پہلے ایک نظم ملاحظہ کیجیے، جو میں نے سال 2010 میں لکھی تھی۔ یہ آج بھی حالات کے مطابق ہے۔ بلکہ گزرے برسوں کے ساتھ ساتھ آنے والے برسوں کے حکومت میلوں کا ہو بہو نقشہ پیش کرتی ہے:
میلہ لگا ہوا ہے حکومت کے نام پر
میں تیرے کام کرتا ہوں، تو میرے کام کر
تجھ کو خودی سے اور طریقے سے کام کیا
سب کچھ تو بیچ ڈال، کھرے اپنے دام کر
بیٹھا ہے تیرے سر پہ ہما، تو ہے بادشاہ
یہ عدلیہ، یہ میڈیا، ان کو غلام کر
صبح کو عہد، شام کو پامال کر اسے
پیدا نیا زمانہ، نئے صبح و شام کر
ہاں تو بھی جھول، عظمیٰ وزارت کا جھولنا
جو چیختے ہیں چیخنے دے، اپنا کام کر
دنیا نے ابر و آب سے بجلی کشید کی
بجلی سے زرکشید کا تو انتظام کر
باقی ہے جو اثاثہِ قومی کی ذیل میں
نام و نشان ان کا بخوبی تمام کر
ارضِ وطن ہو، ارضِ جہاں یا ہو سنگِ جاں
تجھ کو پرائی کیا پڑی تو اپنے نام کر
تجھ کو مکاں سے اور مکیں سے شغف ہو کیا
اپنے لیے نیا کوئی پیدا مقام کر
شاہیں ہے تو عوامی بسیرے سے دور بس
پیرس میں چہل قدمی تو لنڈن قیام کر
آئین کیا بلا ہے، یہ قانون چیز کیا
اخلاقیات کو کھلے بندوں نِلام کر
جمہوریت کا جاپ کر اور آمروں سے کام
اپنا بھی کر بھلا تو برائے عوام کر
وہ ابتدا تھا عہدِ عوامی نظام کی
تو انتہائے عہدِ عوامی نظام کر
پانچ سال پورے ہونے کو آ رہے ہیں، اور حکومت میلہ چند دنوں میں ختم ہونے کو ہے۔ جیسا کہ بیوروکریسی، مستقل حکومت ہوتی ہے، تو سیاسی پارٹیوں کی حکومت کو میلے کا نام دیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ میلہ صرف کچھ دنوں کے لیے لگتا ہے۔ جن سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں مینڈیٹ مل جاتا ہے، ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔ یوں ان کی آنکھیں نظر نہیں آتیں، لہٰذا، یہ پتہ نہیں چلتا کہ کوئی شرم و حیا باقی ہے یا نہیں۔ جبکہ باضمیر اور احساسِ ذمہ داری کی حامل پارٹی کے لیے تو یہ ایک ایسا بوجھ ہونا چا ہیے، جس کے سبب سر اٹھانا مشکل ہو۔ بہرحال، ایسے جھمیلوں میں کون پڑے۔ یہ سیاسی پارٹیاں سوچتی ہیں کہ اب میلہ لگ گیا ہے تو کھُل کھیلو، پتہ نہیں یہ موقع پھر کب ہاتھ لگے۔ جب نواز شریف وزیرِ اعظم تھے، تو انھوں نے ایک مرتبہ بیان دیا کہ سیاست میں پایا کچھ نہیں، کھویا ہی کھویا ہے۔ اگلے دن کسی اخبار میں ایک کارٹون چھپا، جس میں وہ کرسی پر بیٹھے ہیں، اور ان کے سامنے میز پر ایک پلیٹ میں ”کھویا“ رکھا تھا۔ اس سے مراد یہ تھی کہ سیاست میں کھویا ہی کھویا ہے۔
سو، میلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ٹینٹ لگ جاتے ہیں۔ مٹھائیوں کی دکانیں سج جاتی ہیں۔ کھانے پینے کے عارضی اڈے کھُل جاتے ہیں۔ سرکس قائم ہو جاتے ہیں۔ کھیل تماشے دکھانے والے بھی پہنچ جاتے ہیں، اور میلے کی رونق دوبالا کرنے لگتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی ہر سطح کے لیڈروں، ورکروں، حامیوں، سپورٹروں، ہمدردوں، واقف کاروں، اورپھر ان کے عزیزوں اور دوستوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ، لطف اندوز ہونے کے لیے میلے میں جا برا جتے ہیں۔ کچھ مخصوص لوگوں کو خود میلے میں آنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی۔ میلہ خود ان کے گھر قدم بوسی کے لیے آ جاتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں، جنھیں اشرافیہ میں سے بھی منتخب اشراف سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان میں سے ایک کے نام میں ’سجاد‘ آتا ہے؛ یہ ہمیشہ ہرحکومت میلے میں میلہ لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور نام میں ’عطیہ‘ آتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور نام ہے، ’شہناز‘ جس کا حصہ ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں، جو ہرمیلے میں ”میں جمعہ جمعہ جنج نال“ بنے موجود ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی اس کے بغیر پھیکی رہتی ہے۔ انھیں زندگی میں کچھ نہیں کرنا پڑتا، سوائے میلہ لوٹنے کے۔
یہ حکومت میلہ یونہی چلتا رہتا ہے، اور وہ بے چارے، جو اس میلے سے باہر ہوتے ہیں ( یعنی حزبِ اختلاف کی سیاسی پارٹیاں)، اور یہ میلہ لوٹ نہیں سکتے، وہ بس باہر سے میلہ دیکھتے ہیں۔ وہ اس حکومتی میلے میں ہونے والی ہر صحیح غلط چیز میں کیڑے نکالنے کا کام سنبھال لیتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ درست بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اصلاً یہ ان لوگوں کا مزا خراب کرتے ہیں، جو میلہ لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات یہ حکومت میلے کے ”قواعد وضوابط“ کو بالائے طاق رکھ کرمیلہ لوٹنے والوں کا مزا کرکرا کر دیتے ہیں۔ لیکن اب حکومت میلے کے قواعد و ضوابط کچھ قبول کر لیے گئے ہیں، اور اب حکومت میلہ خراب نہیں کیا جاتا۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا، جیسے پنجابی میں کہتے ہیں: نہ کھیڈاں گے، نہ کھیڈن دیاں گے۔ یعنی: نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے۔ اور ماضی میں بہت سے حکومت میلے ایسے ہی خراب کیے گئے۔ مگر لگتا ہے اب حکومت میلے کی کوئی اخلاقیات تشکیل پا گئی ہے۔ اب وہ جو للچائی نظروں سے دوسری سیاسی پارٹیوں کو حکومت میلہ لوٹتے دیکھتے ہیں، اس میلے میں کیڑے ضرور نکالتے ہیں، لیکن بڑے بڑے کیڑے نہیں۔ بلکہ بڑے بڑے کیڑوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ یہ بس چھوٹی چھوٹی جوئیں نکالنے پر قناعت کرتے ہیں۔ اور کسی دوسرے کا حکومت میلہ، خراب نہیں کرتے۔
تاہم، ہر میلے کی طرح، حکومت میلے کی بھی ایک مدت ہوتی ہے، اوراسے ختم ہونا ہوتا ہے۔ گو کہ سیاسی پارٹیاں اپنی سی کوشش ضرور کرتی ہیں کہ کسی طرح ان کی حکومت کا میلہ لگا رہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب یہ حکومت میلہ اپنے اختتامی مرحلوں میں داخل ہوتا ہے تو بس ایک لوٹ مچ جاتی ہے۔ یہ میلہ لُوٹنے کی کیفیت پہلے بھی اپنی موجودگی کا پورا احساس دلاتی رہتی ہے، مگر آخر ی دنوں میں تو مارکیٹوں میں ”لوٹ سیل“ لگنے والا نظارہ ہوتا ہے۔ اور جیسے کسی کھُلی جگہ، بڑے میدان میں میلہ لگتا ہے، اور جب میلہ ختم ہوتا ہے، تو وہ میدان بچی کھچی چیزوں سے اٹا ہوتا ہے؛ کہیں ٹوٹے بانس پڑے ہوتے ہیں۔ کہیں زمین میں کھدائی کے نشان موجود ہوتے ہیں، جہاں بانس گاڑ کر اکھاڑ لیے گئے ہوں۔ بالکل ایک ویرانی کا سماں ہوتا ہے، ایسی ویرانی، جیسے کسی بسے بسائے پُر رونق شہر کو لوٹ لیا گیا ہو۔ سو، حکومت میلہ جب ختم ہوتا ہے تو ملک بے چارہ اسی طرح کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ بسا بسایا پُر رونق ملک، لُٹا پُٹا شہر بھنبھور بن جاتا ہے۔
اب اس ملک کے بے چارے شہری پھر صفائی، ستھرائی، اور سنوارنے کے کام میں جُٹ جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں اور آس لگاتے ہیں کہ اس مرتبہ انتخابات کے بعد جو حکومت میلہ لگے گا، امید ہے، وہ بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں گے! اور یوں آئندہ کے حکومت میلے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں!
[یہ کالم 10 مارچ کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں