منگل، 10 ستمبر، 2013

پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت

نوٹ: انتخابات کے بعد 23 مئی کو ’’دا ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں نفیسہ رضوی کا ایک مضمون، ’’افسوس بچو، ہم نے اسے غلط سمجھا‘‘ چھپا۔ یہ بہت اکسانے والا مضمون تھا۔ میں نے سوچا اس کا جواب لکھنا چاہیے۔ پر میرا جواب کسی بھی اخبار میں چھپے گا کیسے۔ میرا تو کوئی کنیکشن نہیں، کون چھاپے گا میرے جواب کو۔ سو میں ڈھیلا پڑ گیا۔ پر کوئی ہفتے بعد ہی 31 مئی کو اسی اخبار میں کامران شفیع کا جواب شائع ہوا۔ خاصا مناسب جواب تھا۔ یہ دونوں مضمون ضرور ملاحظہ کیجیے:



چونکہ نفیسہ رضوی کا مضمون مجھے بہت چبھا تھا، لہٰذا، میں نے سوچا اسے اردو میں بیان کیا جائے اور اس کا جواب بھی لکھا جائے اور اردو کے قارئین کو بتایا جائے کہ اشرافیہ کی سوچ، ذہنیت، اور مائنڈ سیٹ کس قسم کا ہے۔ یوں، میرا جواب کل چار کالموں پر مشتمل ہے۔ یہ چاروں کالم روزنامہ مشرق پشاور ـ اسلام آبار میں شائع ہوئے۔

پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت

اس کالم کا عنوان میں، ”پاکستانی اشرافیہ کی سوچ“، یا پھر ”پاکستانی اشرافیہ کا ذہن“ رکھنا چاہتا تھا، مگر مجھے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا کہ یوں بات نہیں بنے گی، لہٰذا، فیصلہ ذہنیت کے لفظ پر ہوا۔ ویسے بھی اس کالم میں، میں خود کچھ نہیں کہنا چاہتا، جس کا الزام مجھ پر عائد ہو، میں تو صرف دکھانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی اشرافیہ کی سوچ کیا ہے، اور اس کے پیچھے کس قسم کی ذہنیت کارفرما ہے۔ ہوا یوں کہ گذشتہ ماہ عام انتخابات کے بعد ایک انگریزی اخبار (دا ایکسپریس ٹریبیون) میں ادارتی صفحے پر ایک مضمون شائع ہوا۔ یہ اخبار خود بھی اشرافیہ پسند ہے۔ یہ مضمون نفیسہ رضوی نے لکھا ہے، جو انگریزی ناول، ”نیلا کمرہ“ کی مصنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ آرٹ کی نقاد بھی ہیں، اور ایک آزاد کیوریٹر اور ماہرِ تعلیم بھی۔ مضمون کا عنوان ہے: ”افسوس بچو، ہم نے اسے غلط سمجھا۔“ ذیل میں اس مضمون کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجیے:

’جیسے جیسے انتخابات کا زور و شور بڑھا، مجھے اپنے نوجوان بچوں کو بتانا پڑا کہ پاکستانی ووٹ ڈالنے کے معاملے میں بہت سمارٹ ہوتے ہیں۔ 1988 میں ووٹروں نے مولویوں کو باہر نکال پھینکا، اور سیکولر حکمرانی کو ترجیح دی۔ انھوں نے دونوں فوجی آمروں، ضیا الحق اور جینرل (ریٹائرڈ) مشرف کے مضحکہ خیز ریفرینڈم دیکھے، جن کے ذریعے ہر دو نے اپنے اپنے ایجینڈے کو توثیق بخشی۔ لیکن آج، مجھے اپنے بچوں کو تاسف کے ساتھ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ انھوں نے جو پہلے انتخابات دیکھے، ہم نے انھیں غلط سمجھا۔ پاکستان کے عوام نے تبدیلی کے لیے نعرہ لگایا، لیکن اسے ووٹ دینے کے بجائے، اس کے خلاف ووٹ دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس ضمن میں پہلے کوئی شک و شبہ موجود ہو، مگر اب تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہم ایک رجعت پسند قوم ہیں؛ روایت پسندی، جاگیرداری، غلیظ پیسے کی سیاست، اور کرپشن سے آشنائی کو ووٹ دینے والے، اور ایک بہتر، روشن تر مستقبل سے منہ موڑ لینے والے۔

شاید ابھی ہماری ابتلا اور مصیبت اپنی انتہا کو نہیں پہنچیں؛ اگر ہمارا دکھ کافی گہرا ہو چکا ہوتا تو ہم سچی بصیرت اور واضح آگہی حاصل کر چکے ہوتے اورمختلف انداز میں ووٹ دیتے۔ خیبر پختون خوا کے لوگوں کا معاملہ ایسا ہی ہے، جنھیں ایک تباہ کن جنگ نے بری طرح جلا ڈالا ہے۔ اگر پوری قوم اسی مصیبت سے گزری ہوتی، جس سے خیبرپختون خوا کے عوام گزرے ہیں تو نتائج کی سمت کچھ اور ہی ہوتی۔ پارلیمان کے اندر نئے تازہ چہروں کی ایک منڈلی قطاروں میں بیٹھی ہوتی، اور پرانے، فرسودہ، ہمیشہ موجود رہنے والے چہرے حزبِ اختلاف میں چھُپے بیٹھے ہوتے۔ اب یہ اس کے بالکل برعکس ہو گا، کیونکہ ہم خود کو جتنا قائل کرنا چاہیں کر لیں کہ حزبِ اختلاف کچھ نہ کچھ کرنے کی اہل ہوتی ہے، پر اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ اتنی ہی تکلیف دہ ہے، جتنا کوئی بے دانت مچھر۔

یہ درست ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے سیاسی لغات کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا ہے۔ کارنر جلسے، سوشل میڈیا کا استعمال، اور غیر معمولی ٹیلی وژن اشتہار بازی نے انتخابی مہم کو گلیوں سے نکال کر گھروں کا حصہ بنا دیا؛ جس کے سبب کچھ صورتوں میں یہ زیادہ شخصی اورقابلِ تشخیص ہو گئی۔ یوں مبہم نظریاتی گفتگو میں کمی واقع ہوئی اوربڑے بڑے مسائل کے مخصوص حل کیا ہیں، اس سے متعلق بحث زیادہ ہوئی ۔تاہم، اہم ترین بات یہ ہے کہ اخلاقی راستی کا معاملہ اس مباحثے کا مرکز و محور بن کر سامنے آیا؛ ایک ایسی بدنامی، اس سے قبل جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں تھا، کیونکہ اپنی تاریخ میں ہم کبھی انحطاط کی ایسی گہرائیوں تک نہیں گرے تھے۔ لیکن موجودہ انتخابات میں حاصلات کی مصلحت پسندانہ فہرست، ہم میں سے کسی کے لیے بھی کافی نہیں، جنھیں اپنے زخموں کے لیے مرحم کی ضرورت تھی۔ مورچہ بند سیاست دانوں کی شکست قدرے تسکین دہ ہے، جو اپنے حلقوں میں فرمانروا رہے ہیں۔ پھر بھی ہمیں کچھ متروک سیاست دانوں کو دیکھنے کی تکلیف گوارا کرنی ہو گی، جنھیں ہم دوبارہ کبھی نہ دیکھنے کی امید باندھ چکے تھے۔ یہ وہ ملبہ ہے، جسے ہم اپنی زندگی میں سے نکال دینے کی آرزو کر چکے تھے، مگرجنھیں ہمیں آئندہ پانچ برس برداشت کرنا ہوگا۔ ایسے سوال جن کے جواب دستیاب نہیں، اور خطابت کا سیلاب، ہم ابھی اور یہیں جس کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، انھیں ابھی انتظار کرنا ہو گا، اور شاید وقت کے ساتھ یہ شکنیں ہموار ہو جائیں گی۔ لیکن کراچی میں بسے لوگوں کی آزمائش میں کمی ہونے کا ابھی کوئی امکان نہیں۔ ایک ذرہ بھی تبدیل نہیں ہوا، اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے۔‘

جب یہ مضمون میری نظر سے گزرا تو میں نے اسے یہ سوچ کر محفوظ کر لیا تھا کہ مناسب وقت پر اس کا جواب لکھنے کی کوشش کروں گا۔ مگر ہفتہ بھر بعد اسی اخبار میں ایک جوابی مضمون، بعنوان، ”تو اصلاً آپ کو کیا سمجھ نہیں آیا؟“ شائع ہوا۔ اس کے مصنف کامران شفیع ہیں۔ اس کے کچھ حصوں کا ترجمہ یہاں پیش ہے: مصنف نے پہلے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ایک دوست اور ان کی بیوی غیر ملک میں چھٹیا ں گزار کر انتخابات کے نتائج کے بعد ملک واپس پہنچے۔ ان کی بہو نے، جس کی عمر بیس تیس برس ہوگی، استفسار کیا: ”آنٹی، ہم سب نے عمران کو ووٹ دیا، اور پھر بھی وہ ہار گیا۔“ ان کی ساس نے اپنے مالی لطیف کو بلوایا، اور پوچھا، اس نے کسے ووٹ دیا: ”بی بی، اساں تے شیرآں پائے جے“ (یعنی بی بی ہم نے شیر کو ووٹ دیا)۔ ساس نے نوجوان بہو کو سمجھایا؛ ”دیکھو بیٹی، ہر کسی نے عمران کو ووٹ نہیں دیا۔“ مگر بہو بضد تھی: ”لیکن، آنٹی، یہ کیسے ممکن ہے کہ میں جسے بھی جانتی ہوں، اس نے عمران کو ووٹ دیا، اور وہ پھر بھی نہیں جیتا۔“ کامران شفیع کہتے ہیں کہ چونکہ اس قسم کے استدلال کا کوئی توڑ نہیں، لہٰذا دلیل یہاں بے بس ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد کامران شفیع مذکورہ بالا (نفیسہ رضوی کے) مضمون کی طرف آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز اور لغو مضمون تھا۔ مضمون کے عنوان، ”بچو، ہم نے اسے غلط سمجھا“ کے جواب میں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے: ”تو اصلاً آپ کو کیا سمجھ نہیں آیا؟“ کامران شفیع مضمون کی سطروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: اس مضمون میں تکبر اورخود راستی کی انتہا ہو گئی ہے۔ اورہاں لغویت کی بھی، جو مضمون کی ہر سطر سے ٹپکی پڑتی ہے۔ وہ مصنفہ سے پوچھتے ہیں: پاکستان کے دانا اور ”سمارٹ “عوام، جنھوں نے ضیا الحق اور کمانڈو جیسے آمروں کو مسترد کر دیا تھا، جب انھوں نے عمران خان کی پارٹی کو خاصی تعداد میں ووٹ نہیں دیے، تو وہ یکدم رجعت پسند کیسے ہو گئے؟ انھوں نے ”روایت پسندی، جاگیرداری، غلیظ پیسے کی سیاست کو ووٹ دے دیا؟ آئیں لگی لپٹی رکھے بغیر سیدھے سے انداز میں جمشید دستی کی بات کرتے ہیں۔ وہی جعلی ڈگری والے جمشید دستی، جنھیں سپریم کورٹ نے گھر بھیج دیا تھا، اور جنھوں نے دو ماہ بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں اپنی نشست دوبارہ جیت لی تھی۔

جمشید دستی غریب آدمی ہیں۔ وہ کوئی جاگیر دار نہیں۔ ان کے پاس کوئی غلیظ پیسہ نہیں۔ ہاں، انھوں نے 2002 کے انتخابات لڑنے کے لیے بی- اے کی جعلی ڈگری استعمال کرنے کا جرم ضرور کیا۔ لیکن، کیا تحریکِ انصاف میں کوئی بھی ایسا نہیں، جس پر بشمول جعلی ڈگری، غلط کام کرنے کا الزام نہ ہو؟ اس بات کو بھی یاد رکھیے کہ اس مرتبہ جمشید دستی نے قومی اسیمبلی کی ایک نہیں بلکہ دو نشستیں جیتیں، اور وہ بھی دو بڑے بڑے جاگیرداروں کو شکست دے کر۔ حنا ربانی کھر کو این- اے 178 سے اور نوابزادہ منصورعلی خان کو این- اے 177 سے۔ انتخابی مباحثے میں بغض وعناد کو متعارف کروانے کے بجائے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ ان کے بچوں کا یہ پہلا انتخاب تھا، شاید مصنفہ کوانھیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ وہ جمشید دستی کی مثال کی پیروی کرنے کی کوشش کریں اور اپنے لیڈروں کو بھی جمشید دستی کی پیروی کرنے پر مجبور کریں، جن کے لیے اپنے ووٹروں کی خدمت اہم ہے۔ ان بچوں کو چاہیے کہ جمشید دستی کے بارے میں پڑھیں، اور یہ سمجھیں کہ پاکستان کے عوام اتنے رجعت پسند نہیں، جتنا آپ کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کامران شفیع نے کچھ اور اہم نکات پر بھی توجہ دی ہے۔ آئندہ کالم میں ان نکات اور پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت پر بحث جاری رہے گی۔ یہ بہت اہم ہے؛ مراد یہ کہ پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ اور آئندہ کالم میں، میں خود بھی بالخصوص اول الذکر مضمون پر تفصیلی تبصرہ کرنا چاہوں گا۔

[یہ کالم 12 جون کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں