پہلی بات تو یہ کہ یہاں سیاست دانوں کی ناکامی کی ”آمد“ سے جینرل مشرف (ریٹائرڈ) کی جلاوطنی سے وطن واپسی مراد ہے۔ اور پھر ان کی جلاوطنی بھی کیسی جلا وطنی تھی کہ اپنے دیس کے شب وروز سے کہیں بہتر زندگی، وہ بدیس میں گزار رہے تھے۔ کوئی بے چارے عام پاکستانیوں سے پوچھے، کتنے ہیں، جو اس طرح کی جلاوطنی کے لیے ترس رہے ہیں۔ سبک دوش وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے، جب وہ سریرآرائے سلنطت تھے، فرمایا تھا کہ جن پاکستانیوں کوان کی حکومت پسند نہیں، وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ کاش ایسا ہو سکتا تو ان کی سلطنتِ ویراں میں آج الو بول رہے ہوتے۔عام پاکستانیوں کا پاکستان سے کیا تعلق، پاکستان تو بنا ہے اشراف کے لیے۔ پاکستانی ریاست پر یہی اشراف تو قابض ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھاگ بھاگ کر وطن واپس آتے ہیں۔ ریاستی اشرافیہ کوجو رشکِ فردوس، زندگی یہاں پاکستان میں میسر ہے، وہ تو مغرب کے کافرستانوں میں بھی میسر نہیں۔
جینرل مشرف نے ایئر پورٹ پر اترتے ہی اپنی آمد کا مقصد واضح انداز میں سامنے رکھ دیا۔ انھوں نے فرمایا: وہ پاکستان بچانے آئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ پاکستان میں کتنے لیڈر ہیں، اور کتنی پارٹیاں ہیں، جو جب سے پاکستان بنا ہے، اسے بچانے میں مصروف ہیں۔ کتنے نام گنوائے جائیں۔ ایک سلسلہ ہے، جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب افراد اور پارٹیاں، پاکستان کو ایک دوسرے سے بچانا چاہتی ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان اول روز سے، ایسے لوگوں اور پارٹیوں کے ہاتھ میں آ گیا، جو اسے ایک دوسرے سے بچانا چاہتے تھے۔ پاکستان بچانے کی یہ جد و جہد ایک عجیب اور جیسے کبھی نہ ختم ہونے والی باہمی کشمکش اور کشا کش بن گئی۔ پاکستان کی قریباً پوری پہلی دہائی پاکستان بچانے والے افراد اور پارٹیوں کی نذر ہو گئی۔ کسی کو یہ سمجھ نہ آیا، یا کسی کو یہ سوچنے کا وقت نہیں ملا کہ یہ آئین ہوتا ہے، جو ملک چلاتا ہے، افراد اور پارٹیاں نہیں۔ سو، افراد اور پارٹیاں پاکستان بچانے کی تگ و دو میں لگے رہے، اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ یعنی پاکستان بچانے والوں نے، بچاتے بچاتے اسے ڈبو دیا۔
اس کے باوجود، اس نئے پاکستان میں باقی کے پاکستان کو بچانے والے افراد اورپارٹیوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی، اور نہ ہی ان افراد اور پارٹیوں کی تعداد میں کمی ہوئی، جن سے پاکستان کو بچانا مقصود تھا۔ بلکہ ان دونوں طرح کے افراد اور پارٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ نئے نئے مہم جو پاکستان بچانے کے لیے سامنے آتے رہے۔ نئی نئی پارٹیاں پاکستان بچانے کے لیے میدان میں اترتی رہیں۔ سب پاکستان کو ایک دوسرے سے بچانا چاہتے تھے۔ ہوتے ہواتے، کسی طرح 1973 میں ایک آئین بن گیا۔ لیکن یہ حقیقت بڑی تلخ ہے کہ اگر یہ آئین پہلے بن گیا ہوتا اور اس کی پاسداری کی گئی ہوتی تو مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش نہ بنتا۔ بلکہ، جو بھی آئینی بندوبست اس وقت موجود تھا ، اگر اس پر دیانت داری سے عمل کیا گیا ہوتا تو بنگلہ دیش بننے کی نوبت نہ آتی۔ اس سے یہی سبق اخذ ہوتا ہے کہ ملک چلانے کے لیے آئین کی ضرورت ہوتی ہے، افراد اور پارٹیوں کی نہیں۔ افراد اور پارٹیاں، عارضی مظہر ہوتے ہیں، اور وقت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ جبکہ آئین ایک مستقل دستاویز ہوتا ہے، جو ملک کے استحکام اور بقا کی ضمانت بنتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے افراد اور پارٹیاں پاکستان بچانے کا نعرہ لگاتی ہیں، سب فریبی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک ڈاکٹر صاحب کینیڈا سے پاکستان آئے تھے، پاکستان بچانے۔ خبر نہیں انھیں وہاں کس نے اطلاع دی کہ پاکستان بیمار ہے۔ اور وہ اسے بچانے کے لیے اپنے دوا خانے سمیت پاکستان آ پہنچے۔ جن دنوں وہ اسلام آباد میں دھمکیوں بھرا لانگ مارچ ٹھہرائے ہوئے تھے، ایک ٹی- وی چینل کی رپورٹر نے ایک نوجوان برقع پوش خاتون سے پوچھا کہ وہ وہاں اسلام آبا د میں تشریف کیوں لائی ہیں۔ پہلے تو وہ کچھ بوکھلا گئیں۔ پھر انھوں نے کہا: وہ ریاست بچانے آئی ہیں۔ ان دنو ں سردی بھی بہت تھی، اور یوں لگ رہا تھا جیسے پاکستان کی ریاست کو ٹھنڈ لگ گئی ہے، اور یہ ڈاکٹر صاحب اسے بچانے آئے ہیں۔ ان کی تشخیص کے مطابق پاکستان کو کوئی مہلک بیماری لاحق تھی، جس سے بچانے کے لیے پاکستان کی سیاست کو نہیں، بلکہ اس کی ریاست کو بچانا ضروری تھا۔ تاہم، ان کا نسخہ، انھیں دوائیوں پر مشتمل تھا، جو سب کے سب پاکستان بچانے والے تجویز کرتے ہیں۔ جینرل مشرف کی بغل میں بھی یہی نسخہ اڑسا ہوا ہے۔ پاکستان وارد ہونے سے پہلے انھوں نے ایک بیان میں اپنے نسخے کے کچھ راز فاش کیے تھے۔ انھوں نے فرمایا: ملک کو دلدل سے نکالنے کا بہترین حل یہ ہے کہ پاکستان میں تین سال کے لیے عبوری حکومت قائم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا: پاکستان کو بچانے کے لیے آئین کو معطل کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
یاد رکھیے پاکستان کو بچانے والوں کی یہی پہچان ہے۔ وہ ہمیشہ آئین سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ شخصی حکومت چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ بادشاہت کی طرح کا نظامِ حکومت مانگتے ہیں۔ آئین، قانون نام کے لفظ ان کی لغت میں موجود نہیں۔ وہ اپنی مرضی اور اپنے منہ سے نکلے لفظ کو قانون کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ یہی پاکستان بچانے والے ہیں، جنھوں نے پاکستان کو دولخت کیا، اور اسے پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ اچھا ہوا کہ جو ڈاکٹر پاکستان کی ریاست کو بچانے آئے تھے، وہ ناکام چلے گئے، اور پاکستان اور اس کی ریاست دونوں بچ گئے۔ لیکن اس مرتبہ جو یہ سابق فوجی آمر اور پاکستان کے آئین کے مجرم، پاکستان بچانے تشریف لائے ہیں، دیکھیں ان کی بات پر کون کان دھرتا ہے۔ اور یہ تو بعد کی بات ہے یہ جینرل جناب کیا کرتے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے جو کارگل کی مہم جوئی کی، ما رشل لا لگایا، اور پھر ایمرجینسی جیسا مارشل لگایا، ان کا نباڑا ہونا چاہیے۔ چلیں کارگل کی تو ابھی تحقیق وتفتیش ہونا باقی ہے۔ 12 اکتوبر 1999 کو انھوں نے جو مارشل لا لگایا، آئین کو معطل کیا، اور جو وغیرہ، وغیرہ کیا، اسے ان کے شریک مجرموں یعنی سیاست دانوں نے آئین کا حصہ بنا لیا۔ پر 3 نومبر 2007 کو انھوں نے جو ایمرجینسی نما مارشل لا لگایا، وہ آئینی جرم کے زمرے میں آتا ہے، اور ان کے نام جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ انھوں نے اپنا ایجینڈا پہلے ہی بیان کر دیا ہے کہ وہ آئین معطل کر کے پاکستان بچانے آئے ہیں، تو آئین پسندوں کو ان سے ہوشیار، خبردار رہنا چاہیے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے سیاست دان آئین پسند ہیں یا نہیں۔ یا وہ آئین کو صرف اس حد تک قبول کرتے اور مانتے ہیں، جہاں تک یہ ان کا ساتھ دیتا ہے۔ یعنی جہاں تک یہ ان کی رضا اور ان کی ”پاکستان بچانے کی آرزو“ کا ساتھ دیتا ہے، جینرل مشرف کی طرح۔ اور اگر یہ سیاست دان آئین پسند ہوتے تو جینرل مشرف اپنی مرضی سے کاہے کو جلا وطن ہوئے ہوتے۔ وہ پاکستان میں ہی ہوتے، اور اپنے آئینی جرم کی بھگتان بھگت رہے ہوتے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس حکومت کا وقت ابھی پورا ہوا ہے، یعنی پیپلز پارٹی، اور اس کے اتحادی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ق)، ایم- کیو- ایم اور دوسرے، یہ سب کتنے آئین پسند ہیں۔ انھوں نے جینرل مشرف کے ایمرجینسی نما مارشل لا کو نہ تو آئینی لبادہ پہنایا، نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ قائم کیا۔ وہ آرام سے استعفیٰ دے کر بدیس چلے گئے اور اب تعطیلات گزار کر واپس آ گئے ہیں۔ کیا ان کی آمد، سیاست دانوں کی ناکامی نہیں! یا یہ سیاست دان، آئین پسند نہیں، بلکہ آئین پسندوں کے روپ میں آئین دشمن بہروپیے ہیں!
[یہ کالم 30 مارچ کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں