جب فروری 1999 میں وزیرِ اعظم بھارت، اٹل بہاری واجپائی بس پر بیٹھ کر لاہو ر آئے تھے تو یہ پاک بھارت سفارت کاری میں ایک بڑا واضح قدم تھا اور اسے دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی سمت میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا گیا تھا۔ اور ”اعلانِ لاہور“ تو دونوں ملکوں کے لیے ایک بڑی کامیاب جست تھا، جس کا ثبوت یہ تھا کہ مخصوص نظریات و تعصبات رکھنے والے افراد اور جماعتیں نہ صرف اس اعلان پر تلملا ئی تھیں، بلکہ اسے تضحیک کا نشانہ بھی بنایا کرتی تھیں۔
مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنڑول سے روٹین کی خبریں آتی رہتی ہیں؛ یہ جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن 1999 میں بھی آہستہ آہستہ یا شاید اچانک کارگل، دراس سیکٹر کے حالات اور خبریں زیادہ نمایاں ہوتی گئیں۔ پتہ چلا کہ وہاں کچھ بلند چوٹیوں اور مقامات پر مجاہدین قابض ہو گئے ہیں۔ بھارت اس پر بہت مشتعل تھا۔ پھر اس احساس میں شدت آنی شروع ہوئی کہ حالات کافی سنگین ہیں۔ پاکستانی اخبارات بتانے لگے کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ کی سی صورتِ حال ہے۔ بھارت اس لائن کی خلاف ورزیاں بھی کر رہا ہے اور اس پار گولہ باری بھی۔ پاکستان نے بھی جوابی کاروائی شروع کر دی۔ اسی اثنا میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف چین کا دورہ کر آئے۔ تاہم، اب بھی یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسا کہ آج بھی محسوس ہو رہا ہے کہ بالآخر اس کشیدگی کو ختم کر کے بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پا لیا جائے گا۔
مگرکشیدگی بڑھتی گئی۔ پاکستان نے بھارت کے دو دور انداز جنگی طیارے مار گرائے۔ ایک کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ پھر حکومت نے اسے خیر سگالی کے طور پر بھارت کو واپس کر دیا۔ اب دونوں ملکوں کی طرف سے جنگ کی دھمکیاں اُچھالی جانے لگیں۔ بھارت میں پی ٹی وی جیسے چینل کی نشریات دیکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مگر اس سارے ہنگامے میں ایک مثبت اور پر امید بات یہ تھی کہ نہ صرف لاہور - دہلی بس سروس جاری تھی، بلکہ سفارتی طور پر بہتری کی کوششیں بھی۔ پھر وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز کو مذاکرات کے لیے بھارت بھیجنے کا اعلان ہوا۔ مگر ان کی روانگی کی تاریخ ہوا میں معلق رہی۔ پھر وہ اچانک بھارت کے بجائے چین چلے گئے۔ کہا گیا کہ وہ چین سے آ کر بھارت جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ وہ بھارت جاتے، وہاں چین کے دورے کے دوران پاکستان کے چیف آف آرمی سٹا ف جنرل پرویز مشرف اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز کے مابین ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی مبینہ ریکارڈنگ کو سامنے لایا گیا۔ اسے پریس کانفرنس میں سنوایا بھی گیا۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ کے دورے کے بعد بھارتی وزیرِ خارجہ چین پہنچ گئے۔ امریکی صدر کلنٹن نے واجپائی اور نواز شریف کو فون کیے اور گفتگو کے ذریعے کشیدگی ختم کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے کہا۔ اسی اثنا میں امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر انچیف جنرل زینی پاکستان آ پہنچے۔ وہ پندرہ گھنٹے کے دورے پر آئے تھے۔ انھوں نے چیف آف آرمی سٹا ف جنرل پرویزمشرف سے ملاقات کی۔ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف سے بھی ملنا چاہتے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ وزیرِ اعظم مصروف ہیں۔ انہوں نے اپنا قیام بڑھا لیا اور نواز شریف سے مل کر ہی رہے۔ امریکی نائب وزیرِ خارجہ پاکستان کے بعد بھارت چلے گئے۔ یہ خبر بھی آئی کہ کلنٹن ـ نواز شریف ملاقات کا امکان بھی ہے۔ انہی دنوں بھارتی وزیرِ اعظم نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ پھر وزیرِ اعظم نواز شریف خود چین چلے گئے۔ تاہم،انہیں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑا۔ کہا گیا کہ انہیں چین میں کچھ اطلاعات مہیا کی گئی تھیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے دورے کو سمیٹ کر جلد وطن واپس پہنچنے کا فیصلہ کیا۔
اس دوران، اس صورتِ حال کی بہت سی تعبیریں اور تجزیے سامنے آئے تھے۔ پیر پگاڑا کا کہنا تھا کہ یہ نورا کشتی ہے اور یہ ڈھونگ مخصو ص مقاصد حاصل کرنے کے لیے رچایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مضبوط ہوتی ہوئی سیاسی حکومت کو کمزور کرنے کی ایک سازش ہے۔ یہ رائے بھی موجود تھی کہ یہ سب کچھ دونوں ملکوں کے مابین معمول پر آتے ہوئے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ کچھ ”مخلص“ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مجاہدین کی بڑی کامیابی ہے اور اگر حکومت مل کر بھر پور انداز میں مجاہدین کا ساتھ دے تو کشمیر حاصل کرنا دو منٹ کی بات ہے۔ اس سے بہتر موقع کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ سارا کچھ کشمیر کے مسئلے کو کسی ٹھکانے لگانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ غرضیکہ بحرِ ظلمت میں اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑائے جارہے تھے۔ پھر نواز شریف - کلنٹن مذاکرات بھی انجام پا چکے۔
مگر حقیقت میں کیا ہو رہا تھا، یہ شاید پوری طرح ان لوگوں کو بھی پتہ نہیں تھا، جو اس صورت حال کے سرگرم فریق تھے۔ آج بھی یہی صورت ہے۔ حالات خراب کرنا بہت آسان ہے۔ آگ بھڑکانے میں کیا محنت لگتی ہے، لیکن اسے بڑھنے سے روکنا مشکل ہی نہیں، بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بے چارے عام شہری کس کھیت کی مولی ہیں۔ انھیں کیا معلوم کیا ہو رہا ہے۔ کون کر رہا ہے۔ کیوں کر رہا ہے۔ ان تک تو اخبار پہنچتا ہے یا افواہیں۔ ان کا اس سیاست سے کیا تعلق۔ یہ تو دراصل ہائی پالیٹکس ہے۔ جب اس ہائی پولیٹکس کی ہانڈی پک کر تیار ہو تی ہے، انھیں تب پتہ چلتا ہے کہ کیا ہوا۔ آج بھی لگتا ہے کہ کوئی ہانڈی پک رہی ہے!
یہ تو تھی 1999 کی بات۔ اب ذرا اپریل 2011 پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ ورلڈ کپ کرکٹ کا سیمی فائنل ختم ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر پاک بھارت مذاکرات کا جو بخار چڑھا تھا، وہ بھی اُتر چکا۔ سب کچھ بھول بھال گیا۔ اس پر ایک کاٹ دار تبصرہ یہ ہوا: ’وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہِ بھارت کا قوم کو یہ فائدہ ہوا کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے ٹینڈولکر کو دیکھ لیا!‘ ذرا 65 کی جنگ کے بعد سے، اب تک کا حساب کتاب کیجیے: کتنی مرتبہ اِدھر اُدھر سے دورے ہوئے، کتنی مرتبہ مذاکرات ہوئے۔ کھیل ڈپلومیسی اور بیک چینل گفتگو، ان سب کا نتیجہ کیا نکلا۔ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کبھی لگتا ہے کہ بس اب بہت گاڑھی چھننے والی ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ بس اب تعلقات بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔ اسی گو مگو میں چھ دہائیاں گزر گئیں۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ انگریز دونوں ملکوں کے لیے ”فساد کی جڑ“، کشمیر، چھوڑ گئے کہ یہ آپس میں لڑتے رہیں۔ ایک دوست کا اس پر یہ تبصرہ ہے کہ اگر وہ ”فساد کی جڑ“ چھوڑ گئے تو یہ اختیار تو آپ کے پاس ہے کہا آپ اسے حل کر لیں۔
سو، یہ سوال خود اہم ہے کہ اس ”فساد کی جڑ“ کو حل کیوں نہیں کیا جا سکا، یا حل نہیں ہونے دیا گیا۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ جب تک پاکستان کی سویلین حکومتیں با اختیار نہیں بنیں گی (میں با اختیار نہیں ہوں گی، نہیں کہہ رہا)، اس وقت تک پاک بھارت مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جب تک سویلین حکومتیں تمام معاملات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گی، اس وقت تک پاک بھارت مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے۔ جب تک خارجہ پالیسی کی تشکیل سویلین حکومتیں اپنی دسترس میں نہیں لیتیں، اس وقت تک پاک بھارت مذاکرات نشستن گفتن برخاستن تک محدود رہیں گے۔ اور کشمیر سمیت کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اور یقیناً اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک سویلین حکومتیں، وہ آئینی اور قانونی اختیار جو آئین انھیں دیتا ہے، اس کے استعمال پر اصرار نہیں کریں گی، اور مقتدر حلقوں اور پریشر گروپوں کے آگے یونہی دست بستہ کھڑی رہیں گی، اس وقت تک پاک بھارت مذاکرات کا کوئی دور کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ اور اگر کبھی پاک بھارت مذاکرات میں کوئی مثبت پیش رفت ہو بھی گئی تو کوئی نہ کوئی ’کارگل‘ اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔ یا لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں شروع ہو جائیں گی۔ حالات خراب ہونا شروع ہو جائیں گے، اور مذاکرات کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا!
[یہ کالم 27 جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں