میرا ووٹ پاکستان میں آئین پسندی کے استحکام کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے آئینی اور سیاسی ارتقا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک شہری دوست ریاست، شہری دوست حکومت اور شہری دوست سیاست کی ترویج کے لیے ہے۔ یہ ملک میں آئین کی حکمرانی اورقانون کی بالادستی کے قیام کے لیے ہے۔ یہ ایک آزاد، اور سرگرم عدلیہ کی تقویت کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق کی بلا امتیاز دستیابی کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسے پاکستان کے لیے ہے، جہاں ہر شہری، ریاست اور قانون کی نظر میں برابر حیثیت کا حامل ہو۔ یہ موجودہ خونخوار ریاستی مشینری کے بجائے ایک ایسی ریاستی اور حکومتی مشینری کے لیے ہے، شہریوں کوسہولت بہم پہنچانا، جس کا بنیادی مشن ہو۔ یہ ایک ایسی جمہوریت کے لیے ہے، جو اپنا اختیار و اقتدار، آئین اور قانون سے اخذ کرتی ہو؛ اور احتساب کے آئینی اداروں کے ساتھ شہریوں کو بھی جواب دہ ہو، جن سے اسے حکمرانی کا مینڈیٹ ملتا ہے۔ میرا ووٹ ایک ایسی جمہوریت کے لیے ہے، جو اشرافی طبقات کے بجائے پاکستان کے عام شہریوں کی حقیقی نمائندہ ہواور حقیقت میں ان کی نمائندگی کرے۔ یہ ایک ایسی جمہوری حکومت کے لیے ہے، جو پاکستان میں سویلین بالادستی کو بحال کرے اور مستحکم بھی کرے؛ جو بشمول دفاع، خارجہ و داخلہ پالیسی، ریاست کے تمام معاملات پر سویلین اختیار کے آئینی حق کو قائم کرے۔
میرا ووٹ ایک ایسی پاکستانی ریاست اور حکومت کے لیے ہے، جو اپنے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی روادار ہو، اور ان کے مابین کسی قسم کے امتیاز کی دیوار کھڑی نہ کرے۔ میراووٹ ایک ایسی ریاست اور حکومت کے لیے ہے، جس کی سرگرمیوں کا مرکز و محور شہری اور اس کے حقوق ہوں؛ جس کے معاملات کا تعین اس نکتے پر مبنی ہو کہ ریاست، اصلاً شہریوں کے لیے ہے؛ شہری، ریاست کے لیے نہیں۔ میرا ووٹ ایک ایسی ریاست اور حکومت کے لیے ہے، جو اپنے شہریوں کی شخصی آزادی کو مقدم رکھتی ہو؛ اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو آئین اور حکمرانی کی اعلیٰ ترین قدر گردانتی ہو۔ میرا ووٹ ایک ایسی ریاست اور حکومت کے لیے ہے، جو شہریوں سے کم سے کم ٹیکس لینے اور انھیں ان کے ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ قیمت دینے میں یقین رکھتی ہو۔ میرا ووٹ ایک ایسی ریاست اور حکومت کے لیے ہے، جو شہریوں کے ٹیکس کے پیسے پر پلنے والے طفیلی اشرافی طبقات کو جنم نہ دے۔ میرا ووٹ ایک ایسی ریاست اور حکومت کے لیے ہے، اپنے شہریوں کو انصاف کی بلا امتیاز اور تسلی بخش فراہمی کو ممکن بنانا، جس کا مقصدِ اولیٰ ہو۔ میرا ووٹ ایک ایسی ریاست اورحکومت کے لیے ہے، جو امن پسند ہو، اور امن پسندی کو فروغ دے؛ جو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تمام معاملات و تنازعات کو پرامن انداز میں حل کرنے میں یقین رکھتی ہو؛ جو نفرت اور تشدد کی تخفیف پر ایمان رکھتی ہو؛ جو دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے حقیقتاً مخلص ہو!
میرے ووٹ سے منسلک ان تمام آرزووں، تمناؤں اور مانگوں کے باوجود، مجھے شدید احساس ہے کہ میراووٹ بہت کمزور ہے۔ میرا ووٹ بہت بے مایہ اور بے اثر ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے ووٹ کی بربادیوں کے مشورے پاکستان میں اول دن سے ہی جڑ پکڑ گئے تھے۔ مجھے پوری طرح معلوم ہے کہ ساٹھ پینسٹھ برس میرے ووٹ کے ساتھ کون کونسے بھیانک کھیل کھیلے گئے۔ مجھے پورا ادراک ہے کہ جب جب انتخابات ہوئے، میرے ووٹ کے مفہوم و معنی کو کس طرح تبدیل کیا گیا اور کس طرح بگاڑا گیا۔ مجھے معلو م ہے کہ میرے ووٹ کے ذریعے حکمرانی کا اختیار حاصل کرنے والوں کو کس طرح بے اختیار بنایا گیا۔ میرے ووٹ کا مینڈیٹ حاصل کرنے والوں سے کس طرح میرا مینڈیٹ چھینا گیا، اور کسی اور کے حوالے کر دیا گیا۔ مجھے معلوم ہے کہ کس طرح میرے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا اور مجھے آئین کی حکمرانی سے محروم کیا گیا۔ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ کس طرح میرے ووٹ کو میرے خلاف استعمال کیا گیا۔ میں جانتا ہوں، میں نے ووٹ کسی کو دیا، اور جیت کوئی اور گیا۔ میرے ووٹ کی بربادیوں کی داستان کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ یہ پہلو صرف یہ بتاتا ہے کہ جنھیں آئین نے طاقت دے کر ملک کا رکھوالا بنایا، انھوں نے کس طرح میرے ووٹ کی حُرمت کو پامال کیا؛ کس طرح،میری آرزووں، تمناؤں اور مانگوں کا خون کیا۔
[Pakistan Observer, May 11, 2013]
میرے ووٹ کی داستان کا دوسرا پہلو کہیں زیادہ خوفناک اور کراہت آمیز ہے۔ یہ دوسراپہلو، بدعہدی اور غداری کی ایک ایسی کہانی ہے، جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کمیاب ہے۔ یہ بدعہدی اور غداری کسی غیر اور دشمن کے ہاتھوں ظہور پذیر نہیں ہوئی؛ بلکہ اس بدعہدی اور غداری کا ارتکاب انھیں لوگوں نے کیا، جنھیں میرے ووٹ نے حکمرانی کا مینڈیٹ دیا۔ یہ بدعہد اور غدارعناصر، سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ انھوں نے میرے ووٹ کو اتنا بے دم، بے طاقت، بے مایہ اور بے اثر بنا دیا کہ مجھے ووٹ دینا اپنی توہین محسوس ہونے لگا۔ ان سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے میرے ووٹ کے ذریعے حکمرانی کا اختیار حاصل کیا اور مجھ سے ہی بدعہدی اور غداری کی۔ میرے ٹیکس کے پیسے کو لوٹا اور میرے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا تو دور رہا، مجھے اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیا۔ انھوں نے پاکستانی ریاست کو ہر شہری کی ریاست بنانے کے بجائے، اس پر اپنا قبضہ قائم کر لیا۔ انھوں نے پاکستانی ریاست کو اپنی ذاتی اور اشرافی ریاست کا درجہ دے کر اسے اپنی جاگیر اور ملکیت میں تبدیل کر دیا۔ یہ سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں، فوجی آمروں کے ساتھ ساز باز کی مرتکب ہوئیں، اور انھوں نے شہریوں کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد سے غداری بھی کی۔ انھوں نے پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے بجائے اشرافی طبقات کی حکمرانی قائم کی۔ ان سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے، خود پاکستان کے شہریوں کو، جن کے ووٹ کی طاقت سے یہ حکمران بنے، پاکستان سے یا تو دیس نکالا دے دیا، یا انھیں اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری، اور بھکاری بنا دیا۔
اصل میں ان سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے پاکستان میں ایک نئے طبقے ”ریاستی اشرافیہ“ کو جنم دیا۔ یہ وہ اشرافی طبقات ہیں، جو ریاست کے وسائل پر پلتے ہیں۔ ریاست ہی ان کی اَن داتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ریاست پراپنا قبضہ ہمیشہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک سطح پر یہ اشرافی طبقات ایک اور متحد ہیں۔ یہ سطح وہی ہے، جہاں یہ اشرافی طبقات سمجھتے ہیں کہ ریاست پر ہمارا قبضہ قائم رہنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے بھی انتخابات ہو جائیں، کوئی بنیادی، بڑی اور اہم تبدیلی نہیں آتی۔ ہر شہری کا ووٹ، بے اثر رہتا ہے۔ انتخابات نتیجہ خیز اور ثمر آور ثابت نہیں ہو پاتے۔ حال ہی میں ایک اخبار میں شائع ہونے والا تجزیہ بتاتا ہے کہ اسد عمر، جو تحریکِ انصاف کے سرکردہ لیڈر ہیں، نہ صرف تحریکِ انصاف میں اہم حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ تحریکِ انصاف کا معاشی دما غ بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اسد عمر کے بڑے بھائی زبیر عمر مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہیں اور نواز شریف کو معاونت اور مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ دونوں بھائی کارپوریٹ دنیا میں اہم مقام کے حامل ہیں۔ ان کے تیسرے بھائی کراچی سٹاک ایکس چینج کے صدر ہیں، اوران کے والد بہ حیثیت میجر جینرل، پاک فوج سے ریٹائر ہوئے۔ میں اسے کوئی سازش قرار نہیں دے رہا، نہ ہی کسی کے خلوص اور نیت پر شک کر رہا ہوں۔ تاہم یہ مثال یہ ضرور بتاتی ہے کہ اشرافی طبقات کس طرح ہر جگہ حاضر و موجود رہتے ہیں۔
دریں حالات، میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان کے شہریوں کے ووٹ کی دھار ریاستی اشرافیہ کے فولادی قلعے کی کسی دیوار کو کاٹ سکے گی، یا انہیں۔ کیا پاکستان کے شہریوں کا ووٹ، پاکستانی ریاست پر اشرافیہ کے قبضے کو توڑ سکے گا یا نہیں۔ میں جن آرزووں ، تمناؤں اور مانگوں کو اپنے ووٹ کے ساتھ منسلک کر تا رہا ہوں، وہ کبھی پوری نہیں ہوئیں۔ آج بھی جب میں اپنا ووٹ کاسٹ کر رہا ہوں تو میں سوچ رہا ہوں، کیا میرے ووٹ کے ساتھ جڑی آرزوئیں، تمنائیں اور مانگیں پوری ہوں گی یا نہیں۔ یا میراووٹ یوں ہی ہمیشہ کی طرح بے مایہ، بے اثر اور بے بس رہے گا!
[یہ کالم 11 مئی کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں