ریاست اور حکومت کا عفریت اس وقت سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، جب اس کے فرمان، ارادے، مفاد، وجود اور بقا پر زد پڑتی ہے! آج کل یہ عفریت ترکی میں جھلّایا، بھِنّایا، اپنے ہی شہریوں پر ستم ڈھا رہا ہے۔ ابھی کل تک ترکی کا کتنا چرچا تھا، دنیا بھر میں۔ پاکستان میں بھی ترکی کی موجودہ حکومت کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ ترکی کے موجودہ وزیرِ اعظم، رجب طیب اردگان نے ترکی میں سول اور سیاسی معاملات میں فوج کے عمل دخل پر روک لگائی۔ بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر جہاں جہاں اور جب جب فوجی افسران کی طرف سے مداخلت یا کسی قسم کی دخل اندازی ہوئی تھی، حکومت اور عدالتیں اس کا نوٹس لے رہی ہیں۔ مقدمات پر مقدمات قائم ہو رہے ہیں، اور سزائیں دی جا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں، رجب طیب اردگان کوایک عظیم مسلم رہنما کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، اور یہ توقعات باندھی جا رہی تھیں کہ کم ازکم مشرقِ وسطیٰ میں ترکی سرکردہ کردار ضرور ادا کرے گا۔ تاہم، اچانک ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا، اوریہ سب کچھ جادو کے کسی محل کی طرح دھڑام سے نیچے آ گرا ہے۔
اگر آپ کبھی ترکی گئے ہوں تو آپ کو استنبول جانے کا موقع ضرور ملا ہو گا۔ اگر آپ استنبول جا پہنچے تو آپ تیکسیم سکیئر (تیکسیم چوک) نہ گئے ہوں، یہ ممکن نہیں۔ دنیا بھر سے جو سیاح ترکی اور استنبول آتے ہیں، وہ تیکسیم سکیئر ضرور پدھارتے ہیں۔ یوں تیکسیم سکیئر دنیا بھر کے سیاحوں کی چہل پہل کا مرکز ہے۔ مجھے بھی تیکسیم سکیئر میں کافی وقت گزارنا نصیب ہوا ہے۔ ایک مرتبہ تو بالکل اس سکیئر میں واقع ہوٹیل میں قیام رہا۔ بہت کشادہ، وسیع اور خوشنما مقام ہے۔ لاتعداد ہوٹیل اس سکیئر کے ساتھ منسلک ہیں۔ سستے بھی، مہنگے بھی۔ ہر قسم کے ریسٹورینٹ بھی موجود ہیں۔ خود کھانوں کی خوشبوئیں، اشتہا کو تیز کرنے کا اشتہار ہیں۔ ترکی کے مقامی کھانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف کھانوں کا امتزاج، اور پھر اسی طرز کا ماحول سونے پر سہاگہ ثابت ہوتا ہے۔ دکانوں اور بازاروں کا تو ذکر ہی کیا۔ ہر نوع کے خریدار کے لیے ہرطرح کی اشیا دستیا ب ہیں۔ اور جہاں اتنا کچھ ہو وہاں دھوکہ اور فریب بھی قسمت آزمانے پہنچ جاتا ہے۔
تیکسیم سکیئر میں کوئی وقت ہی ایسا ہوتا ہو گا جب یہاں رونق، رنگ اور روشنیوں کا میلہ موجود نہ ہو۔ بازاروں کے ساتھ جڑے اس سکیئر کے درمیان میں ایک بڑا قطعۂ زمین ہے، سارے کا سارا پختہ فرش سے آراستہ۔ یہ سفید و سیاہ اور ملے جلے رنگوں کے سینکڑوں کبوتروں کی آماجگاہ ہے۔ یہ کبوتر اِدھر سے اُدھر اُڑ تے پھرتے ہیں۔ یہاں کوئی نہ کوئی ایسا انسان بھی نظر آ جاتا ہے، جو ان کبوتروں کو دانہ ڈال رہا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ انسان کوئی بزرگ ہوتا ہے، یا پھر بچے۔ تیکسیم سکیئر میں دنیا بھر سے آئے ہوئے چہرے، رنگ، قد، فیشن، لباس، زیور، اوردیکھنے کی ہزاروں چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ سکیئر رات کو بھی جاگتا ہے۔ رات کی زندگی کا اپنا نشہ اس سکیئر کو مدہوش رکھتا ہے۔
مختصراً یہ کہ تیکسیم سکیئر دنیا کا آئینہ ہے۔ سیاح تو سیاح ہیں، جس چیز، جس جگہ کا چرچا اور شہرہ سنتے ہیں، ا سے دیکھنے، چکھنے، چومنے، چھونے، سننے، محسوس کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے پہنچ جاتے ہیں۔ تیکسیم سکیئر سے ان کی وابستگی ایک نہ بھولنے والی یاد کی طرح ہو گی۔ یا ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس اسے دل لگا بیٹھے ہوں گے۔ لیکن جہاں تک خود ترکی کے لوگو ں کا تعلق ہے تو تیکسیم سکیئر میں ہونے والے حالیہ احتجاج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس سکیئر کو کتنا عزیز رکھتے ہیں۔ بالخصوص ترکی کے نوجوانوں کا جذبہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ تیکسیم سکیئر ان کی محبوبہ ہے۔ مجھے جب تیکسیم سکیئر کی سڑکوں اور بازاروں میں گزارا وقت یاد آتا ہے تو ترک نوجوانوں کے وہ جوڑے بھی یاد آتے ہیں، جو اس کی روح رواں کی شان رکھتے ہیں۔ باہوں میں باہیں ڈالے، ایک دوسرے سے بغل گیر، ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے۔ اس محبت میں یقیناً تیکسیم سکیئر کی محبت کا مادہ بھی موجود ہوگا۔
آج جب تیکسیم سکیئر کا خیال ذہن میں آتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی ویلین آ گیا ہے، جو ہیرو سے ہیروئین کو چھین لینا چاہتا ہے۔ جیسے کوئی راون آگیا ہے، جو سیتا کو اغوا کر لینا چاہتا ہے۔ جیسے کوئی کھیڑا آ گیا ہے، جو رانجھے کو ہیر سے محروم کر دینا چاہتا ہے۔ یہ ویلین، یہ راون، یہ کھیڑا کون ہے۔ یہی رجب طیب اردگان کی حکومت ہے۔ یہی ترکی کی ریاست ہے، جس پر یہ حکومت براجمان ہے۔ یہ یہی حکومت ہے، جسے ابھی کچھ دن پہلے تک منتخب، جمہوری اور شہری دوست حکومت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ایک چھوٹے سے معاملے پر اس حکومت کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی۔ اندر سے یہ حکومت بھی بس وہی جابر، مستبد، شاہانہ اور مطلق العنان حکومت نکلی۔ اس منتخب، جمہوری، اور شہری دوست حکومت کا منتخباتی، جمہوری اور شہری دوست لبادہ کیونکر اترا۔ یہ حکومت سربازار کیونکر بدنام ہوئی۔ بس ایک چھوٹا سا معاملہ ہے، جسے اس یا کسی بھی حکومت کو مسئلہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔ اس معاملے پر اکڑنا اور اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔ لیکن جو حکومت اصلاً جمہوری ہو، اصلاً شہری دوست ہو، وہ ایسے معاملوں کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بناتی۔ وہ تو شہریوں کے دل کی بات سمجھتی ہے، اسے ایسا کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، جو رجب طیب اردگان کی حکومت نے کیا۔ نہتے شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ گرفتاریاں ہوئیں۔ اظہارِ رائے پر پابندی لگی۔ اظہارِ رائے کے اکثر ذرائع تک شہریوں کی رسائی کو مسدود کر دیا گیا۔
معاملہ بس اتنا ہے کہ حکومت تیکسیم سکیئر میں واقع ایک پارک کو لگژری شاپنگ مال میں تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ مٹھی بھر لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ یہ معمولی سا احتجاج بڑھ کرعام بغاوت کی شکل اختیار کر گیا۔ ہنگامے پھوٹ پڑے۔ شروع میں رجب طیب اردگان کا ردِعمل وہی جابرانہ حکمرانوں جیسا تھا۔ انھوں نے کہا: ’یہ لٹیرے اور شرابی ہیں، اور ان کی تعداد کتنی ہے، گنے چنے چند لوگ۔‘ پھر ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی ایک تقریرمیں جمہوری وزیرِ اعظم نے فرمایا: ’اگر یہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کی بات ہے، اگر یہ ایک سماجی تحریک ہے، جہاں انھوں نے 20 لوگ اکٹھے کر لیے ہیں؛ تو میں بھی 200,000 لاکھ لوگ جمع کر لوں گا۔ اگر یہ لوگ ایک لاکھ لوگ اکٹھے کر سکتے ہیں تو میں اپنی پارٹی سے دس لاکھ لوگ جمع کر کے دکھاؤں گا۔‘ کیا یہ تقریر کسی منتخب جمہوری وزیرِ اعظم کی تقریر ہے۔ جینرل مشرف کی وہ تقریر یاد کیجیے، جو انھوں نے 12 مئی کو اسلام آباد میں کی تھی، جب چیف جسٹس سپریم کورٹ کراچی گئے تھے، اور کراچی کو مقتل کا منظر بنا دیا گیا تھا۔ اسی طرح رجب طیب اردگان کی تقریروں نے تیکسیم سکیئر کو میدانِ جنگ بنا دیا۔ ترکی وزیرِ اعظم کے یہ الفاظ کسی مطلق العنان حکمران کے الفاظ ہیں، جن کے پیچھے ان کی انا اکڑی کھڑی ہے۔ یہ اس مطلق العنان شہنشاہ کی تقریر ہے، جو اپنی زبان سے نکلے ہوئے لفظ کے خلاف ایک حرف بھی سننا نہیں چاہتا۔ بس جو کہہ دیا، وہ ہو گیا۔ کیا ایک پارک کو شاپنگ مال میں تبدیل کرنا، اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ جس پر کوئی حکومت اس قدر سختی سے ڈٹ جائے۔ لیکن بات وہی ہے کہ جمہوری حکومتوں کے لبادے میں جابر حکمران چھپے ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم منتخب ہو گئے ہیں تو ہمیں مطلق اختیار مل گیا۔ ہم جو چاہیں کریں، ہمیں روکنے والا کوئی نہیں۔
جبکہ جمہوریت محض انتخاب جیتنے کا نام نہیں۔ جمہوریت طرزِ حیات ہے۔ طرزِ عمل ہے۔ طرزِ فکر ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ منتخب حکمران کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اسے مطلق اختیارمل گیا۔ جیسے گذشتہ پانچ برس پیپلز پارٹی کے بے ضمیر رہنما فرماتے رہے۔ اسی طرح، منتخب حکمران پارٹی ہونے کا مطلب بھی مختارِ کل بن جانا بالکل نہیں۔ خواہ یہ صوبائی اسیمبلی ہو، قومی اسیمبلی ہو، سینیٹ ہو، یا پارلیمان ہو، یا کابینہ ہو، یا ملک کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیرِ اعظم ہو، کوئی بھی ہو، مینڈیٹ کا مطلب کسی بھی صورت یہ نہیں کہ اپنی مرضی پر عمل کرنے کا مطلق اختیار مل گیا۔ ہر منتخب جمہوری حکومت کے لیے لازمی ہے کہ وہ کسی بھی منصوبے، اقدام اور کسی بھی کام سے پہلے، جس میں ذرہ بھر اختلاف کا امکان موجود ہو، پہلے اسے لوگو ں کے سامنے رکھے۔ اس پر کھل کر بحث و مباحثہ ہونے دے۔ اپنی رائے بھی پیش کرے۔ دوسروں کی رائے کو سامنے آنے دے۔ اور اس عمل کو فطری انداز میں آگے بڑھنے دے۔ کچھ وقت لگے گا، مگر یوں ایک متفقہ رائے تشکیل پا جائے گی۔ کوئی بھی کام ایسا ضروری، فوری اور ہنگامی نہیں ہوتا کہ فرمان جاری ہو اوراس پر عمل درآمد ہو جائے۔ ریاست اور حکومت شہریوں کے لیے ہوتی ہے، اسے ان کی رائے پر چلنا ہے، نہ کہ شہریوں کو ریاست اور حکومت کی رائے پر۔ جابر اور مستبد حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ اگر رجب طیب اردگان اسی طرح اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں تو ان کا انجام بھی جینرل مشرف جیسا ہو گا!
[یہ کالم 11 جون کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں