پاکستان کے اخبارات میں روزانہ لاتعداد ایسی خبریں سامنے آتی ہیں، جنھیں رد و مسترد کرنے، اور جن کی تحقیق و تفتیش کے لیے ہزاروں لاکھوں بلاگ، تھِنک ٹینکس، اور شہری تنظیمیں درکار ہیں۔ میں یہاں حکومت کو خارج از بحث کر رہا ہوں، کیونکہ اگر حکومت کی بالا دستی موجود ہو تو ایسی خبریں وجود میں ہی نہ آئیں۔
پھر یہاں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ کتنی خبریں ایسی بھی ہوں گی، جو چھپنے سے رہ جاتی ہوں گی۔ یعنی کتنا کچھ ایسا ہوتا ہو گا، جو پاکستانی شہریوں کے ساتھ بیتتا ہو گا، لیکن اخبار میں جگہ نہیں پا سکتا۔
میں کافی عرصے سے یہ سوچتا رہا ہوں کہ اخبارات میں جو کچھ چھپتا ہے، اسے روزانہ کی بنیاد پر پر کھا اور جانچا جائے، مگر تنہا فرد کے لیے یہ ممکن نہیں۔ خود اس بلاگ میں، میں نے کئی سلسلے شروع کیے، پر انھیں وقت کی کمی کے باعث جاری نہیں رکھ سکا۔
تاہم، آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی ایک اخبار لے کر اس کی چند اہم اور خاص خبروں کو پرکھا اور جانچا جائے۔ اردو اخبارات میں سے آج کل میں ’’جنگ‘‘ باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ آج 30 اگست کو ’’جنگ‘‘ میں چھپنے والی کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں:
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ
خبر یہ ہے: ’’موبائل فون دن رات کے تمام پیکیجز پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری۔‘‘
اس خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے: ’’پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ملک میں کام کرنے والے تمام سیل فون آپریٹرز کو دن یا رات کسی بھی وقت وائس اور ایس ایم ایس سمیت تمام چیٹ پیکیجز فوری طور پر بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پی ٹی اے کے جمعرات کو جاری کردہ ہدایت نامے کے مطابق موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے جاری کردی تمام پیکیجز معاشرے کی اخلاقی اقدار کے منافی ہیں۔‘‘
سو حکومت نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حل کر دیا، اور اب معاشرے کی اخلاقی اقدار محفوظ ہو گئی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ شہریوں کو بتائے کہ وہ اپنے سیل فون سے کس وقت فون کریں، کس وقت چیٹ کریں، اور کس وقت ایس ایم ایس (پیغامات) بھیجیں۔ پاکستانی ریاست اور حکومت شہریوں کی جان و مال کی حفاظت تو کر نہیں سکتی، مگر اسے معاشرے کی اخلاقی اقدار کا بہت خیال ہے۔
یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ پاکستان کے دو بڑے مسائل، یعنی ڈرون حملوں کا خاتمہ اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، ابھی حل نہیں ہوئے ہیں۔ امید ہے حکومتِ پاکستان انھیں بھی جلد کنارے لگا دے گی۔ اور یقین ہے کہ پھر پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی!
کراچی کی آگ اورفوجی آپریشن کا پانی
پاکستانی شہری، بالخصوص کراچی کے شہری جرائم پیشہ سیاسی پارٹیوں کے نرغے میں ہیں۔ اصل میں پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی جرائم پیشہ عناصر سے بھری ہوئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جرائم پیشہ عناصر نے سیاسی پارٹیاں تشکیل دے لی ہیں، اور یوں انھوں نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا سیکھ لیا ہے۔ اور خاصے عرصے سے اس حربے کو کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ کراچی تو اس کی جلتی ہوئی مثال ہے۔
دو سال ہوئے کہ کراچی میں خراب تر امن و امان کی صورتِ حال کے باعث سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا، اس مقدمے کی سماعت ابھی تک جاری ہے۔ مگر کراچی کے حالات سنبھلنے کا نام نہیں لیتے۔ بلکہ مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔ اب کچھ دنوں سے کراچی میں امن و امان کی بحالی کا پھر سے چرچا ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں چند خبریں اہمیت کی حامل ہیں:
پہلی خبر: ’’لیاری میں بڑے آپریشن سےنیا محاذ کھلنے کا خطرہ ہے، مہاجر ری پبلکن آرمی کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے، وفاقی حکومت کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش۔ مہاجر ری پبلکن آرمی کے تمام کارکنان کے بارے میں معلومات کے لیے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائی جا رہی ہیں، امن بحال کرنے کے لیے انٹیلی جنس معلومات، جدید ترین ٹیکنالوجی اور فورسز فراہم کرنے کےلیے تیار ہیں۔ بڑا آپریشن اس وقت تک کسی قیمت پر نہ کیا جائے جب تک کوئی دوسرا راستہ میسر نہ آئے، تاہم فورسز جب محسوس کریں لیاری میں موبائل فون سروس معطل اور ڈبل سواری پر پابندی لگا کر کاروائیاں کی جائیں، وزارت داخلہ‘‘
دوسری خبر: ’’متحدہ کو ظلم کا نشانہ بنانے والے نشانِ عبرت بن جائیں گے، الطاف حسین‘‘
اس خبر کی کچھ تفصیل دیکھیے: ’’متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے ، کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی لندن اور کراچی میں ہنگامی اجلاس کے دوران ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم کے قائد کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے احکامات پر متحدہ کے رہنماؤں، منتخب نمائندوں اور کارکنوں کو گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ بند نہ کیا گیا تو نتائج کی ذمے دار پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ہو گی۔ الطاف حیسن کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو نشانہ بنانے والے حکمران نشانِ عبرت بن جائیں گے۔‘‘
تیسری خبر: ’’کراچی میں فوج آئی تو بنیادی حقوق معطل ہو جائیں گے، رضا ربانی‘‘
اس کی تفصیل دیکھیے: ’’سینٹ میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ کراچی میں فوج آئی تو بنیادی حقوق معطل ہو جائیں گے۔ ہائی کورٹ اپنے اختیارات استعمال نہیں کر پائے گی۔ جمعرات کو ایوانِ بالا میں سینیٹر رضا ربانی کے(نے!) نکتہ اعتراض پر کہا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کی غلط تشریخ کی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت کام کر رہی ہے۔ بے گناہ پکڑے جاتے ہیں تو عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں میں پیپلز پارٹی کے 40 سے 45 کارکن بھی شامل ہیں۔ حاجی عدیل نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی عدم تشدد پر یقین رکھنے والی جماعت ہے، کراچی میں 2 دن سے سیاسی جماعتوں کے کارکن گرفتار کیے جا رہے ہیں۔‘‘
چوتھی خبر: ’’منتخب حکومتیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ کراچی میں فوج بلانے کے مطالبے کا کوئی جواز نہیں، صدر زرداری۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ ہماری اولین ذمہ داری ہے، اس میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، صوبائی حکومت جرائم پیشہ عناصر کو نشان عبرت بنائے، وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت۔ کراچی پولیس کو مکمل فری ہینڈ دیا جائے تا کہ سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر کاروائی کی جا سکے، سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، بلاول ہاؤس میں قائم علی شاہ سے گفتگو‘‘
پانچویں خبر: ’’مہاجر رپبلکن آرمی کے قیام کی بات مضحکہ خیز ہے، ایم کیو ایم‘‘
اور یہ ہے اس خبر کی تفصیل: ’’متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور رابطہ کمیٹی کے رکن واسع جلیل نے ’’جنگ‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے مہاجر رپبلکن آرمی کے قیام کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ آج تک نہ اس تنظیم کا نام سنا اور نہ ہی اس کے وجود کے بارے میں کوئی علم ہے۔ اگر ایسی کوئی تنظیم ہوتی تو اس کے بارے میں سب کو معلوم ہوتا۔‘‘
یہ تمام خبریں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی کا مسئلہ حل ہو گا یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جرائم پیشہ سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان ہی حکومت میں براجمان ہیں تو یہ کراچی میں امن و امان کیسے قائم ہونے دیں گے۔ کراچی تو ان کے لیے علی بابا چالیس چور کا خزانہ ہاتھ آیا ہوا ہے۔ یہاں یہ امن و امان کیوں قائم ہونے دیں گے۔
وفاقی حکومت کراچی کے معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے، اور وہ اس ضمن میں کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی، یہ چیز گذشتہ دو تین ماہ میں کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ ویسے بھی امن و امان صوبائی حکومت کے دائرۂ اختیار میں ہے۔ ابھی کراچی میں امن و امان قائم ہونے کی بات شروع ہوئی ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان اپنی اپنی ڈفلی بجانے لگے ہیں۔ یہ وہاں کیا آپریشن ہونے دیں گے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ وہ سچائی بتانے کی دھمکی دیتے ہیں، مگر بتاتے نہیں۔ کرتے بھی کچھ نہیں۔
سینیٹر رضا ربانی نے بنیادی حقوق معطل ہونے کی بات سنا کر ڈرانے کی کوشش کی ہے، جیسے کہ اب تک ہر پاکستانی کو بنیادی حقوق پوری طرح دستیاب تھے۔ اور کراچی میں تو جیسے ہر شہری امن و سکون کی بانسری بجا رہا تھا، اور بنیادی حقوق معطل ہونے سے اس کے آرام میں خلل پڑ جائے گا۔
گذشتہ پانچ برس سندھ میں اور پھر وفاق میں بھی، بلکہ بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی حکمران تھی۔ رضا ربانی غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ ان پانچ برس پاکستان میں امن و چین کا دریا بہہ رہا تھا، جو اب بنیادی حقوق معطل ہونے سے رک جائے گا۔
رضا ربانی، اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کے وہ سیاسی گدھ ہیں، جو اس انتظار میں ہیں کہ کب اس کی لاش لاوارث قرار پاتی ہے، اور کب ان کے حصے میں آتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے گذشتہ پانچ برس ہر ریاستی ادارے اور سیاسی و سماجی زندگی کے ہر شعبے میں جو تعفن پھیلایا، اس کی بدبو ان کے نتھنوں تک نہیں پہنچتی۔ جتنی لاشیں کراچی میں گریں، انھیں ان کا خون نظر نہیں آتا۔ انھیں سندھ کی حکومت کے دامن پر لگے خون کے دھبے نظر نہیں آتے، اور صوبائی حکومت کام کرتی نظر آتی ہے۔
کراچی میں آپریشن کا سن کر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو بھی جوش آ گیا، کیونکہ سندھ میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ انھوں نے پھر وہی پہاڑہ دہرا دیا، جو وہ پچھلے چھ سال سے دہرا رہے ہیں کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ ہماری اولین ذمے داری ہے۔ یہ اولین ذمے داری کیا ہے ، اور اسے گذشتہ پانچ سال پیپلز پارٹی نے کیسے پورا کیا، سب جانتے ہیں۔ یہ اولین ذمے داری اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں!
سو، سوال یہ ہے کہ کیا یہ جرائم پیشہ سیاسی پارٹیاں کرچی میں امن و امان قائم ہونے دیں گی!
میڈیا کی طاقت
پاکستان میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا تھا۔ اس نے بن کر دکھا دیا۔ یہ ایک بے مہار طاقت کا حامل بن گیا ہے۔ یہ چو چاہے کرے، اسے سات خون معاف ہیں۔ کوئی اخلاقیات، ضابطۂ اخلاق، قانون اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ ہر کسی کو بالآخر اس کے در پر جھکنا پڑتا ہے۔ سچائی اس سے پناہ مانگتی ہے۔ بڑے بڑے سیاست دان اس کے کاسہ لیس ہیں۔ وہ اس سے ٹکر نہیں لیتے۔ کیونکہ یہ سچ کو جھوٹ، اور جھوٹ کو سچ بنا سکتا ہے۔
بہت متکبر اور بزعمِ خود دیانت دار سیاست دان عمران خان کو بھی میڈیا سے معافی مانگنی پڑ گئی۔
خبر دیکھیے: ’’عمران خان نے تین روز بعد مال روڈ واقعہ پر میڈیا سے معافی مانگ لی‘‘
تفصیل: ’’تحریکِ انصاف کے چیئر مین عمران خان نے مال روڈ پر کارکنوں کی طرف سے میڈیا پر تشدد کے تین روز بعد معافی مانگ لی۔ لاہور میں کارکنوں سے خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ واقعے پر میڈیا سے خصوصی طور پر معذرت کرتا ہوں۔ وہاں جو کچھ ہوا دانستہ نہیں تھا، لیکن جو بھی اس کا ذمہ دار ہے اس کا مکمل احتساب کیا جائے گا۔ ہم میڈیا کا احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر میڈیا زندہ باد کے نعرے بھی لگوائے گئے۔ یاد رہے کہ تین روز قبل حلقہ پی پی 150 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریکِ انصاف کے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کے موقع پر کارکنوں کی طرف سے میڈیا پر تشدد کیا گیا تھا۔‘‘
یہ تو خود تحریکِ انصاف نے غلط کیا تھا کہ میڈیا کے لوگوں پر تشدد کیا۔ سو عمران خان نے معافی مانگ کر اچھا کیا۔ لیکن یہ بات نوٹ کیجیے کہ عمران خان نے نہ صرف معافی مانگی اور میڈیا کا احترام کرتے رہنے کا عہد کیا، بلکہ ’’میڈیا زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی لگوائے۔ یاد رہے کہ یہ وہی عمران خان ہیں، جنھوں نے عدلیہ کے لیے ’’شرمناک‘‘ کا لفظ یا گالی استعمال کی، اور سپریم کورٹ جا کر بھی معافی نہیں مانگی۔ گو کہ سپریم کورٹ نے انھیں معاف کر دیا۔ مگر انھوں نے ’’سپریم کورٹ زندہ باد‘‘ کے نعرے نہیں لگوائے!
بے نظیر بھٹو کا قتل ـ پیپلز پارٹی کا آخری سیاسی اثاثہ
مجھے یقین ہے کہ اگر پیپلز پارٹی سو سال بھی حکمران رہتی ہے، یا رہے تو یہ بے نظیر بھٹو کے قاتل یا قاتلوں کو نہیں پکڑے گی۔ یہ بالخصوص قربانی پسند اور شہادت پسند پارٹی ہے۔ ’’مقصد کے لیے شہادت‘‘ کا نعرہ اس کے 1993 کے انتخابی منشور میں شامل ہے۔ پیپلز پارٹی دانستہ طور پر بے نظیر بھٹو کے قاتل پکڑنا نہیں چاہتی، میرے اس یقین کو ایک اور ثبوت میسر آ گیا ہے۔
یہ خبر دیکھیے: ’’بے نظیر بھٹو قتل کیس، پیپلز پارٹی نے فریق بننے کے لیے درخواست دائر کر دی‘‘
تفصیل بھی ملاحظہ کیجیے: ’’پیپلز پارٹی نے ساڑھے پانچ سال بعد بے نظیر بھٹو قتل کیس میں فریق بننے کے فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں لطیف کھوسہ نے خصوصی عدالت میں درخواست دائر کر دی ہے۔ خصوصی عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ بے نظیر قتل کسی میں فریق بننے کے لیے مطلوبہ دستاویزات فراہم کی جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا حق ہے کہ وہ اپنی شہید قائد کے مقدمے میں فریق بنے۔ بے نظیر قتل کیس ساڑھے 5 سال سے خصوصی عدالت میں زیرِ سماعت ہے، جبکہ مقدمے میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سمیت 8 ملزمان کا ٹرائل جاری ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کا یہ اقدام صرف اور صرف اپنے سیاسی اثاثے سے فائدہ، بلکہ نفع اٹھانے کے لیے ہے! یا پھر یہ ساڑھے پانچ سال کیا کرتی رہی ہے!
کالم نگار کیا کہتے ہیں
اب آتے ہیں آج کے ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے کالموں کی طرف۔ ان سب کو پڑھنے کے لیے اور پھر ان پر رائے زنی کے لیے بہت وقت درکار ہو گا۔ سرسری انداز میں دیکھنے سے جو چیز فوراً نظر میں آئی، وہ ہے ایک کالم کا عنوان۔
عنوان یہ ہے: ’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘
پہلے میں نے سوچا کہ یہ کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی ہو گی۔ یہی دیکھنے کے لیے میں نے پورا کالم دیکھ ڈالا۔ کالم کے آخر میں یہ الفاظ درج ہیں:
’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘
کالم لکھنے والے ہیں ڈاکٹر صفدر محمود۔ یہ ایک نامی گرامی بیوروکریٹ رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے محقق اور مورخ ہیں۔ انھیں ان کی تاریخی کتب پر ’’پرائیڈ آف پرفارمینس‘‘ بھی مل چکا ہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’صبح بخیر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔
انھوں نے جس شعر کا ایک مصرع درج کیا ہے، وہ شعر اس طرح ہے:
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
یہ حبیب جالب کی نہایت معروف غزل ہے۔ پوری غزل ملاحظہ کیجیے:
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
یہ غزل شعروں کی تبدیلی کے ساتھ فلم ’’موسیقار‘‘ (1962) میں شامل کی گئی تھی۔ موسیقار رشید عطرے تھے۔ اس غزل کو سلیم رضا نے گا کر امر کر دیا۔
اس اعتراض پر کالم نگار یہ جواب دے سکتے ہیں کہ انھوں نے مصرعے میں تصرف کیا ہے۔ درست ہے کہ کسی شعر یا مصرعے میں تصرف کیا جا سکتا ہے، پر ایسا کرتے ہوئے اس شعر یا مصرعے کا وزن خراب نہیں کیا جاتا۔ اگر مذکورہ مصرعے میں تصرف ہی مقصود تھا تو اسے یوں ہونا چاہیے تھا: زندہ ہیں یہی چیز بڑی چیز ہے پیارے
پھر بھی میرا اعتراض اپنی جگہ قائم ہے۔ ’بات‘ کی جگہ ’چیز‘ سے مصرعے کے مطلب و معنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو پاتا، بلکہ مصرعے کی گت بن جاتی ہے۔ یہ حبیب جالب اور شاعری کی روح دونوں کے ساتھ بد مذاقی بھی ہے!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں