پہلے درج ذیل خبر دیکھیے۔ یہ 28 اگست کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ہے۔ میں نے اس کی مزید تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ خبر ملاحظہ کیجیے:
یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح اور دوسرے مسلم لیگ رہنماؤں کی تقسیم سے پہلے کی تقاریر سامنے آتی ہیں تو پاکستانی ریاست کی نوعیت کے تعین میں کس بازو کو تقویت ملتی ہے، بائیں بازو کو یا دائیں بازو کو۔
جو بھی ہو، ایک طرف مورخین، عالموں اور صحافیوں کو ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آنےوالا ہے۔ اور دوسری طرف سیاسی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کے لیے ہر دو قسم کے انکشافات کا لمحہ سامنے آنے والا ہے: یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دایاں بازو مزید اکڑ جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بائیں بازو کو نئی طاقت کے ساتھ کمر کسنے کا موقع مل جائے۔
تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مستقبل کو اس مسئلے سے علاحدہ کر کے دیکھنا ضروری ہے، اور پاکستان کے ہر شہری کو پاکستان کے مستقبل کے تعین کا حق ملنا چاہیے۔ یہ حق چند گروہوں کے لیے مخصوص نہیں رہنا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی بازو سے تعلق رکھتے ہوں۔ پاکستان ہر شہری کے لیے ہے اور اسے ایسی بنیادوں پر تعمیر ہونا چاہیے، جن پر ہر شہری اپنی زندگی تعمیر کر سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں