یہ بات درست ہے کہ مافیا گروہ ہر جگہ جنم لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ مافیا گروہوں کے جنم لینے اور پرورش پانے کے لیے ہر زمین، زرخیز اور ہر ماحول سازگار نہیں ہوتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان ممالک میں، جہاں آئین اور قانون کی بالا دستی ہوتی ہے اور ان کی حکمرانی کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، وہاں مافیا گروہوں کا جڑ پکڑنا پانی کی غیر موجودگی میں کسی پودے کی افزائش کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً ترقی یافتہ ممالک، جیسے کہ امریکہ میں بھی مافیا گروہ تشکیل پا جاتے ہیں، لیکن وہاں ان کا بچنا، ترقی پانا، مضبوط ہونا، پھلنا پھولنا خارج از امکان تو نہیں کہا جا سکتا، مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ ریاست ان کے پیچھے لگی رہتی ہے، اور ان کے خاتمے اور فنا تک چین سے نہیں بیٹھتی۔ اس حقیقت کو مختصر الفاظ میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جرم کسی سرزمین سے کلی طور پر ختم نہیں ہو پاتا، اس کی مکمل بیخ کنی کبھی ممکن نہیں ہوتی؛ لیکن، اگر ریاست اور حکومت چاہیں تو اس کے پنپنے اور جنم لینے کے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے؛ اور اسے پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
ریاست کے قیام کا اولین مقصد ہی یہ ہے کہ امن پسند اور قانون پسند شہریوں کی جان ومال اور آزادی کو امن دشمن اور قانون دشمن افراد اور گروہوں سے تحفظ مہیا کیا جائے۔ باالفاظِ دیگر، یہ ریاست کا بنیادی فریضہ ہے۔ پر جب ریاست اس فریضے سے کوتاہی برتتی ہے، اور ایسے کاموں میں ٹانگ اڑانے لگتی ہے، جو اس کے کرنے والے نہیں ہوتے، تو نہ صرف امن دشمن اور قانون دشمن افراد مضبو ط ہونے لگتے ہیں، بلکہ وہ ایسے مافیا گروہوں میں منظم ہو جاتے ہیں، جو بالآخر اتنے طاقت ور بن جاتے ہیں کہ ر یاست اور حکومت کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ یا پھر ریاست اور حکومت کے اندر سرایت کر جاتے ہیں۔ یا ریاست اور حکومت سے جڑے افراد اور گروہوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ لیکن اگر خود ریاست اپنے اس فریضے کو بالکل فراموش کر دے، اور مافیا گروہوں کے ساتھ ملوث ہو جائے، بلکہ خود مافیا گروہوں کا دفاع شروع کر دے تو کیا ہو گا۔ اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر اگر ریاست اور حکومت نہ صرف ایسے گروہوں کی سرپرستی پر کمر باندھ لیں، بلکہ خود اپنی رضامندی سے مافیا گروہوں کے ہاتھوں میں یر غمال بن جائیں، تو کیا ہو گا۔ ریاست، حکومت اور سیاست بتدریج مافیا گروہوں کے کنٹرول میں چلی جائیں گی۔ پاکستان ایک ایسی ہی ریاست بن چکا ہے!
سچائی تو یہ ہے کہ عملاً پاکستان کے شہری روز بروز، لمحہ بہ لمحہ، مافیا سیاست دانوں کے چنگل میں پھنستے، اور مافیا گروہوں کی سیاست کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ بعض اوقات انہیں انقلاب کے نام پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات مذہب کے نام پر۔ بعض اوقات جمہوریت کے نا م پر۔ بعض اوقات معتدل روشن خیالی کے نام پر۔ بعض اوقات جاگیرداری کی مخالفت کے نام پر۔ بعض اوقات سرمایہ داری کی مخالفت کے نام پر۔ مافیا سیاست دان ایسے ہی خوشنما ناموں اور نعروں کے پردے میں شہریوں کو بے وقوف بناتے اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ مگر وہ کبھی اس چیز کا نام نہیں لیتے، جو پہلے دن سے ہی پاکستانی شہریوں کی آرزو رہی ہے۔ اور جو آج اس وقت بھی ان کی شدید ضرورت ہے۔ یہ قانون کی عمل داری ہے، جسے برِصغیر میں اول اول برطانوی حکومت نے متعارف کر وایا اور قائم کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بایاں اور دایاں بازو، دونوں ابھی تک ”انگریزی سامراج“ کو رگیدتے نہیں تھکتے، جبکہ بد قسمتی یہ ہے کہ قانون کی عمل داری بھی انگریزوں کے ساتھ ہی یہاں سے رخصت ہو گئی تھی۔
پاکستا ن کی آزادی کی چھ سات دہائیوں سے گزر نے کے باوجود، پاکستانی شہری ابھی تک ملک میں امن و امان کے قیام اور قانون کی عمل داری کے منتظر ہیں۔ اس کے برعکس، ان کی آنکھیں اپنے سامنے جو کچھ دیکھ رہی ہیں، وہ گرد وغبار کا ایک ایسا طوفان ہے، جو انہیں سیاست کو جرم سے متمیز نہیں کرنے دیتا۔ مراد یہ کہ سیاست اور جرم یوں شیروشکر ہو گئے ہیں کہ ان میں تمیز کرنا، اگر ناممکن نہیں، تو ازحد مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے جس چیز کی تشکیل ہوئی ہے اور جو کچھ ظہور پذیر ہوا ہے، وہ جرم، سیاست اور مذہب کی ایک ایسی آمیزش ہے، جو زہرِ ہلاہل سے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اصل میں کیا ہوا ہے، یعنی یہ سیاست دان ہیں، جو جرائم پیشہ بن گئے ہیں، یا یہ جرائم پیشہ عناصر ہیں، جو سیاست میں آ بسے ہیں، تاہم، اتنا ضرور واضح ہے کہ سیاست سراسر مافیا گروہوں سے آلودہ ہو چکی ہے۔ یا اگر کچھ نرمی برتی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاست نے مافیا کے طور طریقے اختیار کر لیے ہیں، اور خود مافیا بن گئی ہے۔
چند سال پیشتر ایک انگریزی اخبار میں مدیر کے نام ایک خط چھپا تھا، جو اس حسرت و یا س کی پوری عکاسی کرتا تھا، جو پاکستان کے ہر عام شہری کا مقدر بن چکی ہے۔ یہ حسرت و یاس آج بھی سی طرح چھائی ہوئی ہے۔ بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہو گئی ہے۔ اس خط کے کچھ الفاظ دیکھیے: ”میری نسل، جو برطانوی حکمرانی کے تحت زندگی گزار چکی ہے، جانتی ہے کہ قانون کی عمل داری کا کیا مطلب تھا۔ آج ہمارے سامنے جو کچھ موجود ہے، وہ نراجیت اور افراتفری ہے۔ مجھ جیسے لوگ، جو کسی سیاسی پارٹی، بیوروکریسی، آرمی، یا صحافت سے وابستگی نہیں رکھتے، ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، جیسے ہم اس ریاست کے شہری ہی نہیں۔ اور پھر بھی ہم اکثریت ہیں، پاکستان کی رونق ہیں، اور مشقت کرتے شہری ہیں۔“
اوپر ذکر ہوا کہ برصغیر سے بر طانوی حکومت کے ساتھ ہی قانون کی عمل داری بھی رخصت ہو گئی۔ اس کا فائدہ ان لوگوں کو ہوا، جو قانون اور ضابطوں کے تحت پھل پھول نہیں سکتے۔ بلاشبہ، اس میں جرائم پیشہ لوگ شامل تھے، لیکن اس رخصت سے مستفیض ہونے والوں میں سیاسی، مذہبی، فوجی، عدلیائی، کاروباری، تجارتی، فکری، صحافتی اشرفیہ، یعنی ریاستی اشرافیہ بھی شامل تھی۔ بلکہ جیسے جیسے، وقت کے ساتھ، پاکستان میں قانون کی عمل داری کی عدم موجودگی کی جڑیں مضبوط ہوئیں، یہ سب اشرافی گروہ، مافیا گروہوں میں تبدیل ہو گئے۔ اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی رسائی اور اختیار کا دائرہ مزید پھیلتا گیا۔ نئے نئے مافیا وجود میں آنے لگے: لینڈ مافیا، ایسٹیٹ مافیا، ٹریڈ یونین مافیا، وغیرہ۔ وکیل اور ڈاکٹر مافیا، نووارد مافیا ہیں۔ کچھ اورنئے گروہ اور پیشوں سے وابستہ گروہ، مافیا بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ یہ سب اس بڑے مافیا کی اولاد ہیں، جسے جرائم پیشہ مافیا کا نام دیا جانا چاہیے۔ گوکہ کرپشن مافیا ان سب کی روحِ رواں ہے؛ تاہم، قانون دشمنی، ان سب مافیا گروہوں کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتی ہے۔
[یہ کالم 7 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں