کچھ باتیں اس وقت تک قابلِ فہم نہیں ہوتیں، جب تک انھیں ان کے درست سیاق و سباق میں نہ رکھا جائے؛ وگرنہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیے، وہ سمجھ کر نہیں دیتیں۔ دو بڑی مثالوں میں سے ایک کا تعلق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دو مرتبہ معزولی اور دونوں مرتبہ بحالی سے ہے۔ پہلی مرتبہ انھیں تنہا معزول کیا گیا، اور دوسری مرتبہ ان کے ہمراہ اعلیٰ عدالتوں کے ان تمام ججوں کو بھی، جنھوں نے نیا جرنیلی حلف لینے سے انکار کیا۔ دونوں معزولیوں کے بعد ایسی مایوس کن صورتِ حال تھی کہ امید کو امید کا ہاتھ نظر نہیں آتا تھا۔ آج بھی یہ بات حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ دونوں معزولیوں کے بعد دونوں بحالیاں کیونکر ممکن ہوئیں۔ پاکستان کی قائمیہ، یعنی فوج، امریکی حکومت، پاکستان کی متعدد سیاسی پارٹیاں، پاکستان کی ریاستی اشرافیہ، اور اشرافیہ پسند، دونوں مرتبہ کوئی بھی بحالی کے حق میں نہیں تھا۔ پھر بھی بحالی ہو کر رہی۔ یہ دونوں بحالیاں اسی وقت سمجھ میں آتی ہیں، جب انھیں پاکستان کے شہریوں کی طاقت کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے۔ مراد یہ کہ یہ پاکستان کے شہریوں کی طاقت تھی، جس نے ان بحالیوں کو حقیقت میں منتقل کیا۔
دوسری مثال موجودہ انتخابات کی ہے۔ رائے عامہ کو ایک خاص سمت دینے کے لیے طاقت ور الیکٹرانک میڈیا کو بے دریغ استعمال کیا گیا۔ انتخابات سے قبل ایک ایسی فضا تیار کر دی گئی، جس میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہر سیاسی پارٹی اپنی موت آپ مر گئی ہے، اور نئی ابھرنے والی تحریکِ انصاف ہی وہ تنہا پارٹی ہے، جو اب پاکستان کا مقدربن کر رہے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ پاکستان کے پہلے انتخابات ہیں، جن کے بارے میں کوئی پیشین گوئی کرنا، ناممکن ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست تھی۔ جو سیاسی پارٹیاں پہلے سے وجود رکھتی ہیں، ان کا ایک ووٹ بینک بن چکا ہوتا ہے اور ان کی مقبولیت کی جڑیں گہرائی تک پیوست ہوتی ہیں، بہ ایں وجہ، انتخابات میں ان کی فتح کی سطح کا اندازہ لگانا ممکن ہوتا ہے۔ موجودہ انتخابات میں تحریکِ انصاف ایک نئی وارد تھی، گو کہ یہ پچھلے سترہ سال سے موجود ہے، تاہم، پہلی مرتبہ اس نے بھر پور انداز میں اور وسیع پیمانے پر انتخابات میں حصہ لیا۔ یہ یہی نیا عامل تھا، جس کی بِنا پر انتخابات سے متعلق کوئی پیشین گوئی کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ دوسری پارٹیوں کی جیت کا اندازہ تو لگایا جا سکتا تھا، لیکن تحریکِ انصاف کی جیت کی وسعت کیا ہوگی، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔ پھر یہ الجھن بھی تھی کہ تحریکِ انصاف کی جیت کس طرح اور کسقدر دوسری پارٹیوں کی مقبولیت کو متاثر کرے گی۔
یہ عام رائے تھی، جو میڈیا نے بنائی۔ اس کے مخالف دبی دبی یہ رائے بھی موجود تھی کہ تحریکِ انصاف کوئی بہت بڑا معرکہ مارنے نہیں جا رہی۔ اسے پینتیس چالیس کے قریب نشستیں مل سکتی ہیں۔ تاہم، اس سے قطع نظر جو ” گرم روٹی“ بیچی جا رہی تھی، اور جو خوب بِکی بھی، وہ یہی تھی کہ انتخابات میں تحریکِ انصاف سادہ اکثریت حاصل کر رہی ہے، اور عمران خان وزیرِ اعظم بن چکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی رائے عامہ، انٹرنیٹ سرگرمی، اور پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کی اس رائے سے مغلوب ہو چکی تھی۔ ایک سبب یہ بھی تھا، جس نے انتخابات سے متعلق پیشین گوئی کو بے یقینی کا شکار کر دیا تھا۔ تاہم، جب انتخابات کا انعقاد ہوا، اور نتائج آنے شروع ہوئے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ پتہ چل گیا کہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوئیں اور کس حدتک ناکامیاب۔
مراد یہ کہ جب شہریوں اور ووٹروں کو آزادی دی گئی، اور قدرے صاف و شفاف انتخابات منعقد ہوئے، تو مطلع صاف ہو گیا۔ اس دوسری مثال کو اگر اس سیاق و سباق سے علاحدہ کر دیا جائے اور ”دھاندلی“ کے الزامات میں لت پت کر دیا جائے تو انتخابات کے نتائج کو سمجھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ باوجودیکہ، یورپی یونین کے مبصرین، ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ، آر، سی، پی)، فری اینڈ فیئر ایلیکشن نیٹ ورک (فیفین) نے بھی انتخابات کو مجموعی طور پر شفاف قرار دے دیا ہے۔ یہ مثال بتاتی ہے کہ شہریوں اور ووٹروں کی طاقت ہی اصل طاقت ہے، اور اسے متاثر و مغلوب کرنے کے مصنوعی طریقے کارگر نہیں ہوتے۔ رائے عامہ کو وقتی طور پر توڑا مروڑا جا سکتا ہے، مگر حقیقت کو زیادہ دیرتک اس سے چھپایا نہیں جا سکتا۔ جب بھی شہریوں کو موقع ملے، وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتے ہیں۔
انتخابات کے نتائج کے بارے میں دو باتیں کی جا رہی ہیں، اور دونوں خاصی حد تک درست ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جو پارٹیاں حکمران تھیں، شہریوں نے ان کی حکومتوں کی کارکردگی کو جانچا۔ دوسری یہ کہ شہریوں نے جس پر اعتبار کیا، اسے ووٹ دیا۔ اس ضمن میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نتائج، محض اعداد و شمارہوتے ہیں۔ یہ خود کسی مفہوم و معنی کے حامل نہیں ہوتے۔ ان کی تعبیر و تشریح ہم انسان ہی کرتے ہیں، اور انھیں مفہوم و معنی سے بھی ہم ہی ہمکنار کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرنا کہ انتخابات کے نتائج یہ کہتے ہیں یا وہ کہتے ہیں، غلط بھی ہوگا اور کہنے کا غلط انداز بھی۔ جیسے 2008 کے انتخابات کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ ووٹروں نے منقسم مینڈیٹ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ووٹروں نے مل کر یہ طے کیا کہ منقسم مینڈیٹ دینا ہے۔ ایسا تو قطعاً نہیں ہوا۔ ووٹروں نے اپنے انتخاب سے جسے چاہا ووٹ دیا، اس کا نتیجہ جو بھی نکلے۔ تاہم، انتخابات کے نتائج کی کئی تعبیریں کی جا سکتی ہیں۔ کوئی زیادہ درست ہو گی، اور کوئی کم۔ یا ہو سکتا ہے کہ کچھ صورتوں میں اسے غلط بھی قرار دیا جا سکے، جیسا کہ منقسم مینڈیٹ والی بات ہے۔ میں مختلف پارٹیوں کی جیت یا ہار، یا ملی جلی جیت یا ہار کو جو مفہوم و معنی دینا چاہتا ہوں، وہ پاکستان کے عام شہریوں کی زندگی اور مسائل کے ساتھ جڑے ہوں گے۔ یقیناً شہریوں نے جب ووٹ دیا تو اس میں ہزاروں قسم کی چیزیں شامل ہوں گی۔ یہاں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ شہریوں نے کسی کو ووٹ کیوں دیا۔ جو چیز اہم ہے، وہ یہ ہے کہ شہریوں کے مینڈیٹ کا کیا مطلب سمجھا جاتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر کیا کارکردگی دکھائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری تعبیر میں یہ چیز شامل ہو گی کہ ہر شہری کے حال اورمستقبل کو بہتر اور محفوظ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
یہاں صرف مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ کی بات کی جائے گی۔ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ ووٹر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ خاصی کشادہ دلی سے پیش آئے ہیں۔ بلکہ کشادہ دلی کی تعبیر یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے مسلم لیگ (ن) پر بہت زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔ میں یہ بات اس سیاق و سباق میں کہہ رہا ہوں کہ جتنے مسائل اور جتنی پیچیدگیوں سے پاکستان دوچار ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان کے شہری اور بالخصوص عام شہری دوچار ہیں، انھیں حل کرنے کے لیے پہاڑوں سے بلند عزم و ارادہ درکار ہے۔ پاکستان کے عام شہریوں نے مسلم لیگ (ن) کے نام کے ساتھ توقعات کی جو دنیا بسائی ہے، وہ بہت گنجان آباد ہے۔ یہ دنیا انتظار کرتے کرتے بے صبری کا شکار ہو چکی ہے۔ اسے اب محض وعدوں اور سبز باغوں سے ٹالا نہیں جا سکتا۔ توقعات کے علاوہ، کتنے ہی مسائل ہیں جو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں، اور شہری اب انھیں حل ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مراد یہ کہ بحران کا شکار معیشت، دہشت گردی، لمحہ بہ لمحہ بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتِ حال، فرد کی جان ومال کو درپیش خطرات، توانائی کی کمی اور بدنظمی، روز بہ روز معدوم ہوتی ہوئی شخصی آزادی۔ یہ جلتے ہوئے چند مسائل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو ان سے بہر طور نمٹنا ہے۔ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اسے پیپلز پارٹی کی عبرتناک شکست سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پھانسی کا پھندا ہمیشہ ڈھیلا ہوتا ہے، تا کہ ہر گردن اس میں سما جائے۔ مسلم لیگ (ن) کو بہت دانائی، ٹھنڈے دل اور تیزی سے کام کرنا ہے۔ سب سے بڑا سوال، جو اسے ملنے والے مینڈیٹ سے ابھرتا ہے، وہ یہ ہے کہ کہیں مسلم لیگ (ن) کو قد سے بڑا مینڈیٹ تو نہیں مل گیا۔ اسے جان لینا چاہیے کہ: یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا / ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں۔ اسے ثابت کرنا ہے کہ اسے جو مینڈیٹ ملا ہے، وہ اس سے کہیں بڑے قد کی حامل ہے!
[یہ کالم 18 مئی کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں