منگل، 10 ستمبر، 2013

پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ

نوٹ: اس سلسلے کا پہلا کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت

گذشتہ کالم ”پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت“ میں پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت سے متعلق کامران شفیع کے نکات پر بات ہو رہی تھی۔ وہ مزید لکھتے ہیں:مصنفہ کہتی ہیں: ’اگر پوری قوم اسی مصیبت سے گزری ہوتی، جس سے خیبر پختون خوا کے عوام گزرے ہیں تو نتائج کی سمت کچھ اور ہی ہوتی۔ پارلیمان کے اندر نئے تازہ چہروں کی ایک منڈلی قطاروں میں بیٹھی ہوتی، اور پرانے، فرسودہ، ہمیشہ موجود رہنے والے چہرے حزبِ اختلاف میں چھُپے بیٹھے ہوتے۔‘ یہ کیسی خواہش ہے، باقی کے اس بے چارے ملک کے بارے میں یہ خواہش؛ جیسے کہ انھیں دہشت گردی میں سے اپنا مناسب حصہ نہیں ملا؟ جہاں تک ”نئے تازہ چہروں کی منڈلی“ کی بات ہے، مصنفہ کو ان منتخب لوگوں میں کتنے ”نئے چہرے“ نظر آتے ہیں، جو تحریکِ انصاف کے ٹکٹوں پر منتخب ہوئے ہیں؟ کیا یہ سب کتنی ہی قومی اور صوبائی اسیمبلیوں اور سیاسی پارٹیوں کے معززین نہیں؛ کیا ان میں سے کتنے ہی لوٹے اور لوٹیاں نہیں؟ بلکہ، کیا بعض تو لوٹوں کے سردار نہیں؟

درحقیقت، ” بچوں“ اور ان کی ممیوں کوکیا بات غلط سمجھ آئی؟ کیا وہ حقیقتاً یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ بیلٹ پیپر پر صرف ایک نشان ہو گا: یعنی کرکٹ کا بلّا، جس سے عمران، نواز شریف کو ”پھینٹی لگانے“ جا رہے تھے؟ بچوں اور ان کی ممیوں (اور ڈیڈیوں) کو یہ بات، اگر فوراً نہیں، تو شتابی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اور بھی ہے، جو پاکستان میں رہتی ہے: ان میں لطیف نام کے لوگ بھی ہیں، اور یہ کہ سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو حزبِ اختلاف میں جمے رہنا چاہیے۔ ان لوگوں کے لیے، جن کے اندر عمران خان نے آگ لگائی ہے، روزانہ کی سیاست میں گہری دلچسپی لینے اور آنے والی حکومتوں کی زیادتیوں پر روک لگانے کا یہ ایک بڑا عظیم موقع ہے۔ ہمیں مثبت سوچ اپنانی چاہیے؛ منہ نہیں چھپانا چاہیے، کیونکہ ”ہم اسے غلط سمجھے۔“ اور ویسے ان انتخابات میں پہلی بار مہنگی ترین اور بے تحاشا اشتہار بازی متعارف کروائی گئی؛ کارنر اجلاس اتنے ہی پرانے ہیں، جتنی پرانی سیاست۔ اور جہاں تک انحطاط کی ایسی گہرائیوں میں کبھی نہ گرنے کی بات ہے، تو کیا مصنفہ کو مشرقی پاکستان یاد نہیں آتا؟

یہ تھا کامران شفیع کا جواب۔ اور اب میر ی باری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ مصنفہ کا اندازِ نظر ”عوامیت“ یعنی پاپولزم کی چغلی کھاتا ہے۔ وہ ابتدا ہی اس مفروضے سے کرتی ہیں کہ پاکستانی ووٹر بہت سمارٹ ہیں۔ مراد یہ کہ پاکستانی ووٹر بہت درست فیصلے کرتے ہیں۔ یہی چیز عوامیت ہے؛ یعنی عوام جو کہتے، جو کرتے ہیں، وہ درست ہوتا ہے، اور یہ کہ وہ کبھی غلط نہیں ہوتے۔ یہی عوامیت کا نظریہ ہے، جس کی پیروی میں سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں عوام کے پیچھے چلنے کو ترجیح دیتی ہیں؛ تاکہ عوام ان کے ساتھ لگے رہیں۔ صاف بات ہے کہ پاکستان کے لوگ، انسان ہیں۔ وہ خطا سے مبریٰ نہیں۔ وہ غلطی کر سکتے ہیں۔ ان سے غلطیاں ہوئی ہیں، اور وہ آئندہ بھی غلطی کر سکتے ہیں۔ اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ کسی بھی انسان کے پاس ایسا کوئی نسخہ یا ایسی کوئی کسوٹی موجود نہیں، جس کی مدد سے وہ یہ جان سکے کہ کوئی دوسرا شخص دیانت دار ہے، جھوٹا نہیں۔ وہ اپنا عہد پورا کرتا ہے، یا نہیں۔ اور یہ کہ وہ قابلِ اعتبار اور قابلِ اعتماد ہے، یا نہیں۔ عام زندگی میں بھی ہم، بالعموم، فوراً کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ ہاں، جب کچھ عرصہ کسی شخص کو پرکھ لیتے ہیں، تب اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ پھر جب اعتماد قائم ہو جاتا ہے تو یہ فوراً ختم نہیں ہوتا۔ سیاست میں بھی ایسا ہی ہے۔ لوگ، بالعموم، فوراً کسی سیاست دان یا کسی سیاسی پارٹی پر اعتماد نہیں کر لیتے۔ پھر جب کچھ عرصے بعد وہ کسی سیاست دان یا سیاسی پارٹی پر اعتماد کر لیتے ہیں تو یہ اعتماد فوراً ختم نہیں ہوتا۔ اس میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ مثلاً پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو کم ہونے میں قریباً چار دہائیاں لگیں۔ اسی طرح، مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کے قائم اور مستحکم ہونے کے پیچھے بھی دہائیاں موجود ہیں۔ خود تحریکِ انصاف کو ووٹروں کا حالیہ اعتماد حاصل کرنے میں ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصہ لگا۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی فرد یا سیاست دان، جو عوامیت پر یقین رکھتا ہے، وہ کبھی بدلتے ہوئے حالات، اور لوگوں کی بدلتی ہوئی ترجیحات کو سمجھ نہیں سکتا۔ جب لوگ ان کی خواہش کے مطابق ووٹ نہ دیں تو وہ لوگوں کو رجعت پسند، روایت پسند، جاگیردار پسند، اور اسی طرح کے ناموں سے یاد کرنے لگتے ہیں۔ مصنفہ کی دلیل بس اتنی ہے کہ اگر لوگوں نے بڑی تعداد میں تحریکِ انصاف کو ووٹ دیے ہوتے تو وہ تبدیلی، اورایک بہتر اور روشن تر مستقبل کو ووٹ دینے والے اور سمارٹ ووٹر کہلاتے۔ یہ وہی بات ہے: میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو۔

جیسا کہ مصنفہ اور تحریکِ انصاف سمیت اس کے دانشوروں اور حامیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ تحریکِ انصاف انتخابات میں اچھی کارکردگی کیوں نہیں دکھا سکی۔ وہ خود اپنے اندر، یعنی تحریکِ انصاف کی سیاست کے اندر جھانکنے کے بجائے، دوسروں کو الزام دے رہے ہیں۔ جیسا کہ مصنفہ نے ان لوگوں کو، جنھوں نے تحریکِ انصاف کو ووٹ نہیں دیا، رجعت پسند، روایت پسندی، جاگیرداری، غلیظ پیسے کی سیاست، اور کرپشن سے آشنائی کو ووٹ دینے والا، اور ایک بہتر، روشن تر مستقبل سے منہ موڑ لینے والا قرار دیا۔ جبکہ تحریکِ انصاف قومی سطح پر اپنی ہار کو دھاندلی کا شاخسانہ بتا رہی ہے۔ مزید یہ کہ عوامیت پسند افراد اور سیاست دان لوگوں کو کولہو کا بیل بنائے رکھتے ہیں۔ وہ ایک بہتر اور روشن تر مستقبل کی طرف لوگوں کی رہنمائی نہیں کر سکتے۔ وہ لوگوں کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کے پیچھے چلتے ہیں۔ مراد یہ کہ عوام جو چاہتے ہیں، وہ وہی بات کرتے ہیں؛ وہی نعرے لگا تے ہیں۔ اس کے پیچھے ان کی یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ یوں لوگوں کا اعتماد ہمیشہ کے لیے جیتا جا سکتا ہے۔ اور جب لوگوں کا اعتماد ہمیشہ کے لیے جیت لیا تو پھر جو مرضی کرتے پھرو۔ پیپلز پارٹی کو دیکھ لیجیے۔ کیا پیپلز پارٹی نے عوامیت پر مبنی سیاست نہیں کی۔ اس نے عوامیت کی سیاست کے نام پر لوگوں کے ساتھ کیسے کیسے دھوکے نہیں کیے۔ پیپلز پارٹی کی چالیس سال کی سیاست کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اداروں سمیت ملک کی ہر چیز تباہی کے دہانے پر پہنچی ہوئی ہے۔ تاہم، جہاں تک مصنفہ کی عوامیت کا تعلق ہے تو یہ سرپرستانہ عوامیت ہے۔ یہ وہ رویہ ہے، جو کوئی اشراف، کسی اجلاف کے بارے میں رکھتا ہے۔ جب کوئی ”اجلاف“، اچھا اور قابلِ تعریف کام کر تا ہے تو اشراف اس کی تعریف کرتے ہیں، اور اس تعریف کی توجیہہ یوں کی جا سکتی ہے: واہ بھئی واہ، جو کام اشراف کو کرنا چاہیے تھا، یا جو کام اشراف کا حق بلکہ مراعت تھا، وہ کسی ”اجلاف“ سے سرزد ہو گیا۔ مراد یہ کہ اصلاً ”اجلاف“ اس کام کے اہل نہیں۔ اب اگر ان سے کسی طور یہ کام ہو ہی گیا ہے تو ان کی سرپرستی کرنا ضروری ہے۔

اس کے فوراً بعد مصنفہ ایک نیا اور انوکھا سیاسی نظریہ پیش کرتی ہیں۔ اس نظریے کے مطابق جتنا زیادہ کسی علاقے کے لوگ ابتلا اور مصیبت جھیلتے ہیں، اتنا ہی ان کا سیاسی شعور پختہ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک، چونکہ خیبر پختون خوا کے لوگ دہشت گردی کی آگ میں زیادہ جلے، اور یوں انھیں سچی بصیرت اور واضح آگہی حاصل ہوئی، لہٰذا، انھوں نے بڑی تعداد میں تحریکِ انصاف کو ووٹ دے کر درست فیصلہ کیا۔ وہ اپنے نظریے کا اطلاق، پاکستان کے باقی علاقوں کے لوگوں پر بھی کرتی ہیں۔ مضمرانہ نہیں، بلکہ وہ علانیہ یہ کہتی ہیں کہ اگر پوری قوم اسی مصیبت سے گزری ہوتی، جس سے خیبر پختون خوا کے عوام گزرے ہیں تو نتائج کی سمت کچھ اور ہی ہوتی۔ پارلیمان کے اندر نئے تازہ چہروں کی ایک منڈلی قطاروں میں بیٹھی ہوتی، اور پرانے، فرسودہ، ہمیشہ موجود رہنے والے چہرے حزبِ اختلاف میں چھُپے بیٹھے ہوتے۔ صاف لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ اگرپنجاب، سندھ اور بلوچستان کے لوگ بھی دہشت گردی کی آگ میں اسی طرح جلے ہوتے، جیسے خیبر پختون خوا کے لو گ جل رہے ہیں، توان تینوں صوبوں کے لوگوں نے بھی تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا ہوتا۔ کہیں مصنفہ تحریکِ انصاف کی آئندہ کی حکمتِ عملی کا اشارہ تو نہیں دے رہیں!

[یہ کالم 15 جون کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں