے تھا۔ یہ ریلوے سٹیشن تا چونگی امر سدھو، خاصا طویل فاصلہ طے کرتی ہے۔ اس کی راہ میں حائل ہونے والی ویگنوں، منی بسوں اور بسوں کو بند نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود یہ بس سروس کامیاب رہی۔ اب اس کا فِکسڈ کرایہ بڑھا کر 8 روپے کر دیا گیا ہے، لیکن یہ اب بھی کامیاب ہے۔ حکومت کے ذمے داران کو اپنے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں اور گاڑیوں سے باہر آ کر اصل حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کی نوعیت کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جانا چاہیے۔
ویگن سروس میں جو خرابیاں تھیں، ان کا تعلق مسافروں یا ویگن مالکان سے نہیں ہے، بلکہ ان کا سہرا بھی حکومت کے سر ہی بندھتا ہے! حکومت ٹریفک قوانین اور دوسرے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ خطرناک ڈرائیونگ، گنجائش سے زیادہ سواریاں بٹھانا‘ ویگنوں میں زائد سیٹیں لگانا، رش کے اوقات میں ویگنوں کا کم دستیاب ہونا، سواریاں بھرنے کے لیے ویگنوں کو مختلف سٹاپوں پر بے جا ٹھہرائے رکھنا، روٹ پورا نہ کرنا، خواتین کے لیے ویگنوں میں سیٹوں کی عدم دستیابی، اور اسی طرح کی دوسری خرابیوں کی ذمے داری آخرِ کار حکومت کے سر آتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے اور ان خرابیوں کو دور کرنے کے بجائے حکومت نے عجیب و غریب حل یہ نکالا کہ ویگنیں ہی بند کر دی جائیں۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ کیا کل کلاں تمام پبلک ٹرانسپورٹ بھی اسی طرح بند کر دی جائے گی۔
یہی وجوہات ہیں، جن کے سبب نئی بس سروس ابتدا ہی میں ناکام ہوگئی ہے، کیونکہ مذکورہ بالا تمام خرابیاں اس بس سروس میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بس سروس کی ناکامی کا بڑا سبب ویگن سروس کی خوبیاں بھی ہیں۔ بس سروس کے اجرا کے وقت ان خوبیوں یا نکات کو مد نظر رکھنا گوارا نہیں کیا گیا۔ بلکہ آج سے کافی سال پہلے جب ویگن سروس کا آغاز ہوا تو اس کے کرائے زیادہ ہونے کے باوجود سرکاری اور نجی بس سروس کی ناکامی کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرما تھے۔ ویگن سروس کی ایک بڑی خوبی تو یہ ہے کہ یہ تقریباً چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔ ہر روٹ پر رات گئے تک ویگنیں مل جاتی ہیں۔ دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ ویگنیں کسی سٹاپ تک پہنچنے میں مجموعی طور پر بہت کم وقت لیتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔ ڈائیوو کی بس سروس کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ 12 نمبر ویگن کو لوگوں نے اسی وجہ سے قابل ترجیح سمجھا؛ گرچہ بس کی نسبت اس کا کرایہ زیادہ تھا۔ ویگن سروس کی یہ دونوں خوبیاں نئی بس سروس کی سب سے بڑی خامیاں قرار پائی ہیں۔ اگرچہ شرائط کے مطابق، مثلاً، ایک نمبر بس ہر تین منٹ بعد اور 4 نمبر بس ہر دو منٹ بعد چلنی چاہیے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ان شرائط پر عمل درآمد کون کروائے گا اور اس عملدرآمد کی نگرانی کون کرے گا۔ زیادہ مسافر نہ ہونے کی صورت میں یہ دو یا تین منٹ بڑھ کر آدھ گھنٹہ اور رات کے وقت ایک گھنٹہ بھی ہو گئے ہیں۔ پھر یہ کہ اس بات کو کون یقینی بنائے گا کہ یہ بس سروس صبح سے رات تک کے مقررہ اوقات میں دستیاب بھی رہے گی اور یہ کہ مثلاً ایک نمبر روٹ پر 30 عدد اور 4 نمبر روٹ پر 65 بسیں چلتی رہیں گی۔ حقیقتاً ہوا یہ ہے کہ یہ بس سروس بھی ڈرائیوروں، کنڈکٹروں اور کمپنی اہلکاروں کی من مرضی کی بس سروس بن چکی ہے اور یہ تمام بے قاعدگیاں بڑے زور و شور سے اپنا کام دکھا رہی ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ اس نئی بس سروس کے ذریعے دوسری سہولتیں چھیننے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے رات کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی چھین لی گئی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ شرائط میں بسوں کا مجموعی وقت ویگنوں کی نسبت کافی زیادہ رکھا گیا ہے۔ اصل میں یہ کام بھی انتہائی بیوروکریٹک انداز میں ہوا۔ 24 نمبر ویگن آر- اے بازار سے سیکریٹریٹ تک زیادہ سے زیادہ 20 سے 25 منٹ لیتی تھی۔ بس سروس کے لیے یہ وقت دوگنا قرار دیا گیا۔ یہ تو شرائط کی بات تھی (جن پر عملدرآمد یقیناً ناممکن ہے!)۔ واقعتاً یہ بسیں تین گنا زیادہ وقت لے رہی ہیں۔ مسافروں کے لیے یہ انتہائی اذیت ناک بات ہے۔ وقت کے لحاظ سے انہیں آگے لے جانے کے بجائے پیچھے لے جایا جارہا ہے۔ جہاں وہ دس منٹ میں پہنچتے تھے، وہاں اب ان کے 40-30 منٹ ضائع ہونے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ آفت ٹوٹی ہے کہ اس کمپنی نے ٹکٹوں کی فروخت میں ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کا کمیشن رکھ دیا ہے۔ اب تو بسیں یا سٹاپوں پر کھڑی رہتی ہیں، یا سڑکوں پر رینگتی رہتی ہیں۔ نئی بس سروس کی یہ صور تِ حال دن بدن مزید خراب ہو رہی ہے۔
اوپر اس سکیم کی منصوبہ بندی اوراس پر عملدرآمد کے ضمن میں بیوروکریٹک انداز کی بات ہوئی ہے۔ یہ محض کلیشے یا الزام نہیں ہے اور نہ ہی بیورو کریسی کو روٹین کی گالی دینا مقصود ہے۔ اس سے جو کچھ مراد ہے، اسے سمجھنے کے لیے محض اتنا جان لینا کانی ہے کہ اسلام پورہ اور ساندہ کی تنگ گلیوں اور بازاروں میں یہ بڑی بسیں چلانے کا فیصلہ وہی شخص کر سکتا ہے، جس نے نہ تو یہ گلیاں بازار دیکھے ہیں اور نہ ہی یہ بسیں۔ اب ان گلیوں اور بازاروں میں ان بسوں کی وجہ سے اکثر ٹریفک جام رہتا ہے، جبکہ یہاں جان لیوا حادثات اپنی جگہ ہیں۔
ویگن نمبر 12 روٹ پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نئی بس سروس کو لوگوں نے مسترد کر دیا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں مسافروں کی ضروت اور سہولت کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ایک طرف ویگنوں کی نسبت کرائے بہت زیادہ رکھے گئے اور دوسری طرف ان کا وقت بہت زیادہ رکھا گیا۔ اور پھر یہ کہ خود ان بسوں نے شروع ہی سے بیل گاڑی کی چال چلنے کی عادت ڈال لی۔ ہاں، اس سکیم کی منصوبہ بندی میں اس بات کو ضرور مدِ نظر رکھا گیا کہ کسی ٹرانسپورٹر، کسی نجی کمپنی کو فائدہ کس طرح پہنچایا جائے۔ ابھی اس نئی بس سروس کو شروع ہوئے صرف ایک برس ہوا ہے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ سروس ساڑھے تین کروڑ خسارے میں جا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی پشت پناہی اور ویگنوں کی بندش کے باوجود یہ بس سروس مالی نقصان کا شکار کیوں ہے؟ یا حقائق کچھ اور ہیں؟ کیا ایک نیا ”ٹیکسٹائل سیکٹر“ وجود میں آ رہا ہے! سیدھی سی بات ہے کہ خسارے دکھانا کونسا مشکل کام ہے! اگر حکومتی تعاون اور سرکاری تحفظات کے باوجود یہ سکیم خسارے میں ہے تو پھر تو حکومت کو آخری حربے کے طور پر یہ قانون بنا دینا چاہیے کہ ہر شخص ان بسوں میں سفر کرے، ورنہ وہ قانون کا مجرم قرار پائے گا اور سزا کے طور پر اس کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں گی تا کہ وہ پیدل سفر بھی نہ کر سکے۔
یہاں ایک بڑی مثال کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ کراچی جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے، جتنا لاہور میں ہے۔ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ وافر دستیاب ہے اور لاہور کی نسبت انتہائی سستی بھی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا وہاں ڈیزل سستا ہے یا لوگ زیادہ غریب ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں مسافروں کو دونوں ہاتھوں سے کیوں لوٹا جاتا ہے اور انہیں تذلیل کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود حکومت اس سارے عمل کی پشت پناہی اور سرپرستی کیوں کرتی ہے۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اربابِ اختیار کو مسافروں کے بجائے ٹرانسپورٹروں کے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ”یکمشت کرایہ“ ادا کر کے پنجاب کے محکمۂ ٹرانسپورٹ سے کوئی بھی کرایہ نامہ منظور کروایا جا سکتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال موجودہ اپریل میں ویگنوں کے کرایوں میں کیا جانے والا بے تحاشہ اضافہ ہے۔ پھر یہ کہ فیس ادا کر کے کسی بھی قسم کی کھٹارہ ویگن، منی بس، بس کا فِٹنیس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا کونسا مشکل کام ہے!
آخر میں بس یہ ”فریاد“ کرنا باقی رہ گیا ہے کہ اس سکیم کے ذمے داران، اس پر عمل درآمد سے تعلق رکھنے والے اہلکاران، محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسران، اس معاملے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہونے والی رٹوں کی سماعت کرنے والے جج صاحبان، اور مقتدر مانیٹران کو بھی عام مسافروں کی طرح مختلف اوقات میں ان بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنا چاہیے تا کہ انہیں اس مسئلے کی شدت اور اس کے ساتھ چپکی ہوئی اذیت کا احساس ہوسکے۔ اس طرح شاید پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا کوئی ایسا حل نکل سکے، جو ٹرانسپورٹرز اور محکمۂ ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مفاد میں بھی ہو، اور جس میں لوگوں کی ضرورت اور سہولت کو بھی مدنظر رکھا گیا ہو۔
فی الوقت صورتِ حال کی بہتری کے لیے فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنی انسانی، اخلاقی اور قانونی ذمے داری پوری کرتے ہوئے اجارہ داری کی پشت پناہی اور سرپرستی نہ کرے۔ ویگنوں اور نئی سکیم کی بسوں کوساتھ ساتھ چلنے دیا جائے۔ انہیں کھلے مقابلے کا موقع دیا جائے۔ ان میں سے جو بھی لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو گا، باقی رہ جائے گا۔ دوسرا خود میدان سے بھاگ جائے گا۔ ہاں، حکومت کو ٹریفک قوانین اور دوسرے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کے سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرنے میں کسی تساہل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کی طرف یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔
[یہ فیچر 27 جون - یکم جولائی، 2000 کو لکھا گیا، اور ہفت روزہ زندگی لاہور کے شمارہ 23 تا 29 جولائی، 2000 میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں