بدھ، 11 ستمبر، 2013

ایٹم بم کے ٹکڑے یا پاکستان کے ٹکرے!

موجودہ پاکستان میں کس قسم کا مکالمہ چل رہا ہے، آئیے ایک مثال پر رکتے ہیں:

آج 27 اگست کو روزنامہ جنگ کی خصوصی اشاعت میں میر خلیل الرحمٰن سوسائیٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) اور دی سٹی سکول کے زیرِ اہتمام ’’ویلیو ایجوکیشن کانفریرینس‘‘ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ کانفیرینس کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عبد القدیر خان تھے۔

[یہ تصویر تحریکِ تحفظِ پاکستان کے فیس بک صفحے سے لی گئی ہے۔]

رپورٹ کے کچھ حصے ملاحظہ کیجیے:

’’پاکستان کے پاس اگر ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت کب کا ہمارے ٹکڑے کر دیتا اور یہ بم کوئی اور نہیں بنا سکتا تھا۔ یہ کام صرف اور صرف میں ہی کر سکتا تھا۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میں نے کن حالات میں کتنی کم لاگت اور کتنے کم عرصہ میں ایٹم بم بنا دیا۔ پاکستان اگر آج ناقابلِ تسخیر ہے تو صرف اور صرف ایٹم بم کی وجہ سے ہے۔

’’ان خیالات کا اظہار محسنِ پاکستان، ایٹمی سائنسدان اور تحریکِ تحفظِ پاکستان کے سربراہ ڈٓاکٹر عبد القدیر خان نے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ آف نیوز  پیپرز) اور دی سٹی سکول، فیصل آباد کے زیرِ اہتمام منعقدہ ’’ویلیو ایجوکیشن کانفرنس‘‘ کے موقع پر کیا۔

’’محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان اور تحریک تحفظ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی تباہی کی بڑی ذمہ داری ہمارے ملک میں موجود تعلیمی نظام پر ہی عائد ہوتی ہے۔ تعلیمی نظام کی بربادی کی ایک بڑی وجہ نقل ہے جو کہ ہمارے ہاں طالب علم امتحانات میں کر رہے ہوتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں بچے امتحانات میں کتابیں لے کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اس طرح سے امتحانات دے کر پاس ہونے والے لوگ بعد میں ہمارے حکمران بن جاتے ہیں اور اس کے بعد یہی لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہیلتھ، زراعت، تعلیم، سائنس کیا ہے اور پھر وہ ہر چیز کے ماہر ہو جاتے ہیں اور اس ملک کو تباہی کی طرف لے جانا شروع ہو جاتے ہیں۔

’’ہمارے زمانے میں اتنا اچھا نظام تعلیم تھا کہ وہاں پر نقل کا تصور ہی نہیں تھا۔ 1950 کی دہائی میں میں نے گریجویشن کی اور کبھی بھی یہ نہیں سنا تھا کہ کوئی نقل کرتا پکڑا گیا یا کوئی پرچہ آؤٹ ہو گیا ہے۔ آج کل تو پرچے بھی آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو کہ آپ کی رہنمائی کرتی ہے۔ چین، انڈیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں تعلیم کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔

’’ہمارے ہاں تو حکمران جعلی ڈگریاں بنوا لیتے ہیں اور پھر حکمران جیسے ہوتے ہیں عوام بھی ویسا رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ اور پروفیسرز نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اب تو بہت سے اساتذہ نے ٹیوشن سنٹرز کھول لیے ہیں یا پھر سکول اور کالج میں ہی ٹیوشن کے لیے بلاتے ہیں بچوں کو اور پھر ان سے ہزاروں روپے بٹورتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں اس کا تصور تک نہ تھا کہ کوئی ٹیوشن پڑھے۔

’’ہمارے زمانے میں جب امتحانات کے لیے چھٹیاں ہوتی تھیں اور ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا تو ہم استاد کے گھر پہنچ جاتے تھے اور ان کے گھر کی زنجیز سے دروازہ کھٹکٹاتے تھے اور جو بھی باہر آتا تھا اس کو کہتے تھے استاد صاحب کو بلا دیں ہم ان کے شاگرد ہیں۔ وہ باہر آتے تو ہم ان کو بتاتے کہ یہ مسئلہ ہے اور وہ اپنی چھوٹی سی بیٹھک کھول کر ہمیں بٹھاتے تھے اور ہمیں جو سمجھ نہیں آتا تھا وہ سمجھا دیتے تھے۔ ٹیوشن کا کوئی تصور ہی نہ تھا اس وقت لوگ بہت دیانتدار تھے جنہوں نے ہمیں انتہائی موثر تعلیم دی جو ابھی تک ہمارے کام آ رہی ہے۔

’’بہت سے ممالک میں ٹیکنیکل تعلیم الگ سے دی جاتی ہے اور دوسری تعلیم الگ ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اور بہتری کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی جاتی۔ ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا قدرتی وسائل دیے ہیں ہمیں تعلیم اور صحت جیسے شعبوں پر توجہ دینی چاہیے۔ جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے انڈیا کی ہمت نہیں ہوئی کہ پاکستان سے جنگ کے بارے میں سوچے۔ جب تک پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا انڈیا اور پاکستان میں جنگیں ہو چکی تھیں۔‘‘

کانفیرینس کے دیگر مقررین میں میاں عمران مسعود (سابق صوبائی وزیرِ تعلیم پنجاب)، پروفیسر ڈاکٹر اویس فاروقی (چیئرمین فوکس پاکستان)، میں محمد ادریس (چیئرمین ستارہ گروپ) اور بریگیڈیر موادت حسین (ماہرِنفسیات) شامل تھے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے یہ خیالات، جو ایک تقریر کی صورت میں سامنے آئے، پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ایک بہاؤ میں ادا کیے گئے ہیں۔ بالخصوص تعلیم کے بارے میں انھوں نے جو رائے بیان کی ہے، وہ محض تاثرات کا درجہ رکھتی ہے۔ ہاں، ایٹم بم، بھارت اور پاکستان کی بقا کے بارے میں ان کے بیانات سوچے سمجھے خیالات معلوم ہوتے ہیں۔ اور اگر انھیں اخبار میں شائع کیے گئے اپنے بیانات پر کوئی اعتراض ہوتا تو اب تک اسے تصحیح کی صورت میں شائع ہو جانا چاہیے تھا۔ تاحال ایسا نہیں ہوا ہے۔

تعلیم کے متعلق ان کے تاثرات سے قطع نظر، ایٹم بم، پاکستان کی بقا اور بھارت کے بارے میں انھوں نے جو کچھ ارشاد فرمایا، میں اس پر رکنا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اس قسم کے خیالات کو پرکھا اور تولا جانا چاہیے؛ کیونکہ یہ پاکستان کے سیاسی مکالمے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ پہلے ہی ایک رائے عامہ تشکیل دے چکے ہیں۔

ایک مرتبہ پھر دیکھیے، وہ کیا کہتے ہیں: ’’پاکستان کے پاس اگر ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت کب کا ہمارے ٹکڑے کر دیتا اور یہ بم کوئی اور نہیں بنا سکتا تھا۔ یہ کام صرف اور صرف میں ہی کر سکتا تھا۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میں نے کن حالات میں کتنی کم لاگت اور کتنے کم عرصہ میں ایٹم بم بنا دیا۔ پاکستان اگر آج ناقابل تسخیر ہے تو صرف اور صرف ایٹم بم کی وجہ سے ہے۔‘‘

اس پیرے میں سے بھی مجھے صرف پہلے جملے پر ٹکنا ہے۔ باقی کے دعاوی اور ایٹم بم سے متعلق کفایت شعاری پر کوئی ماہر ہی بہتر گفتگو کر سکتا ہے۔ سستے اور مہنگے ایٹم بم کے مسئلے پر بھی میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت کب کا اس کے ٹکرے کر چکا ہوتا۔ وہ اپنی دلیل کو مزید وزنی بناتے ہوئے کہتے ہیں: ’جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے، انڈیا کی ہمت نہیں ہوئی کہ پاکستان سے جنگ کے بارے میں سوچے۔ جب تک پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا انڈیا اور پاکستان میں جنگیں ہو چکی تھیں۔‘

پاکستان 1998 میں ایک ایٹمی طاقت بنا۔ اس سے قبل پاکستان، بھارت کے ساتھ دو بڑی جنگیں (1965 اور 1970) لڑ چکا تھا۔ ڈاکٹر قدیر کے بیان کے مطابق اگر پاکستان کے پاس 1971-1970 میں ایٹم بم ہوتا تو مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش نہ بنتا۔ کیونکہ جب سے پاکستان ایک ایٹمی طاقت بنا ہے، تب سے بھارت، پاکستان کے ساتھ جنگ کی ہمت نہیں کر سکا ہے۔

ان کی دلیل کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایٹمی طاقت بن کر نہ صرف جنگوں سے بچا جا سکتا ہے، بلکہ ملک کی سالمیت کو بھی قائم رکھا جا سکتا ہے۔

دنیا میں کتنے ہی ملک ہیں، جو ایٹمی طاقت ہونا تو کجا، اسلحے کے اعتبار سے کوئی چھوٹی موٹی طاقت بھی نہیں۔ کیا انھیں کسی ملک کی طرف سے جنگ کا خطرہ نہیں۔ کیا کوئی ملک ان کے حصے بخرے کرنے کے درپے نہیں۔ جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔

اس ضمن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ کی پہلی سوچ اور پہلا ردِ عمل جنگ کا ہے تو آپ کو ہر طرف دشمن نظر آئیں گے۔ اور اگر آپ کی پہلی سوچ اور پہلا ردِ عمل امن پسندی کا ہے تو آپ کو کوئی دشمن نظر نہیں آئے گا۔ اور اگر نظر آئے گا بھی تو آپ اسے دوست بنانے کے ایجینڈے پر کام کریں گے۔

تقسیم کے بعد، ابتدائی برسوں میں بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نہایت دوستانہ تھے۔ کبھی ان دنوں کی تاریخ اور حالات پڑھیے اور جانیے۔ 1965 کی جنگ سے پہلے تک پاکستان اور بھارت میں ’’مصنوعی دشمنی‘‘ کی ایسی فضا موجود نہیں تھی، جیسی کہ آج بنا دی اور پیدا کر دی گئی ہے۔ بلکہ یہ فضا اور یہ ذہنیت باقاعدہ سوچ سمجھ کر پیدا کی گئی۔

میں پاکستانی ہوں اور اس ضمن میں، میں پاکستان کی ذمے داری کی بات کروں گا۔ میرا اندازِ نظر دوسروں پر ذمے داری ڈالنے والا نہیں۔ میں اس ماں کی طرح نہیں سوچتا، جو اپنے بچوں کو معصوم سمجھتی ہے اور دوسروں کے بچوں پر اپنے بچے کو خراب کرنے کا الزام دھرتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ اگر ہم اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے گریبان میں اور اپنے اندر جھانکنا ہو گا۔ دوسروں کے گریبان میں جھانکنا، بداخلاقی کی انتہا ہو گی۔

یہی سبب ہے کہ میں پاکستان کو ایک ذمے دار ملک کے طور پر پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک ایسے ملک کے طور پر جو اپنی غلطیاں اور خامیاں چھپاتا نہیں، بلکہ انھیں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے۔ میں پاکستان کو ایک ذمے دار اور امن پسند ملک کی حیثیت سے دنیا کے سامنے ایک مثال بنتے دیکھنا چاہتا ہوں۔

کہیں کہیں ایسے نشانات اور کوششیں کی بھی گئی ہیں۔ خود ریٹائرڈ فوجی افسران ایسی کتابیں اور مضامین لکھ چکے ہیں، جن میں انھوں نے بھارت کے ساتھ جنگوں کے حوالے سے پاکستان کو ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ جہاں تک مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی بات ہے تو اس معاملے میں ہی کئی سبق آموز حقائق چھپے ہوئے ہیں۔

پہلا سبق تو یہ کہ اگرجمہوریت کے تقاضوں کو پورا کیا جاتا، اور اس وقت کے آئینی بندوبست پر عمل کیا جاتا، اور یوں روڑے اٹکائے بغیر عوامی لیگ کو حکومت بنانے دی جاتی، تو مشرقی پاکستان میں وہ حالات پیدا ہی نہ ہوتے، جن کے نتیجے میں وہاں فوج کشی کی گئی۔ بلکہ کہنے کی بات تو یہ ہے کہ فوج کشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ جب بھی تشدد اور فوج کشی سے کام لیا جاتا ہے تو اس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔    

دوسرا سبق یہ ہے کہ بھارت، پاکستان پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا۔ یا جیسا کہ تنگ نظر پاکستانی سمجھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے بھارت نے علاحدہ کیا ہے۔ جبکہ ہوا یوں کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کشی کے نتیجے میں  بھارت کو وہاں قابض ہونے کا موقع مل گیا۔ بلکہ بھارت وہاں پوری طرح قبضہ کر چکا تھا، اور وہ چاہتا تو ایسے ہی قابض رہتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس نے وہاں سے اپنی فوجیں نکال لیں۔ اور بنگلہ دیش کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس سے یہ سبق بھی اخذ ہوتا ہے کہ بھارت، پاکستان کے ٹکڑے نہیں کرنا چاہتا، ہاں اگر پاکستان اسے ایسا موقع فراہم کرے گا تو ایسا ہونے کا غالب امکان ہے۔

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی ذمے داری پاکستان کے سیاست دانوں پر ہے، بھارت پر نہیں۔ اسی طرح آج بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی ذمے داری سیاست دانوں پر ہے۔ کل کلاں اگر نوبت بلوچستان کے علاحدہ ہونے تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی ذمے داری سیاست دانوں پر ہو گی، بھارت پر نہیں۔

یعنی پاکستان کا ایٹم بم، پاکستان کی سالمیت کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ نہ ہی اس نے بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے روکا ہوا ہے۔

پھر یہ بھی کہ کارگل کی مہم جوئی 1999 میں کی گئی، جبکہ پاکستان 1998 میں ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ مراد یہ کہ پاکستان کا ایٹم بم، کارگل کی جنگ کو روک نہیں سکا، اور نہ ہی یہ جنگ جتوا سکا۔ بلکہ کارگل کی جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا، جو دونوں ممالک کے شہریوں کی اجتماعی فنا کو حقیقت کا روپ دے سکتا تھا۔

کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، بھارت نے پاکستان پر کوئی علانیہ حملہ نہیں کیا۔ ہاں، جب مئی 1998 میں پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے، تو یہ محض جذبات اور احساسات کا معاملہ تھا۔ یعنی پاکستانی حاکمانہ ذہنیت صرف جذباتی اور احساساتی سطح پر سوچ رہی تھی۔ پاکستان کی طرف سے جوابی ایٹمی دھماکے غیر ذمےدارانہ حرکت تھی۔ جیسا کہ پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ دوسرے کا منہہ لال دیکھ کر اپنا منہہ تھپڑ مار مار کر لال کر لیا جائے۔

[اس پر میں نے ایک مضمون بعنوان ’’ایک بم ہزار غم‘‘ لکھا تھا، جلد ہی اسے بلاگ پر پوسٹ کیا جائے گا۔]

پاکستان کو اس وقت ایک ذمے دار ملک ہونے کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔ اسے تحمل اور تامل سے کام لینا چاہیے تھا۔ اور بھارت کے اس اقدام کو اخلاقی بنیادوں پر مسترد کرنا چاہیے تھا۔ یوں پاکستان کو نہ صرف دنیا کے امن پسند شہریوں کی حمایت حاصل ہوتی، بلکہ پاکستان کو عالمی امن کو تقویت دینے کا کریڈٹ بھی ملتا۔


آخر میں یہ کہہ کر میں اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں جو بھی جیسا بھی سیاسی مکالمہ جاری ہے، اس کی کوالیٹی نہایت کم تر ہے؛ اور یہ بات بھی اہم ہے کہ اس مکالمے میں امن پسندی کا ذکر کم ہی نظر آتا ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جنھیں کاغذی اور برقی میڈیا نمایاں جگہ دیتا ہے، ڈاکٹر قدیر کی طرح ان میں سے بیشتر لوگ جنگ اور امن دشمنی کے سحر میں گرفتار ہیں!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں