یہ پوسٹ ایک سابقہ پوسٹ: ’’خان فضل الرحمٰن خان اور ان کا ناول، آفت کا ٹکڑا‘‘، سے جڑی ہوئی ہے۔
جیسا کہ اس پوسٹ میں ذکر ہوا کہ خان فضل الرحمٰن ایک سچے ادیب تھے۔ وہ کہانی اور کردار کے پیچھے چلتے تھے، انھیں اپنے پیچھے نہیں چلاتے تھے۔ پاکستان کیا دنیا میں ایسے سچے ادیب نایاب ہیں۔ انتظار حیسن بھی خان صاحب کی اسی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ اور ان کی گواہی حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔
وہ اپنی کتاب، ’’چراغوں کا دھواں (یادوں کے پچاس برس)‘‘ میں ’’آدھا پاکستان نیا پاکستان‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’مبارک احمد کے تجدید کردہ حلقہ (حلقۂ اربابِ ذوق، لاہور) میں یہ ذمہ داری (یعنی حلقے میں پہلا پتھر پھینکنے، یعنی حلقے میں گفتگو کا آغاز کرنے کی ذمے داری) خان فضل الرحمٰن خان نے سنبھالی۔ کیا نرالے بزرگ تھے۔ لمبے لگ لگ، جسم سینک سلائی، سر سارا سفید، وقت پر ٹی ہاؤس میں قدم رکھتے۔ پہلے چائے کی میز پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھتے۔ پھر بالائی منزل میں جا کر حلقہ کے جلسہ میں شریک ہوتے اور وہاں جو کچھ پڑھا جاتا، اسے اسلامی معیار پر پرکھتے اور رد کر دیتے۔ تحریر میں فحاشی کو بہت جلدی سونگھ لیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود ان کے ناولوں، افسانوں میں یہی رنگ خوب بہار دکھاتا تھا۔ آخر یاروں سے رہا نہ گیا اور ان کے ایک ناول کا حوالہ دے کر کہا کہ اس ناول میں تو آپ نے حد کر دی۔ ہیرو سارے مزے لوٹ کر آخر لواطت کی طرف چل پڑتا ہے۔ ‘‘
’’افسوس سے کہنے لگے کہ ’’کمبخت کو میں نے بہت روکا مگر وہ رکا ہی نہیں۔ میں کیا کرتا۔‘‘
’’مگر آپ کے دوسرے کردار بھی بہت جلدی کھل کھیلتے ہیں۔‘‘
بولے ’’کیا بتاؤں میرے کردار میرے قابو میں نہیں رہتے۔ میں تو ان کی اصلاح کی بہت کوشش کرتا ہوں مگر وہ مخرب اخلاق حرکتوں سے باز نہیں آتے۔‘‘
’’شاہد حمید نے ٹالسٹائی کے ’’وار اینڈ پیس‘‘ کا ترجمہ کیا۔ حلقہ کی ایک نشست میں اس پر گفتگو کا اہتمام ہوا۔ ٹالسٹائی کے بارے میں کہنے والوں نے جو کچھ کہا اسے خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر ایک دم سے ابل پڑے۔ بولے اگر ٹالسٹائی اتنی ہی عظیم شخصیت تھا، جتنا آپ لو گ بتا رہے ہیں تو پھر وہ مشرف بہ اسلام کیوں نہیں ہوا۔‘‘
[دیکھیے چراغوں کا دھواں (یادوں کے پچاس برس)، انتظار حیسن، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، طبع سوم، 2012، صفحات: 263-262]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں